خواتین کا تحفظ: بے سود جشن  اور بے معنی تحائف

عمیر کوٹی ندوی

خواتین کے مسائل اور تحفظ  کے پیش نظر ریلوے کی طرف سے  کچھ قدم اٹھائے گئے ہیں۔ وزارت ریل نے کیرلا میں شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے کے لئے ریلوے اسٹیشن پر "بریسٹ فیڈنگ کیبین” فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا آغاز  اس ریاست کے کولّام ریلوے اسٹیشن سے کیا گیا ہے۔ اس کام کے پہلے مرحلہ کے لئے ‘رائل سٹی’ نے سرمایہ فراہم کیا ہے۔ اس کیبین میں خواتین اور بچے سے متعلق ضروری سہولیات موجود ہوں گی۔ اسی طرح   ریلوے نے تنہا سفر کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کی حفاظت کے لئے خصوصی کمپارٹمنٹ کا نظم کرنےکی ہدایت دی ہے۔ اس کے مطابق تنہا خاتون یاخواتین کے گروپ کو کوچ میں ایک جگہ پر 6برتھ مہیا کی جائیں گی جو خواتین کا مخصوص کمپارٹمنٹ ہوگا۔ اسی طرح مشرقی ریلوے نے بھی کہا ہے کہ "حفاظت ہمارے لئے  سب سے زیادہ قابل ترجیح  ہے۔

اس معاملہ میں کوئی بھی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا”۔ اسی طرح حکومت نے زرعی شعبے میں خواتین کو زمین، تکنیک اور پونجی تک رسائی دینے پر زور دیا ہے۔ سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں خواتین کو زمین، پانی، پونجی اور تکنیک تک رسائی دینے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ان اقدام کو یوم خواتین کے موقع پر انہیں دیا جانے والا تحفہ تصور کیا جارہا ہے۔ یہ خیال کچھ غلط بھی نہیں  ہے۔ اس لئے کہ  ہمارے ملک کے انداز حکمرانی اور طرز سیاست  میں مواقع اور مناسبت کا خیال رکھنا عام بات ہے۔

 یہ بات الگ ہے کہ ہمارے یہاں کی سیاست اور معاشرہ بعد میں سب کچھ بھول جاتا ہے۔ پانی تھوڑی ہل چل کے بعدصاف ہو کہ گدلا  پہلے ہی کی طرح اور اسی رفتار  سے بہنے لگتا ہے۔ عالمی یوم خواتین بین الاقوامی طور پر 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔عالمی یوم خواتین  کا مقصد لوگوں  کوخواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا، ان میں شعور پیدا کرنا اورخواتین پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کے لئے اقدام کرنے کی طرف ترغیب دینا ہے۔ لیکن کیا اس کے لئے ایک دن کے جشن یا سوگ، ہنگامہ  آرائی یا خاموشی کو کافی تصور کرلیا جائے؟  اس موقع اور مناسبت سے کئے جانے والے اعلانات، اقدام کافی ہوں گے۔یہ سمجھ لیا جائے کہ اس کی وجہ سے سب کچھ درست ہوجائے گا یا خواتین کو سارے حقوق حاصل ہوجائیں گے؟ ظاہر سی بات ہے کہ یہ خام خیالی ہے۔

یوم خواتین کا آغاز 1907ء میں ہوا، اس کو شروع ہوئے  ایک دو نہیں پورے  ایک سو گیارہ برس ہوچکے ہیں ۔ یوم خواتین کےآغاز سے پہلے اور اس کے بعد کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو  اہل ہوس واستحصال کے مظالم تواتر کے ساتھ ملتے ہیں ۔ بلکہ اپنی نوعیت اور دائرہ اثر کے لحاظ سے اس میں مزید سنگینی اور پیچیدگی پیدا ہوئی ہے۔ وہ اس وجہ سے کہ  خواتین کی فلاح وبہبود کے تعلق سے اٹھائے جانے والے اقدام  کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ وہ بالعموم عدل و انصاف کے تقاضوں ، خلوص، مثبت، پائدارا  ورمستحکم اسپرٹ سے خالی ہوتے ہیں اور یہ بات پورے طور پر غلط بھی نہیں ہے۔

