خوابوں کی سوداگر

شہلا کلیم

’’ ڈاکٹر الماس زریں ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے فلک شگاف قہقہہ لگا کر یہ نام پکارا اور بھیڑ کو چیرتی دوڑتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی ۔۔ـ

لوگوں کی چہ مگویئاں عروج کو پہنچی ۔۔ـ

’’میں نا کہتی تھی ریئس کی لونڈیا باؤلی ہو جاوےگی ایک دن ‘‘

’’نہیں آپا باؤلی تو میں تب ہو جاؤنگی جب میرے خواب چھین لیے جائیں گے‘‘

جگر پاش لیے بیٹھے باپ کے کانوں میں اسکا جواب گونجاـ

جب اس سے پوچھا جاتاـ

کیا ہیں اسکے خواب؟؟

کیا ہیں اسکے ارمان؟؟

کیا ہیں اسکے سپنے؟؟

کیا مال و دولت؟؟

زر و جواہر ؟؟

خوابوں کا کوئی شہزادہ؟؟

راجکماریوں سی زندگی؟؟

تب سوہنی ہنسی بکھیرتی ایک ہونکار بھرتی مانو کہہ رہی ہو۔۔۔

’’اے لو یہ بھی کوئی خواب ہیں‘‘

پھر اٹھلا کر جواب دیتی۔۔۔

’’مرینگے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا‘‘

محلے کی آپا کہتی

’’ریئس کی لونڈیا پڑھتے پڑھتے باؤلی ہو جاوےگی کسی دن‘‘

’’تم پاگل ہو الماس کیسے کیسے خواب بنتی ہو‘‘

ہمجولیاں اسکی باتوں پر تُنک جاتیں۔۔۔

’’تم سب پاگل ہو جو ایک بے مقصد زندگی جینا چاہتی ہو ۔۔۔کبھی میرے خوابوں کی دنیا میں آؤ ۔۔۔یہ بے حد حسین ہے زندگی میں کوئی مقصد اور پھر اس مقصد کے حصول کی لگن ایک الگ ہی دنیا میں جینا سکھاتی ہے اور ایک الگ ہی زندگی کا مزہ دیتی ہے ‘‘

’’پرانی ریت نہ توڑو پچھتاؤگی‘‘

اسے نصیحت کی جاتی۔۔۔

’’بھیڑ کے ساتھ چلی تو گم ہو جاؤنگی‘‘

یوں وہ تردید کر دیتی۔۔۔

’’اگر خواب ادھورے رہ گئے تو؟؟

سپنے ٹوٹ گئے تو؟؟

تعبیر نہ مل سکی تو؟؟‘‘

’’تو مر جاؤنگی

اور فسانہ بن کر دلوں میں زندہ رہونگی،

کہانی کار کو ایک جاندار کردار دے جاؤنگی

مہم جو ہار کر بھی نہیں ہارا کرتےـ‘‘

وہ پر عزم لہجے میں جواب دیتی۔۔۔

’’اچھا سنو۔۔۔!! تم سب کے نزدیک لڑکی کی زندگی کیا ہے ؟ تمہارے خواب کیا ہیں؟؟‘‘

وہ ہم جولیوں سے سوال کرتی۔۔۔

’’ گزارے لائق پڑھ لیا اس گھر ماں کا ہاتھ بٹائنگے پھر پیا دیس سدھار کر اپنی تمام زندگی کسی کے نام پہ وقف کر دینگے۔۔۔‘‘

’’مجھے تو کوئی سپنوں کا راجکمار مل جائے جو محلوں کی رانی بنا دے‘‘

دوسری کہتی۔۔۔

’’مجھے تو بس اتنے بچے پسند ہیں‘‘

تیسری کہتی۔۔۔

’’ارے مجھے تو وہی فلمیں پسند ہیں جن میں ہیرو ہیرویئن مل جایئں شادی بیاہ ہو اور بچے ہوں اچھی فیملی ہو اور پھر‘‘

’’اور پھر؟؟؟‘‘

وہ سوالیہ نگاہیں اٹھاتی؟؟؟

“اور پھر کیا پھر کچھ نہیں اچھی زندگی کیلیے اتنا ہی کافی ہے…”

” اور پھر ایک بے مقصد زندگی جی کر گمنام مر جاؤ… ہے ناں؟؟”

لبوں پہ مسکراہٹ سجائے استفہامیہ انداز میں بھنویں چڑھا کر وہ آنکھوں میں جھانکتی…

“بھیڑ کے ساتھ مت چلو گم ہو جاؤگے اور کبھی گر گئے تو یہ تمہیں روند آگے نکل جائگی”

