خواب آتے ہیں، جگاتے ہیں چلے جاتے ہیں
سالک ادؔیب بونتی
خواب آتےہیں، جگاتے ہیں چلے جاتے ہیں
آنکھ سے نیند اُڑاتے ہیں چلے جاتے ہیں
…
جانےکیاسوچ کےملتےہیں خداہی جانے
لوگ صدمات سناتےہیں چلے جاتے ہیں
…
کچھ توایسےہیں زمانےسےجداہوکربھی
اپنا کردار نبھاتےہیں چلے جاتے ہیں
…
دردمیں کچھ بھی افاقہ نہیں ہوتاجب لوگ
ہم سے بس ہاتھ ملاتےہیں چلےجاتےہیں
…
بیٹھ کر شاخِ صنوبر پہ پرندے اکثر
داستاں اپنی سناتےہیں چلے جاتے ہیں
…
کتنےمعصوم ہیں سب یارہمارےدیکھو
دل میں امیدجگاتےہیں چلے جاتے ہیں
…
رہزنِ قوم ہیں رہبرکےلبادے میں ادؔیب
آگ گھرگھرمیں لگاتےہیں چلےجاتے ہیں
تبصرے بند ہیں۔