خلیق الزماں نصرتؔ کی تنقید نگاری

 شیخ ارم فاطمہ

خلیق الزماں نصرتؔ ایک عمدہ شاعر، ایک اچھے نقاد، بہترین انشاپرداز و افسانہ نگار، بے باک صحافی ہیں ۔ موصوف بمبئی مرکنٹائل بینک بھیونڈی شاخ میں خدمات انجام دے کرسبک دوش ہوچکے ہیں ۔تنقید و تخلیق سے متعلق خلیق الزماں نصرتؔ کی اب تک دو کتابیں منظرعام پرآئی ہیں ۔ ان کا پہلا تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ’’ شعوری رجحانات‘‘ ہے جو1996ء میں شائع ہوا۔ ’’ علامہ اقبال کے مستقبل کی پیشن گوئی‘‘، ’’ عصری غزل میں حالاتِ حاضرہ‘‘ اور’’ اردو، وادیِ خارمیں ‘‘ جیسے اہم مضامین، تصنیف ہذا کے شاہکار ہیں ۔ اس کتاب میں موصوف کے عملی تنقید کے بہترین نمونے ملتے ہیں ۔

’’ آخری گھڑے کا پانی‘‘ خلیق الزماں نصرتؔ صاحب کی دوسری تنقیدی تصنیف ہے۔ اس کتاب کی اشاعت ادارہ آواز نو دربھنگہ کے ذریعے سنہ 2000 میں عمل میں آئی۔ اس کتاب میں کل نو مضامین ہیں جن کے عنوانات اس طرح ہیں :

(1)غالب کے اشعار میں ریب و تشکیک۔(2) غالب کی شاعری میں انانیت۔(3) احمد فراز: اردو غزل کا عہد آفریں شاعر۔(4) بے آسماں ۔ تصنیف: عبد اللہ کمال۔(5) ظفر گورکھپوری اور ان کی فنی سمتِ سفر۔(6) بیاض فطرت: ایک مطالعہ۔(7) مولاناماہر القادری کے تبصروں میں اصلاح۔ (8) نئی غزل میں زندگی کے حقائق۔(9)پروین شاکر کی غزلوں میں مردوں کی بے وفائی۔

خلیق الزماں کی نصرتؔ نے ’’ پیش رس‘‘ میں کتاب ہذا کے نام کی وجہ تسمیہ یوں بیان کی ہے:

’’ تنقیدی مضامین کے زیر نظر مجموعے کا عنوان’’آخری گھڑے کا پانی‘‘ اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے، یہ نری جدت نہیں ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ جب آبِ معطر اور ہیرے کی طرح چمکتے ہوئے شفاف پانی کا حصول مقصد ہوتا ہے تو اوپر نیچے یکے بعد دیگرے تین گھڑے رکھ دیے جاتے ہیں اور پہلے گھڑے سے دوسرے گھڑے میں اور دوسرے گھڑے سے آخری تیسرے گھڑے میں قطرہ قطرہ ٹپک کر جو پانی آتا ہے، وہ صاف و شفاف ہوتا ہے۔ تنقید بھی اسی آخری گھڑے کا پانی ہے جو تخلیقات کی چھان پھٹک کر کے خالص چیز قاری کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اسی لیے میں نے اپنے تنقیدی مضامین کو’’ آخری گھڑے کا پانی‘‘ کا بلیغ اور بامعنی عنوان دیا ہے۔‘‘ (خلیق الزماں نصرت: آخری گھڑے کا پانی،ادارہ:آواز نو، دربھنگہ، 2000، ص10)

مندرجہ بالا اقتباس خلیق الزماں نصرتؔ کے تنقیدی و تفکری ذہن کا آئینہ دار ہے۔ مضمون بعنوان ’’غالب کے اشعار میں ریب و تشکیک‘‘ اور’’ غالب کی شاعری میں انانیت‘‘ کے مطالعے سے یقیناً قاری ایک نئے غالب سے آشنا ہوتا ہے۔ موصوف کے بیان کے مطابق غالب کی شخصیت کے کئی پہلو تھے، ان میں سے دو نئے پہلووں کو ان مضامین کے ذریعے منکشف کیاگیا ہے۔