“تم سے تو بات ہی کرنا فضول ہے الماس افسانوی دنیا کی باسی ہو تم”

لڑکیاں اس سے خفا ہو جاتیں…

“یہ اچھا فلسفہ ہے پہلے پرایا دھن پھر دوسرا گھر پھر بچے پیدا کرو اور یونہی بچپن جوانی بڑھاپا جیسی سرحدوں کو عبور کرکے بے مقصد زندگی جی کر گمنام موت مر جاؤ”

وہ بڑبڑاتی تو ساتھیاں پھر سوال کرتی…

“بچپن، جوانی، بڑھاپا کیا تم ان سب سے خود کو بری سمجھتی ہو؟؟ کیا تم شادی نہیں کروگی کیا تم بچے پیدا نہیں کروگی؟؟”

“ضرور کرونگی یہ تمام فرائض بھی بحسن خوبی انجام دونگی یہ قانون فطرت ہے کوئی اس سے بری نہیں لیکن یہ سب تو جانور بھی کرتے ہیں جبکہ انسان سپنے دیکھتا ہے اسکی زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے اور اسکے حصول کی لگن ہی اسے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے اور اگر ریت رواج سے ہٹ کر میں نے ایک چھوٹا سا خواب دیکھ لیا تو اسمیں برائی کیا ہے…”

“جانے کس قسم کی لڑکی ہو تم”

لڑکیاں جھلا اٹھتی…

میں خوابوں کی سوداگر ہوں”

وہ شان سے کہتی…

“اور اس سوداگری کی تعریف؟؟”

“زندگی میں کسی خاص مقصد کا تعین ، اسکے حصول کے خواب پھر انکی تعبیر کی تلاش اور اس راہ میں ہوا تمام نفع و نقصان ہی خوابوں کی سوداگری ہے…”

“اگر اس تجارت میں گھاٹا ہوا تو؟؟”

“انجام کے خوف سے آغاز نہ کرنا ہی ناکامی ہے”

پھر یوں بے نیازی سے شانے اچکا کر دلفریب سی مسکراہٹ لیے دندناتی آگے بڑھ جاتی گویا تمام ہم جولیوں کے جوانی بھرے سپنے اپنے پیروں تلے روند گئی ہوـ

اور پھر واقعی اسکے خواب چھین لیے گئےـ

“بھیا پڑھ کر نہیں دیتا اسلیے سب پریشان ہیں اور میں پڑھنا چاہتی ہوں اسلیے بھی سب پریشان ہیں اس قدر کھلا تضاد

آخر کیوں؟؟؟”

“بہت پڑھ لی لاڈو اب اپنے گھر جاکر پڑھیو

ارے کہاں سے لاوینگے ہم اتنا پڑھا لکھا لڑکا اپنی برادری میں

کہاں رکھے پڑھے لکھے چھوکرے کل کی اونچ نیچ بھی تو دیکھنی ہے

مرد اپنی ساتھی سے دس قدم آگے ہی رہنا پسند کرے ہے…”

“ماں میں نے کچھ زیادہ تو نہیں مانگا لڑکی سے متعلق اگر اگلی زندگی کے اس قدر خوف اور وسوسے ہیں تو کم از کم ماں باپ کے گھر تو وہ اپنے ارمان پورے کر سکےـ آخر وہ کس زندگی میں اپنے لیے جئےگی؟؟”

“اری پرے ہٹ یاد رکھیو اگر پانی سر سے اونچا ہوا تو باندھ بنا دیا جاوےگا قید پڑی رہنا پھر کس نے کہا تھا اوقات سے بڑھ کر خواب دیکھنے کو…”

“حد سے زیادہ قید و بند اور پابندی بغاوت کا سبب ہوتی ہے”

“جان رکھ بغاوت کی سر کوبی بھی ہمیں اچھے سے آوے ہےـ”

اور اس لمحے چاہتیں لٹانے والی ماں اسے سوتیلی ماں جیسی لگتی جسکے سامنے مشفق باپ لاچار و بے بس ہو…

اور پھر سر ابھارنے سے پہلے ہی سر کچل دیا گیاـ اسے قید کر دیاـ کس پنجرے میں؟؟؟ یہ غیر ضروری ہےـ

ماں نے ہی بتایا تیرے ہونے والے میاں نے صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اب پڑھنا پڑھانا ختم کرے جوان جہان لڑکیاں گھر میں ہی اچھی لگتی ہیںـ

