خواب غفلت میں ہے یہ قوم جگانا ہوگا

احمد علی برقی اعظمی

دشمنِ جاں مرا کب تک یہ زمانا ہوگا

میں نے کیا اس کا بگاڑا ہے بتانا ہوگا

جانے سونے سے ملے گی اسے کب تک فرصت

’’خواب غفلت میں ہے یہ قوم جگانا ہوگا‘‘

اس کے کردار کی پستی کا نہ پوچو عالم

گر رہی ہے جو اسے پھر سے اُٹھانا ہوگا

اپنے اسلاف کی عظمت سے نہیں جو واقف

از سرِ نو یہ اسے پھر سے بتانا ہوگا

عہدِ حاضر کے تقاضوں سے جو ہیں روگرداں

بے عمل ہیں جو انہیں کرکے دکھانا ہوگا

منتشرمسلکی بنیاد پہ ہیں جو اب تک

پھر انہیںنغمۂ توحید سنانا ہوگا

رہنما جن کا نہیں عہدِ رواں میں کوئی

ایک مرکز پہ انہیں پھر سے بُلانا ہوگا

آج خطرے میں ہے خود قومی تشخص جس کا

اُس کو اَس قعر مزلت سے بچانا ہوگا

اس نئے دور میں کردار و عمل سے اپنے

ہم ہیں کیا خود یہ زمانے کو بتانا ہوگا

ورنہ جینے نہیں دیں گے یہ ہمیں اہلِ جہاں

تفرقے جو ہیں انہیں مِل کے مٹانا ہوگا

میری یہ طرحی غزل سوز دروں ہے میرا

میری آواز میں آواز مِلانا ہوگا

جس کا کرتے رہے اقبال تقاضا تا عمر

کیا کوئی ’’بانگ درا‘‘ اور بھی لانا ہوگا

دفن ہو جس میں نئے دور کی ممتاز محل

کیا کوئی تاج محل اور بنانا ہوگا

خاک ہو جائے نہ کاشانۂ ہستی اپنا

شعلۂ بغض و عداوت کو بجھانا ہوگا

اب بھی ہے وقت سنبھل جائیں تو اچھا ہوگا

کیا ہے توحید یہ برقیؔ کو بتانا ہوگا

تبصرے بند ہیں۔