واقعۂ کربلا کی عصری معنویت:  قرآن و حدیث کی روشنی میں

شاہ اجمل فاروق ندوی

اسلامی کیلنڈر کے پہلے مہینے محرم الحرام کی دس تاریخ کو پوری انسانی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس دن مختلف زمانوں میں بے شمار اہم واقعات رونما ہوتے رہے، جنھوں نے انسانی معاشرے پر بڑے دور رس اور گہرے اثرات مرتب کیے۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے اس تاریخ کو روزہ رکھا اور یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے 9 یا 11؍ محرم کو بھی جوڑنے کا حکم دیا۔ محرم کے مہینے میں یہ دو روزے سنتِ رسول کی حیثیت سے آج بھی اس لیے باقی ہیں کہ اس دن اللہ کے جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی تھی اور حضرت موسیٰؑ کی شخصیت پوری انسانیت کے لیے اور خاص طور پر امت محمدیہ کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس طرح کے بے شمار اہم واقعات ہی کی وجہ سے اس مہینے کو بہت زیادہ تقدس اور حرمت حاصل ہے۔ لیکن برّصغیر میں    ماہِ محرم کو جس واقعے کی وجہ سے شہرت حاصل ہے وہ ہے شہادتِ حسین کا واقعہ۔ نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ۷۲؍جاں باز اہل بیت کے ساتھ حکومت وقت کے خلاف آواز اٹھائی اور آخرکار کربلا کے میدان میں شہادت سے سرفراز ہوگئے۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ دوسرے افرادِ بیت رسول کی شہادت واقعتا ایک افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس لیے کہ ان حضرات کو متعدد اعلیٰ اور پاکیزہ نسبتیں حاصل تھیں اور ان کی شہادت کے بعد دوبارہ کسی کو یہ مقدس نسبتیں حاصل نہیں ہوسکتی تھیں ۔مثال کے طور پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ مرتبۂ صحابیت پر بھی فائز تھے، رسول اکرم کی گود میں کھیلے ہوئے بھی تھے، نواسۂ رسول کی حیثیت سے دنیا کی آخری باحیات شخصیت تھے، حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے آخری باحیات صاحب زادے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے برادرِ خورد بھی تھے۔ اُن کی شہادت سے صحابیت کے علاوہ تمام نسبتوں سے انسانیت ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئی۔اس لیے کہ اس وقت متعدد صحابۂ کرام موجود تھے۔ لیکن یہاں نہ ان نسبتوں کا بیان مقصود ہے اور نہ واقعۂ کربلا کی تفصیل۔ کیوں کہ اس واقعے پر مستند اور غیر مستند ہر طرح کی مختصر و مفصل کتابیں موجود ہیں ، جن میں تمام صحیح غلط روایات کو جمع کردیا گیا ہے۔آج تو ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس اہم تاریخی واقعے کی عصری معنویت کا ادراک کرکے امت کو درپیش بے شمار مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔

واقعۂ کربلا کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد جو چیز سب سے زیادہ روشن اور واضح طور پر نظر آتی ہے وہ ہے خدمت اسلام کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی اور اپنے اہل خاندان کی جان و مال کی پروا کیے بغیر دربارِ ایزدی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کردینااور ایک لمحے کے لیے بھی موت کے سامنے خوف و جھجھک کا مظاہرہ نہ کرنا۔ موت سے بے خوفی اور جان و مال کی بے پروائی حقیقت میں وہ پاکیزہ جذبہ ہے، جس کو پیدا کیے بغیر امت مسلمہ کسی بھی دور میں کامران نہیں ہوسکتی۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی مخصوص مشن اور مخصوص پیغام کو دوام و بقاء عطا کرنے کے لیے یہ جذبہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ بغیر آخری درجے کی لگن اور فدائیت کے کوئی بھی تحریک نہ دنیا میں قائم و دائم رہی اور نہ مستقبل میں رہ سکتی ہے۔ چناں چہ قرآن حکیم نے اِس قیمتی جذبے اور کربلا کے سب سے واضح پیغام کی قدر دانی اِن الفاظ میں کی ہے:

’’إنَّ اللّٰہ یُحِبُّ الذِیْنَ یُقَاْتِلُوْنَ في سَبِیْلِہِ صَفّاً کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوْصٌ(الصف:4)

 بلاشبہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح جہاد کرتے ہیں ۔

ایک اور جگہ ارشاد ہوا:

’’مِنَ المُؤمِنِیْنَ رِجَاْلٌ صَدَقُوْا مَاْعَاْ ہَدُوْا اللّٰہ عَلَیْہِ ، فَمِنْہُمْ مَنَ قَضیٰ نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرْ(الأحزاب:23)