آج اس نے کوئی مخالفت نہیں کی، کوئی التجا نہیں کی، کوئی فلسفہ نہیں جھاڑا کیونکہ جانتی تھی جس قفس میں قید کی جا رہی تھی وہاں رہائی کی کوئی تدبیر کارگر نہ تھی امید کی کوئی کرن دکھائی نہ پڑتی تھی ماں باپ کو دنیا والوں کے طعنے روکنا تھے اور شریک سفر کو احساس کمتری کی آنچ سے محفوظ رہنا تھاـ چپ چاپ رات کمرے میں جانے سے پہلے بھیا سے بس اتنا کہا …

“تو خوب پڑھنا تاکہ میرے جیسی کسی خوابوں والی کو تعبیر مل جائےـ

تاکہ ہمسفر پڑھی لکھی ہو تو مرد کو احساس کمتری نہ کھا جائےـ”

ساری رات گزرنے کے بعد صبح دن چڑھے تک جب باہر نہ نکلی تو ماں خود ہی پہنچ گئی

دروازہ کھلا اور منظر بدل گیا سانسیں اٹکنے لگی ،

کلیجہ منھ کو آگیا، دل پھٹنے لگا، ماں نے چیخ ماری باپ نے جگر تھام لیاـ

پیش منظر پر ہر دل افسردہ، ہر نفس غمگین، ہر وجود لرزاں، ہر شخص اداس، ہر آنکھ نمناک، ہر زبان گنگ

لیکن اس سکوت کو توڑتا ایک بلند و بانگ قہقہہ ـ اور اس کھوکھلے قہقہہ میں گونجتی ایک دلخراش آواز ـ

آواز کیا تھی ایک کرب تھا ،ٹوٹے ارمانوں کی کرچیاں تھی، بکھرے سپنوں کا درد تھا اور ادھورے خوابوں کی اذیت تھی ـ

اس نے جنونیت میں بال نوچ ڈالے تھے لباس چاک کر لیا تھا پورے کمرے میں اخبار رسالے کتابیں پھٹی پڑی تھیں ہر طرف اسکے لکھے مضامین اور کہانیوں کے اوراق بکھرے پڑے تھے اور فرش پہ پڑی ایک ڈائری سلگ رہی تھی جو نذرِ آتش کر دی گئی تھی ـ

اسکے وحشت زدہ چہرے پر ویران آنکھیں تھیں جنہیں بے خواب کر دیا گیا تھا، ان تشنہ لبوں پر ایک دیوانہ وار قہقہہ جنہیں سیراب نہ کیا گیا تھا، اور زباں پر ایک جملہ جو مکمل نہ ہو سکا تھاـ

“مصنفہ ڈاکٹر الماس زریں”

بس یہی نام تھا اسکا وہ خواب جس کی تعبیر نہ مل سکی تھی ـ

اماں چوکھٹ پہ بے سدھ پڑی تھی ـ ابا نے آستین سے آنکھیں رگڑی دل پہ ہاتھ رکھا اور بکھرے اوراق چننے لگے یا بکھری داستان؟ کیا نام دیتے اوراقِ پریشاں، اوراقِ زیست یا اوراقِ جنوں؟

دیوانگی کے عالم میں آگے بڑھے اور ادھ جلی ڈائری اٹھا لی جلدی جلدی اوراق الٹے…

پہلا ورق 

“یاد ہے نا ماں وہ چھوٹی بچی جو ایسی فراٹے دار انگریزی پڑھا کرتی تھی کہ محلے والے دنگ رہ جاتے ـ یاد ہے نا وہ بچی جسے بھیڑ سے نکال کر زبردستی گود میں اٹھاکر اسٹیج پر چڑھا دیا گیا اور انگریزی نظموں کی فرمائش کی گئی لیکن چونکہ زندگی کا پہلا اسٹیج ، کم سنی کا عالم، سامنے بے تحاشہ بھیڑ وہ کانپ اٹھی ہاتھ پاؤں لرزنے لگے زبان پہ جیسے قفل پڑ گئے ہوں بہتیری منتیں کی گئیں مگر بے سود گھر آ کر ابا نے خوب ماراـ میں وہی بچی ہوں ـ یہ واقعہ اس قدر کم سنی میں پیش آیا کہ اسکی کوئی دھندلی یاد بھی میرے ذہن میں موجود نہیں ہمیشہ آپکی زبانی ہی سنتی آئی ہوں لیکن ہاں اس واقعہ نے میرے ذہن پر ایسی چھاپ چھوڑی کہ اسکے بعد میری زندگی کا کوئی اسٹیج، کوئی مقابلہ، کوئی میدان میں نے ہاتھ سے نہ جانے دیاـ اب سوال یہ ہے کہ وہ بچی جس کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر اسے زبردستی اسٹیج پر چڑھا دیا گیا تھا آج جبکہ وہ اسکی عادی ہو چکی ہے تو کیوں اسے اسکی منزل سے دور کیا جا رہا ہے؟؟ جب وہ خواب دیکھنے لگی ہے تو کیوں اسکی آنکھوں کو ویران کیا جا رہا ہے؟؟ صرف اس لیے کہ اب وہ بچی نہیں اور ایک لڑکی ہے؟؟”