 زیادہ دور نہ جاتے ہوئے اور تاریخ کی پرپیچ وادیوں اور مباحث میں نہ الجھتے ہوئے مذکورہ اقدام پر ہی نظر ڈالیں تو بات کسی حد تک صاف ہوجاتی ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر "بریسٹ فیڈنگ کیبین”کی  فراہمی کے سلسلہ میں خبر کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ پہلے اسے بس اسٹاپ کے نزدیک بنایا جانا تھا لیکن وہاں پر ‘ سیکورٹی عملہ کی کمی کے سبب اس کے غلط استعمال کے خدشہ کی وجہ سے اسے ریلوے اسٹیشن میں منتقل کردیا گیا’۔ یعنی "بریسٹ فیڈنگ کیبین” کا منصوبہ، اسے رکھے جانے کی جگہ کا تعین، جگہ کی منتقلی کے فیصلہ کے پیچھے اس کام کے لئے سرمایہ فراہم کرنے والی ‘رائل سٹی’ کی منشاء ومرضی کا بڑا دخل ہے۔ پھر جو چیز بس اسٹاپ سے ریلوے میں کیبین کی منتقلی کی وجہ بنی وہ بس اسٹاپ پر سیکورٹی کا ناقص نظم اور وہاں پر موجود سہولیات کاغلط استعمال ہے۔

کون نہیں جانتا کہ خواتین صرف ریلوے اسٹیشن پر ہی نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی صرف وہاں انہیں سیکورٹی کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ وہ ملک کے طول وعرض میں ہرجگہ ہوتی ہیں اور ہر جگہ انہیں تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ خود ریلوے سیکورٹی کے لحاظ سے کتنا محفوظ ہے، حالیہ برسوں کے واقعات اس کی گواہی دے رہے ہیں ۔ سیکورٹی عملہ بھی کس قدر پاک صاف ہے واقعات سے اس کا بھی پتہ چلتا ہے۔ خبر ہے کہ ممبئی میں 22ماہ سے لاپتہ خاتون اسسٹنٹ پولس انسپکٹر اشونی بندرے کو سینئر پولس انسپکٹر ابھے کوروندکر  نے اپنے بچپن کے ایک دوست کے ساتھ مل کرنہ صرف بے دردی سے قتل کردیا بلکہ جسم کوٹکڑے ٹکڑے کرکے فریج میں چھپا دیا اوربعد میں لکڑی کاٹنے والی مشین سے اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے سمندر میں بہادیا۔ اس معاملہ میں سینئر پولس انسپکٹر ابھے کوروندکر   اور بی جے پی لیڈر ایکناتھ کھڑسے کے بھانجہ راجیش پاٹل کو گرفتار کیا گیا تھا۔

حالیہ دنوں میں متعدد خواتین پولس اہلکار کی ہلاکت کی خبریں میڈیا میں آئی ہیں ۔زرعی شعبے میں خواتین کو زمین، پانی، پونجی اور تکنیک تک رسائی دینے کی جہاں تک بات ہے توخبر کے مطابق اس کی اسپرٹ بھی خواتین کی فلاح وبہبود نہیں بلکہ اس کی ضرورت اس وجہ سے پڑ رہی ہے کہ "مردوں کے گاؤں چھوڑ کر شہر چلے جانے کی وجہ سے کھیتی سے وابستہ خواتین کی ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں "۔ گویا یہاں پر بھی مجبوری دامن گیر ہے۔ اس کے باوجود اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں حکومت کی کوششوں اور معاشرتی تبدیلیوں کی وجہ سے خواتین کی حالت میں بہتری آئی  ہے۔ تعلیم، صحت، خاندانی فلاح وبہبود کی صورت حال اور اس تعلق سےسامنے آنے والے اعداد وشمار سے اس تبدیلی کا پتہ چلتا ہے۔

یہ تبدیلی مثبت اور خوش آئند ہے لیکن حقیقت میں پائدار اور صحت مند تبدیلی کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ یہ تبدیلی ڈھل مل رویہ، موقع پرستی، میڈیا کے دوش پر سوار ہوکرسستی شہرت حاصل کرنے اور سطحی سیاست کرنے سے حاصل نہیں ہوگی۔ اس کے لئے خلوص کے ساتھ عدل وانصاف اور مساوات کے حقیقی تقاضوں کی تکمیل، مثبت، پائدار اورمستحکم اسپرٹ کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر اس تعلق سے اٹھایا گیا ہرقدم راجستھان کی اس دلت دلہن کے ارمانوں کی طرح بکھرجائے گا جس کے چچاخسر کے ہاتھ پاؤں معاملہ کےپیشگی پولس کے علم میں آنے کے باوجودصرف اس لئے راجپوتوں نے توڑ دیے کہ اس کا شوہر اس سے شادی کرنے کے لئے گھوڑی پر سوار ہوکر نکلاتھا۔

تبصرے بند ہیں۔