مؤمنین میں سے بہت سے ایسے ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے گئے اپنے وعدے کو سچ کردکھایا، تو اُن میں سے کچھ اپنی مراد کو پاگئے اور کچھ ابھی انتظار کررہے ہیں ۔

اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ نے بھی اپنے ایک فرمان میں ’’دنیا کی محبت‘‘ اور ’’موت کے خوف‘‘ کو زوالِ امت کا حقیقی سبب قرار دیا اور یہ پیشین گوئی بھی فرمائی کہ قیامت کے قریب افرادِ امت سمندر کے جھاگ جیسے ہوں گے۔ یعنی تعداد کے اعتبار سے بے حدوحساب اور وزن کے اعتبار سے بے حیثیت۔ ساتھ ہی راہِ خدا میں نکلنے والوں کو جہنم سے نجات کی بشارت بھی عطافرمائی:

’’مَاْاغْبَرَّتْ قَدَمَا عبدٍ في سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَمَسَّہٗ النّارُ  (صحیح بخاری)

ترجمہ:   جس بندۂ مؤمن کے پیر اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوں اس کو جہنم کی آگ نہیں چھوسکتی۔

اقبال نے بھی اپنے ایک فارسی شعر میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے:

نشانِ مردِ مومن باتو گویم

چوں مرگ آید تبسم برلبِ اوست

ترجمہ:  آئو میں تم کو مرد مومن کی نشانی بتاتا ہوں ۔ وہ نشانی یہ ہے کہ جب موت آتی ہے تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔

واقعۂ کربلا سے حاصل ہونے والا دوسرا بڑا پیغام یہ ہے کہ اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے حالات کی ناسازی کا شکوہ کرنا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا مومن کی شان نہیں ہے۔ ایک سچے مسلمان کا انداز تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق جو کچھ کرسکتا ہو کرگزرے۔ مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کی روشنی میں یہ اہم نکتہ بیان کیا ہے کہ اگر حضرت یوسف زلیخا کے بہکاوے کے وقت یہ سوچ کر بیٹھ جاتے کہ میں بھاگ کر کہاں جاسکتا ہوں ، دروازے تو بند ہیں ، تو وہ کبھی گناہ سے اپنا دامن نہ بچا پاتے۔ لیکن وہ نبی تھے لہٰذا انھوں نے اپنی سی کوشش کی اور دروازے بند ہونے کے باوجود بھی اس طرف بھاگنا شروع کردیا۔ چناں چہ دروازے ایک ایک کرکے کھلنے شروع ہوگئے اور انھیں گناہ سے نجات مل گئی۔ میدان کربلا میں پہنچنے سے پہلے حضرت حسین بھی اسی صورت حال سے دوچار ہوئے۔ لہٰذا انھوں نے نتائج کی پروا کیے بغیر اپنی سی کوشش کرڈالی اور شہادت کی نعمتِ عظمیٰ سے سرفراز ہوئے۔

قرآن کریم نے اس سلسلے میں ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:

وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃ(الأنفال: 60)

ترجمہ:   اور ان کا سامنا کرنے کے لیے جو قوت تم اختیار کرسکتے ہو اس کے لیے تیاری کرو۔

ایک دوسرے مقام پر ان الفاظ کا استعمال فرمایا گیا:

لَاْیُکَلِّفُ اللّٰہُ نفساً إلَّا وُسْعَہَاْ  (البقرۃ: 286)

ترجمہ:   اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اس کی حیثیت کے مطابق ہی مکلف بنایا ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے اس الٰہی ہدایت کو اپنے مبارک الفاظ میں یوں ادا کیا:

مَن رأیٰ منکم مُنکَراً فلیُغَیِّرْہٗ بیدہِ ، وإن لم یستطع فبلسانہ، وإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان۔ (صحیح مسلم)

ترجمہ:   تم میں سے جس کسی کو کوئی غلط چیز نظر آئے تو اس کو چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے اس کو روک دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے اس کو روک دے، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہوتو اپنے دل میں ہی اس کو برا سمجھ لے۔ یہ ایمان کا کم ترین درجہ ہے۔