پہلے مضمون’’ غالب کے اشعار میں ریب و تشکیک ‘‘کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ محترم مصنف غالب کی شاعری میں ریب و تشکیک کے عناصروافرمقدارمیں موجودہیں ۔ موصوف نے یہاں قاری کو غالب کی ریب و تشکیک سے روشناس کرانے کے لیے بہادر شاہ ظفر کے دونوں استاد غالب اور ذوق کے ادبی و تاریخی معرکوں میں سے ایک معرکے کا مختصر تذکرہ بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ غالب کے شاگرد عزیز، حالی کا شعری زاویہ’’ اصلیت‘‘ سے غالب کے چند اشعارکو پرکھا ہے۔ حوالوں کے طور پر آل احمد سرور کے بیانات کی روشنی میں ریب و تشکیک جیسے عناصر سے مزین اشعار کو نہ صرف پیش کیا بلکہ تشریح و تفہیم کے ذریعے خود قاری کو فیصلہ کرنے کی بھی دعوت دی ہے۔

خلیق الزماں نصرتؔ نے غالب کی شخصیت و کردار، حالات و زندگی اور فکر و فن کا جائزہ لیا ہے، غالب کے اشعار میں پائے جانے والی ریب و تشکیک جیسے عناصر کو نمایاں کیاہے اوراپنے اِدعاکی وضاحت کے لیے ان کے منتخب اشعار کو حوالے کے طور پر پیش بھی کیا ہے اور ان شعری حوالوں پر اپنے تنقیدی شعور سے آخر میں فیصلہ بھی صادر کیا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں :

 ’’غالب بڑے شاعر ضرور تھے لیکن ان کی فکر میں تشکیک اور ریب نے جگہ بنالی تھی۔ یوں بھی ادب میں فن اور کردار کا مسئلہ کافی اہم اور پرانا ہے۔ غالب کی شاعری کا یہ تضاد ان کے پڑھنے والوں کو ایک نئے الجھیڑے میں ڈال دینے کے لیے کافی ہے۔ غالب کے مداحوں کو اس پہلو سے بھی غور کرنا چاہیے۔(خلیق الزماں نصرت: آخری گھڑے کا پانی، ادارہ : آواز نو دربھنگہ، 2000، ص24)

’’ غالب کی شاعری میں انانیت‘‘میں نصرت صاحب لکھتے ہیں کہ اردو شعر و ادب میں غالب کے سوا کوئی ادیب و شاعر ایسا نہیں گزراجس نے غالب کی طرح گالیاں دی ہوں ۔ موصوف کی نظر نے غالب کی اردو شاعری کے علاوہ ان کی فارسی شاعری اور خطوط میں بھی انانیت تلاش کی۔ غالب کی انانیت پراظہارخیال کرتے ہوئے خلیق الزماں نصرتؔ لکھتے ہیں :

’’ غالب کی انانیت فطری اور اختیاری نہیں ہے۔ جن مصائب، ابتلا، امتحان اور آزمائش کے ادوار سے انہیں گزرنا پڑا ہے، آس پاس تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے حالات نے ان کی جدوجہد کے ہر راستے اور ہر زاویے کو الٹ کر رکھ دیا تھا۔ اس لیے ان کی انانیت اور خودسری، مجبوری اور حالات کی منطقی عطا و بخشش تھی۔ وہ ایک حساس اور عبقری شاعر تھے، پے در پے پڑنے والی حالات کی ان چوٹوں نے انہیں ہلا کر رکھ دیا تھا اور انہی چوٹوں کی تپش، جلن اور درد چھپانے کے لیے انہوں نے شاعری میں انانیت، تعلّی کا فن بڑی چابک دستی سے استعمال کیا تھا۔ محرومیوں اور ناکامیوں کے زخم چھپانے کے لیے اس نے دنیا کو بازیچۂ اطفال کہا، اورنگ سلیماں کو تماشا بتایا اور اعجاز مسیحا کو صرف ایک بات کہہ کر خود کو بے نیاز اور سب سے اونچا بتانے کی کوشش کی ہے۔‘‘(آخری گھڑے کا پانی: خلیق الزماں نصرت،ادارہ :آواز نو، دربھنگہ، سنہ2000، ص34)