دوسرا ورق 

’’مجھے پرانے پیپل کا وہ درخت بہت یاد آتا ہے جس کی چھاؤں میں بوڑھا مالک کتابوں کے ڈھیر کے بیچ ناک پہ دبیز عینک ٹکائے سر جھکا کر کتابوں میں منہمک رہتا میری ساتھیاں جیب خرچ سے سجنے سنورنے کی چیزیں خریدتیں اور میں اس بوڑھے مالک سے کہانیوں کی کوئی کتاب خرید لاتی ـ وائے قسمت!! کہ بچپن جاتا رہا اور وہ پیڑ ایک خوبصورت یاد بن گیا مجھے اپنی وہ ہم درس بھی بے حد عزیز تھی جو ہوم ورک کرنے کے عوض مجھے کتابیں لاکر دیتی تھی ‘‘

تیسرا ورق 

’’مجھے سیاحت کا شوق تھا کیونکہ میں دنیا کو جاننا چاہتی تھی ـ نئے نئے لوگوں کی زندگی سے واقفیت دنیا کے مختلف خطوں کے مختلف چہروں کو پڑھنا ، سمندروں کی گہرائی پرکھنا ، پہاڑوں کی بلندیوں سے اونچا سوچنا میرا شوق تھا مگر میں جانتی تھی یہ غیر ممکن تھاـ پھر میں نے کتابوں سے دوستی کر لی اور میرے اس شوق کو میری کتابیں بحسن خوبی پورا کرتی رہی ـ میں تنہائی میں کتابیں اور محفل میں چہرے پڑھنے لگی یہی وجہ ہے کہ میری سہیلیاں مجھ سے کہتی‘‘

“تو نفسیات پہ پی ایچ ڈی کرکے پیدا ہونے والوں میں سے ہے”

“پی ایچ ڈی” سنتے ہی میری بانچھیں کِھل جاتی ـ بس یہی تو تھا میری منزل کا آخری پڑاؤ ـ

چوتھا ورق 

میں پڑھنا چاہتی تھی مگر میرا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ میں پسماندہ بستی کے پچھڑے طبقے کی چھوٹی برادری کے ایک متوسط گھرانے کی “لڑکی” تھی ـ

لیکن سب یہ کیوں بھول گئے کہ کنول کیچڑ میں ہی کھلا کرتے ہیں اگر وہ کنول میں بننا چاہتی تھی تو کیا برائی تھی؟؟

میں جانتی ہوں میرے اپنے اس قدر آزاد خیال کہ انکی آزاد خیالی دوسروں کی بیٹیوں کو پرواز بھرتا دیکھ واہ واہی کرنے تک محدود ہے لیکن اگر یہی اڑان میں بھرنا چاہوں تو ایک لڑکی ہوں…

آٹھویں تک تعریفیں ہوتی رہیں دوسویں تک تنبیہہ کا سلسلہ شروع ہوا اور انٹرمیڈیٹ کے بعد طعن و تشنیع ـ لڑکی ذات ہے کیا کرے گی پڑھ کر، کرنا تو چولہا چوکا ہی ہے، کل کا بھی سوچا ہے یا نہیں ـ اور پھر لوگوں کے یہ طعنے طول پکڑتے گئےـ۔

پانچواں ورق 

“لڑکی ہے چولہا ہی جلائگی” جیسی کہاوتوں کو کبھی اپنے خوابوں کے آڑے نہ آنے دیاـ جب میرا ذہن ایجادی ہونے پر اتارو ہوتا تو آٹا گوندھنے سے لیکر روٹی بنانے کے وقفے میں ایک پلاٹ مرتب کر چکا ہوتا اور اس عمل سے فراغت کے بعد میرا قلم ڈائری کے صفحات سیاہ کرنے میں مگن ہو جاتا۔ ـ

