المنصو ٹرسٹ کے زیر اہتمام کتاب ‘چاندنی دھوپ کی’ کا رسم اجراء

منصور خوشتر

چاندنی دھوپ کی پروفیسر ایم کمال الدین کی کتاب کے سرسری مطالعے سے ان کی علمی لیاقت اور زبان وبیان کا اندازہ ہوتا ہے اور ا س بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ اتنا قیمتی ادیب و شاعر دربھنگہ شہر میں جیتا اور بستا ہے پتہ نہیں انہوں نے گوشہ نشینی کیوں اختیار کرلی ہے، کاش کہ یہ یہاں کی ادبی محفلوں میں پورے طور پر شامل ہوتے رہتے اور ان کی علمی ادبی صلاحیتوں سے شائقین ادب استفادہ کرتے۔ یہ باتیں المنصور ایجوکیشنل ایند ویلفئیر ٹرسٹ کے زیر اہتمام ڈاکٹر آفتاب حسین کمپلکس، دمری منزل سبھاش چوک پر للت نارائن متھلا یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو پروفیسر ایم کمال الدین کی کتاب ’’چاندنی دھوپ کی‘‘ رسم اجراء تقریب کی صدارت کرتے ہوئے معروف شاعر انور آفاقی (دبئی) نے کہیں۔

انہوں نے کہا کہ کمال الدین صاحب نے اپنی اس کتاب میں اپنی آب بیتی کو بہت خوبصورت انداز میں تحریر کیا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی نے کہا کہ ’’پروفیسر ڈاکٹر محمد کمال الدین بلاشبہ ایک ذی علم فنکار ہیں اور بڑے ہی علمی و عرفانی خانوادے سے ان کا تعلق ہ۔ ان کی خود نوشت ’’چاندنی دھوپ کی ‘‘  پڑھنے کے بعد ہی اظہار خیال کیا جاسکتا ہے۔ مجھے ان کے ساتھ (جب وہ صدر شعبۂ اردو تھے) ایک مدت تک کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ان کو ہمیشہ ہی نیک و شریف اور بے باک و حق گو سمجھا۔ صحت و سلامتی کے ساتھ ان کی طویل عمری کی دعائیں کرتا ہوں۔ ڈاکٹرسید احتشام الدین نے رسم اجراء کے بعد کہا کہ ’’پروفیسر کمال الدین کی یہ’’چاندنی کی دھوپ ‘‘خود نوشت ایک کامیاب آپ بیتی ہے۔ اس کے مطالعہ سے زندگی کو ایک نئی روشنی ملے گی۔

ڈاکٹر عالمگیر شبنم نے کہا :’’ڈاکٹر کمال الدین متبحر عالم اور معتبر استاذ رہے ہیں۔ صدر شعبۂ اردو متھلا یونیورسیٹی میں ان کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے تخلیقی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ اب تک ا ن کی چار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر منصور خوشتر نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’پروفیسر ایم کمال کی پیش نظر کتاب ’’چاندنی دھوپ کی ‘‘پریس جانے کے بعد ہی چرچے میں آگئی۔ جیسے ہی کتاب پریس سے منظر عام پر آئی اس خود نوشت نے مقبولیت کی بلندی کو چھونا شروع کردیا۔

کتاب میں ان کی سوانح حیات کے ساتھ ان کے تعلیمی احوال کا ذکر ہے ساتھ ہی شعبہ اردو کی سرگرمیوں کو مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مجیر احمد آزاد (ناظم محفل )نے کہا کہ ’’ا س کتاب کی اہمیت و افادیت کا تعین اس کے محتویات میں شامل ادباء کی آراء آنے کے بعد کا معاملہ ہے۔بہر حال ان کی خود نوشت کا انداز سلیس و رواں ہے۔ اس کی پذیرائی ہونی چاہئے۔ ڈاکٹر احسان عالم نے اپنے گفتگو میں کہا کہ ’’پروفیسر ایم کمال الدین کی کتاب ’’چاندنی دھوپ کی ‘‘کافی معلوماتی کتاب ہے۔ قاری جب کتاب کو پڑھنا شروع کرتاہے اس کے مطالعہ کی جستجو اور بڑھتی جاتی ہے۔

اپنی علمی صلاحیتوں کا استعمال موصوف نے اس کتاب میں کیا ہے۔ اپنی زندگی کے حقائق اور خاص طور سے دور ملازمت کے پیچ و خم کا ذکر کرتے ہوئے چند تلخ جملوں کا استعمال کیا ہے۔ ایسے جملے کچھ حضرات کو ناگوار لگ سکتے ہیں، خواہ وہ حقیقت ہی کیوںنہ ہوں۔ اس موقع پر شہنوار انور، منظر الحق منظر صدیقی، سید احتشام الدین، انام الحق بیدار، کاسب اقبال کمالی، مہدی رضا روشن القادری، ایڈووکٹ فردوس علی، ڈاکٹر محمد بدرالدین، محمد شمشاد وغیرہ موجود تھے۔

تبصرے بند ہیں۔