الگ الگ موضوعاتی کلامِ غالب اور اس کی تفہیم و تشریح، خلیق الزماں نصرتؔ کے تنقیدی ذہن کاغماز تو ہے ہی اس کے علاوہ، غالب کی زندگی کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے موصوف نے جو تجزیہ کیا ہے وہ بھی نہایت قابل قدر ہے۔ آخر میں نیاز فتح پوری کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے موصوف، غالب کی فکر اور فن میں انانیت کے بارے میں تعینِ قدر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’۔۔۔۔غالب کی شاعری میں انانیت کا سبب نہ شوخیِ کلام ہے اور نہ ظرافتِ کلام ہے بلکہ تلخیِ غم اور بے چارگیِ عشق اور حالات کی قہرمانیوں کا ردِ عمل ہے۔ غالب کی انانیت، تعلّی اور خودسری نے تمام معاشرتی، مذہبی اور تہذیبی روایتوں کو مذاق کا نشانہ بنایا ہے۔ غالب کی شاعری میں انانیت کا پتہ اسی طرح ملتا ہے۔‘‘ (آخری گھڑے کا پانی: تخلیق الزماں نصرت،ادارہ: آواز نو دربھنگہ، سنہ2000، ص36)

’’ احمد فراز: اردو غزل کا عہد آفریں شاعر‘‘نامی مضمون کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ احمد فراز نئی روایت کے پرستارتھے۔ خلیق الزماں نصرت نے احمد فراز کی شاعری میں تازگی، فرحت اور انوکھے اسلوب و آہنگ پر طائرانہ نظرڈالی ہے۔

’’ ظفر گورکھپوری اور ان کی فنی سمتِ سفر‘‘ میں خلیق الزماں نصرتؔ نے ظفر گورکھپوری کی شاعری کے مختلف رجحانات،ان کی ترقی پسند شاعری، روایتی غزلیہ شاعری اور جدید شاعری کے تجربوں کاجائزہ لیا ہے۔ موصوف، ظفر صاحب کو منفرد شاعر، نقاد اور محقق تسلیم کرتے ہیں ۔نصرت صاحب نے مختلف تحریکوں ، رویوں اور رجحانات کے پس منظر میں ظفر گورکھپوری کے فکر اور فن کاموازنہ سردار جعفری، جذبی اور مجاز کے فکر اور فن سے کیاہے۔ ظفرگورکھپوری کی شاعری کے بارے میں رقم طرازہیں:

’’ ظفر گورکھپوری اور ان کے فن کے مطالعے کے وقت ان تمام عوامل Factorsکو دھیان میں رکھنا ضروری ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ظفر اور اس کی شاعری ایک نئی اردو غزل کا تازہ وعدہ ہے جو اشتراکی حقیقت پسندی کے مقابلے میں مشرقی سچائی کی ترجمان ہے۔ جو مشرق کے صدیوں پرانے برگد کی جٹائوں ، میناروں ، شنکھوں سے نئے انسان کے گیت گا رہی ہے۔‘‘ (آخری گھڑے کا پانی: خلیق الزماں نصرت، ادارہ:آواز نو دربھنگہ، سنہ 2000، ص77)

نصرت صاحب کا تنقیدی جوہر’’ بیاض فطرت۔ ایک مطالعہ‘‘میں کھل کر سامنے آتا ہے۔’’ بیاض فطرت‘‘ در اصل شبیر احمد راہیؔ کا شعری مجموعہ ہے، جو خود شاعر کے سوادِ خط (ہینڈ رائٹنگ)سے شائع کیاگیاہے۔ موصوف نے اس جدت کو اردو میں قابل قدر تجربہ قرار دیا ہے۔خلیق الزماں نصرتؔ نے شبیر احمد راہی کی مختلف شعری اصناف کی فکرو نظرکوہر زاویے سے پرکھاہے۔زندگی کے سردوگرم حالات، مشاہدات اور تجربوں کو زیر بحث لا کر شاعری کی تفہیم و تشریح کی ہے۔ اپنی بات کومدلل بنانے کے لیے راہی کے منتخب اشعاربھی پیش کیے ہیں ۔ خلیق الزماں نصرتؔ، شبیر احمد راہی کی شاعری کے بارے میں رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ بیاض فطرت کا شاعر، تصوف اور طریقت کے الجھیڑوں سے دور اپنے عہد کے حالات و حوادث کی دنیا میں جیتا ہے۔ وہ جس دنیا میں رہا، جن لوگوں کے درمیان سانس لیتا رہا، وہ ان کے مسائل و معاملات کی ترجمانی، اپنے اشعار میں کرتا رہا۔شبیر احمد راہی ایک شاعر نہیں ، کردار و عمل کے مجاہد بھی تھے۔۔۔۔ سلامت روی، عزم و حوصلہ، خداپرستی، اسوۂ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل اور ملت سے رابطۂ استوار کی پاکیزہ لفظی و فکری فضا، بیاض فطرت کی عظیم دین ہے۔‘‘