“الماس زریں” بے حد ہے عزیز ہے مجھے یہ نام اور اس سے بھی زیادہ عزیز ہے اسے مکمل کرنے کا خواب ـ میرا نام میری پہچان ہے اور ادھوری پہچان مجھے منظور نہیں ـ کس قدر مکمل اور منفرد سا ہے “مصنفہ ڈاکٹر الماس زریں”

چھٹا ورق 

’’بے ترتیبی مجھے کہیں پسند نہیں نہ گھر میں، نہ رشتوں میں اور نہ زندگی میں شاید یہی وجہ ہے کہ میرے سگھڑ پن اور سلیقے مندی کی مثالیں دی جاتی ہیں ـ سنا ہے میرے ہاتھ کے کھانے بھی بڑے مزےدار ہوتے ہیں ـ یہ تمام کام کرتے ہوئے میں سب کو پسند ہوں اور پڑھتے لکھتے وقت کانٹے کی طرح چبھنے لگتی ہوں صرف اس لیے کہ میرے پسماندہ طبقے میں مرد کمانے کی مشین ہے اور لڑکی کی صلاحیتیں رسوئی تک محدود ہیں ـ اپنے بیٹوں کو وراثت میں دولت کے انبار دینے کی بجائے علم کی دولت کیوں نہیں دیتے؟؟ تاکہ کسی لڑکی کو اسکے خوابوں کی تعبیر مل سکےـ کیوں بھول گئے کہ اگر وہ ناکارہ نکلا تو سب بیچ کھائےگا اور کامیاب ہوا تو خود محل تعمیر کرلےگاـ‘‘

ساتواں ورق 

’’اندھیری کوٹھری کے قیدی کو امید کی ایک کرن ہی زندگی کی وجہ دیتی ہے اور جب وہ کرن ہی چھین لی جائے تو دم گھٹنے لگتا ہےـ مجھ سے بھی امید کی آخری کرن چھین لی گئی ـ آج تک ایک امید کا دامن تھام کر میں اپنے خوابوں کے پیچھے بھاگتی رہی ـ اس راہ میں آنے والی دشواریوں کی ایک لمبی کہانی ہےـ مختصرا یہ کہ دن بھر گھر کے کام سے فراغت کے بعد جب تھکی ماندی بستر پہ جاتی تو کئی کئی پہر اپنے خواب کی تکمیل میں رتجگے کرتی دن میں کام راتوں کو پڑھائی کرتی انٹر کے بعد رو دھو کر فاقے اور ضد کرکے پرائویٹ ہی سہی میں نے گریجویش اور پھر پوسٹ گریجویشن کیاـ اپنی پسندیدہ یونیورسٹی کو گرو دروناچاریہ مان کر میں ایکلویہ بن گئی اور دن رات نجی ابھیاس کرتی رہی ـ جی توڑ محنت رنگ لاتی گئی ٹاپ پوزیشن کے ساتھ ساتھ کالج کی ایک بہترین مقررہ اور محررہ ثابت ہوئی حوصلوں کو اڑان ملی اور خوابوں کو راہ ـ مگر دنیا نے گرو دکشنا میں میرے خواب ہی مانگ لیےـ منزل کے اس قدر قریب پہنچ کر کہ ہاتھ بڑھاؤں تو منزل چھو لوں میرے بڑھے ہاتھ کو پیچھے کھینچ لیا گیاـ اور مجھے ایک ایسی اندھیری قید میں ڈال دیا گیا جہاں امیدیں دم توڑتی ہوں، حوصلے پست ہو جاتے ہوں اور مہم جو شکست خوردہ ـ قصور کیا تھا صرف اتنا کہ ایک پچھڑے علاقے کے جہالت بھرے ماحول میں پل کر چھتوں پہ چڑھ کر عشق لڑانے کی بجائے میں کتابوں سے عشق کر بیٹھی تھی ‘‘

پیچھے بھیڑ سے ایک محلے دار کی آواز آئی۔۔۔

“آپا کا کہنا سچ ہوا ریئس کی لونڈیا دن رات پڑھ پڑھ کے باؤلی ہو گئی ایسی پڑھائی پہ لعنت ہم تو دور ہی رکھینگے اپنی بچیوں کو…”

ڈائری کے بقیہ اوراق نہ کھل سکے خواب جل کر راکھ ہو گئے تھے ـ

تبصرے بند ہیں۔