واقعۂ کربلا سے سامنے آنے والے اِن دو اہم نتائج اور اِن دونوں نتائج یا پیغامات کے قرآنی و حدیثی جائزے سے یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ کربلا کی سرزمین پر شہادت حسین و اہل بیت کا واقعہ عصرِ رواں کے لیے بھی بڑی معنویت کا حامل ہے۔ اس واقعے سے ماخوذ دونوں نتائج یعنی اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے اپنی جان و مال کی فکر نہ کرنا اور انجام کی پروا کیے بغیر اپنی سی کوشش کرڈالنا، امت مسلمہ کے موجودہ تمام مسائل کا حل ہیں ۔ امت مسلمہ اگر اسوۂ حسینی پر چلتے ہوئے خدمت اسلام کے لیے اپنی جان و مال وقف کردے اور ہر آدمی حتی الامکان کوشش کرنے میں لگ جائے تو یقینا عالم اسلام اُن تمام فکری، سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل سے نکل آئے گا، جنھوں نے پوری مسلم دنیا کو اپنے شکنجے میں کس رکھا ہے۔ ورنہ حضرت حسین سے زبانی محبت کا دعویٰ تو غیر مسلم بھی کرتے رہے ہیں ۔

2 تبصرے
  1. آصف علی کہتے ہیں

    بزم ستمگار ————-
    ———————————————————————————-
    .
    جس زمانے میں حسین اور یزید ہوا کرتے تھے اس زمانے کا ایک عام رواج تھا جب جنگ ہوتی تھی تو جیتنے والا فریق ہارنے والے فریق کا مال و اسباب بھی لوٹ لیا کرتا تھا اور اسکی کی عورتوں کو لونڈیاں بنا کر انکی بے حرمتی بھی کیا کرتا تھا اور انھیں بازار میں فروخت کرکے دولت بھی کمایا کرتا تھا –
    .
    یزیدی فوج نے کربلا میں اہل بیت کو شکست دی ، جو مرد سامنے آیا مارا گیا (زین العابدین بیماری کی حالت میں بستر پر لیٹے رہے اور خیمے سے باہر نا نکلے تو انکی جان بخشی ہوگئی) یزیدی فوج نے اہل بیت کی خواتین کو گرفتار تو کیا مگر نہ تو انکی بے حرمتی کی اور نا انکو لونڈیاں بنا کر بازار میں فروخت کیا – یہ تو کھلی کھلی شرافت تھی –
    .
    🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔

  2. آصف علی کہتے ہیں

    ایک انحراف جو مسلم علمی تاریخ پر شیعیت کے اثر کا مرہون منت ہے وہ اس عظیم سانحے کو مذہبی عقیدے کا جذباتی رنگ عطا کر کے اس کے متعلق کسی بھی قسم کی عقلی تجزیاتی کوشش کو بے معنی اور گمراہ قرار دینا ہے. اعتدال کی بات کرنے والوں کو کم ایمان کے حامل ناصبی ظاہر کیا جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ جن محققین نے مکھی پر مکھی مارنے کے بجائے اللہ کی دی ہوئی نعمت عقل استعمال کی ان کو اکابرین کی راہ سے ہٹا ہوا پیش کر کے گویا مجرم بنا دیا گیا. وہ خدا جو ایمانیات پر بھی غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اس کے دین کے علمبرداروں نے تاریخ کو اندھے ایمان کا درجہ دے دیا. اچھے خاصے معقول اہل علم بھی اس معاملے میں اسی کا شکار ہیں. یہ دلیل کہ پہلے کسی کو کیوں یہ نکات سمجھ نہیں آئے غیر منطقی استدلال ہے. روایت کے زیر اثر تفسیر , حدیث اور فقہ سب علوم میں ایسا ممکن ہوا ہے کہ صدیوں تک اذہان وہ پہلو سمجھنے سے قاصر رہے. نظم قرآن او وراثت کا قانون اس کی نمایاں مثالیں ہیں. تاریخ کے فہم میں ایسا کیوں ممکن نہیں. عبادات تک میں جب اجتہاد ہو سکتا ہے تو تاریخ جیسے خالصتا معروضی علم میں کیوں حرام ہے جب کہ اس کا اثر عقائد تک پھیلا ہوا ہے.
    امام حسین اگر گھر میں بیٹھے ہوتے اور ان پر یہ ظلم توڑا جاتا تو ہم بھی اس دکھ میں شریک ہوجاتے لیکن وہ کوفیوں کے بہکانے میں آکر کوفے کا اقتدار حاصل کرنے نکلے تھے جہاں انہیں کوفیوں کی غداری کی وجہ سے کربلا کا سانحہ سہنا پڑا .یہ ایک سیاسی واقعہ تھا مذہبی نہیں ۔لیکن کوفے والوں نے اپنی خباثت چھپانے کے لیئے ان پر ماتم کی روایت ڈالی ..

تبصرے بند ہیں۔