(آخری گھڑے کا پانی: خلیق الزماں نصرت،ادارہ: آواز نو دربھنگہ،سنہ 2000، ص96)

خلیق الزماں نصرتؔ کے تنقیدی شعور نے’’ بیاض فطرت‘‘ کو حالِ دل سے زیادہ رودادِ جہاں کی آئینہ دار قرار دیا ہے۔موصوف نے شبیر احمد راہی کے شعری کمالات کوبطریق احسن اجاگرکیاہے۔ اس مضمون کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کتاب کے کل نو مضامین میں یہ واحد مضمون ہے جس میں کسی اور شاعر کے افکار و نظریات سے شبیر صاحب کے افکار و نظریات کا موازنہ نہیں کیا گیا ہے۔

’’ مولانا ماہر القادری کے تبصروں میں اصلاح‘‘ بہترین مضمون ہے۔اس کے مطالعے کے بعد قاری مولانا ماہر القادری کی ذہانت و فطانت، وسیع مطالعہ، آفاقی فکر ونظر اور زاویہ کی گہرائی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ نہایت ہی اہم اور تحقیقی و تنقیدی مضمون ہے۔ رشید حسن خان، کرم حیدری، اسعد گیلانی، محمد ادریس، جوش ملیح آبادی، شوکت تھانوی، اختر شیرانی اور حمایت علی جیسے ادیبوں و شاعروں پر ماہر القادری کی گئی تنقید جو مختلف تبصروں یا مضامین میں بکھری ہوئی ہے،انہیں خلیق الزماں نصرت نے یک جا کیاجوبجائے خودقابل قدرکام ہے۔ بعد ازاں مولانا ماہر القادری کے اصلاحات اور تجزیوں سے بحث کی ہے۔ اظہاربیان کا صحیح استعمال، تراکیب، تذکیر و تانیث، املا، زبان و بیان اور واقعہ کے اعتبار سے جو مولانا کے تبصرے ہیں خلیق الزماں نصرت نے ان کااچھاتجزیہ کیاہے۔ مولاناماہرالقادری کے تبصروں کاتجزیہ کرنے کے دوران موصوف نے ’’صحیح اردو صحیح تلفظ کے ساتھی‘‘، تذکیر و تانیث‘‘، ’’ املا‘‘، ’’تراکیب‘‘،’’ اصلاح سخن‘‘ جیسے ذیلی عنوانات قائم کیے ہیں ۔ خلیق الزماں نصرتؔ، مولانا ماہر القادری کی عقل و دانش کو قاری سے اس طرح متعارف کراتے ہیں :

’’ان کی بالغ نظری، دقتِ فکر و نظر اور ہر چیز کو صحیح معیار پر تولنا اور پرکھنا اور پھر نہایت جراء ت کے ساتھ اس کا اظہار اس زمانے میں یہ بڑی خصوصیت ہے، جو ان کو ودیعت ہوئی تھی۔ وہ ایک ادیب و شاعر، ایک زبان داں اور ناقد تھے لیکن ان کی شخصیت میں علم و معرفت کا جو یگانۂ روزگار جوہر کارفرما تھا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ مولانا کا رسالہ فاران، ایک رسالہ نہیں ، ذہن و فکر کا ایک مدرسہ ہے جس سے ادب کے مبتدی منتہی دونوں جِلا پاتے تھے، ان کا مستقل کالم ہماری نظر میں علم، زبان، شعر، ادب، سائنس، معاشیات، دین، فکر و فن، سیاست کا انسائیکلو پیڈیا ہوتا تھا۔‘‘ (آخری گھڑے کا پانی: خلیق الزماں نصرت، ادارہ: آواز نو، دربھنگہ، سنہ2000، ص111)

’’نئی غزل میں زندگی کے حقائق‘‘کے عنوان سے سجے مـضمون میں ،عنوان’’ سچ‘‘ کے تحت راشد الہ آبادی، نسیم مینا نگری، عبد الحمید، مظفر حنفی، خلیق الزماں نصرت، ظفر گورکھپوری اور احمد فراز کے کلام کا جائزہ لیا گیا ہے۔ عنوان ’’ دشمنی‘‘ کے تحت بشیر بدر، ڈاکٹر نیاز، محبوب راہی، رئیس احمد رئیس، جمال اویسی، انور شعوراور معصوم انصاری کے کلام کاجائزہ لیاگیاہے۔ ’’ عصری حالات‘‘ کے موضوع کو قاسم امام، نظام الدین نظام، اختر حسن اکولوی، اختر آصف، ظفر گورکھپوری اور ملک زادہ جاوید کے کلام میں تلاش کیاگیاہے۔ خلوص اور مکاری کے موضوعات کے اعتبار سے عالم خورشید، یوسف جمال، ندا فاضلی، امام اعظم، نعیم اختر اختر اکولوی کے کلام کی تشریح و تفہیم کی ہے اورموضوع’’ غرور‘‘ کے تحت یوسف جمال، فردوس گیاوی، معصوم انصاری، ظفر غوری، فراق جلال پوری، خلیق الزماں نصرت، محبوب راہی، ندا فاضلی اور علامہ اقبال کا کلام پیش کیاگیا ہے۔

خلیق الزماں نصرتؔ نے نئی غزل میں سچ، دشمنی، عصری حالات، خلوص اور مکاری اور غرور جیسے موضوعات کو انسانی زندگی کے حقائق سے جوڑتے ہوئے مذکورہ شعرا کے کلام پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔یہ موضوعات برسوں سے فراموش کردیے گئے تھے۔موصوف نے ان شعرا کے کلام میں صحت مند اقدارکے حسن اظہار کے ساتھ ساتھ فنی عجزاوربے کیفی اوربے اطمینانی کی بھی نشاندہی کی ہے۔

’’پروین شاکر کی غزلوں میں مردوں کی بے وفائی‘‘اپنی نوعیت کامنفردمضمون ہے۔ اس مضمون میں مصنف نے پروین شاکر کی شخصیت میں چھپی عورت کے دلی جذبات اورکیفیات خودپروین شاکرکے منتخب اشعارکے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

کتاب میں شامل تمام مضامین کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شاعری بالخصوص صنف غزل خلیق الزماں نصرتؔ کی سب سے محبوب صنف سخن ہے۔ ہر دور میں اس صنف کی آبیاری کرنے والے نئے لب ولہجے کے شعرا موصوف کی محبوب ترین شخصیات ہیں ۔ جب بھی شاعری میں صنف غزل کی بات آتی ہے، موصوف کا قلم روانی اختیار کرتا ہے۔ خلیق الزماں نصرتؔ نے شاعری میں اپنے نقطہ نظر کو واضح کرنے کے لیے مباحث پسند رویہ بھی اختیار کیا ہے۔ان کا اظہارِ بیان کبھی نمایاں اورکبھی پیچیدہ رہا۔

خلیق الزماں نصرت، فن کا تجزیہ کرنے کے لیے فنکار کی شخصیت اور کردار کے مطالعے کواولین ترجیح سمجھتے ہیں ۔ مختلف تحریکوں ، معاصرانہ چشمک، رجحانات،پنپتی،پلتی، بڑھتی روایتوں کے پس منظر میں بھی فن اورفن کار کی شخصیت کو قاری سے متعارف کراتے ہیں ۔ معتبر دلائل اور عمدہ حوالوں سے مضامین گومدلل بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے کبھی کبھی مضمون طویل ہوجاتاہے۔انہوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کیاجس سے موصوف کا تنقیدی شعور صاف جھلکتا ہے۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام تنقیدی مضامین پر ڈاکٹر خورشید نعمانی کی رائے پیش کی جائے:

’’ ان کا قلم رواں دواں ہے، وہ پورے عقیدے اور احترام کے ساتھ قلم اٹھاتے ہیں اور اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کرتے ہیں ۔ ان کے بیشتر مضامین تنقیدی و تجزیاتی ہیں ۔ تنقیدی مضامین میں خشکی کے باوجود وہ اپنی تحریروں میں علمی شگفتگی کو ہاتھ سے نہیں جاتے دیتے ہیں ۔‘‘ (آخری گھڑے کا پانی: خلیق الزماں نصرت، ادارہ: آواز نو، دربھنگہ، سنہ 2000، ص65)

تبصرے بند ہیں۔