خواجہ غریب نوازؒ: اخلاق وکردارکے آئینے میں

محسن رضا ضیائی

خواجہ خواجگاں شاہ ہندوستاں عطائے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ چھٹی صدی ہجری کی ایک عظیم نابغہ روزگار شخصیت ہے جو اپنے وقت کے ایک جلیل القدر بزرگ،متبحر عالم دین،محقق،مفکر،عارف باللہ، اور ساتھ ساتھ بے مثال مجدداور باکرامت ولی بھی تھے۔ کرئہ ارض پر آپ کی بے شمار دینی ,علمی اور تجدیدی خدمات ہیں جس کا احاطہ ممکن نہیں ۔ آپ کی تصنیف کردہ کتابوں اوراقوال و ارشادات کی تعداد ان گنت ہیں جن سے تصوف و طریقت، اخلاق و آداب اور شریعت و سنتِ نبوی ﷺ کا بہت زیادہ درس ملتا ہے۔ اس کے علاوہ راست گوئی، خدمت خلق،اوراحقاق حق و ابطال باطل آپ کے مزاج وطبیعت میں رچا بسا تھا۔ آپ نے اپنی پوری عمراحیائے دین،اتباع شریعت اور اسلام کے فروغ و استحکام میں صرف کردی۔ آپ کی انہی دینی وتبلیغی مساعی ٔ جمیلہ سے ہندوستان میں تقریباً نوے لاکھ لوگوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج برصغیر(ہندوپاک و بنگلادیش)میں پرچمِ اسلام لہرارہاہے اوراسلام کابے انتہا اثرورسوخ قائمہے۔

تاریخی شواہد سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر و عیا ں ہے کہ تبلیغ اسلام، اشاعت دین اور شریعت مصطفوی ﷺ کے فروغ واستحکام میں آپ کے حسن اخلاق و کردار، عمدہ عادات و اطوار، شیریں کلامی،حلم وبردباری،عفوودرگزر،تواضع و انکساری، غریب پروری،دنیا سے بے نیازی و بیزاری اور صبر و شکر کا ایک اہم رول رہا ہے۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل نمونہ تھے۔ آپ کی سیرت و سوانح کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہونچتی ہے کہ آپ کس قدر اپنے بڑوں کی تعظیم و توقیر،چھوٹوں سے مشفقانہ برتاؤ،غریبوں کی ذرہ نوازی اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کیا کرتے تھے۔ یہاں آپ کی اخلاقی زندگی کے چند گوشوں کوپیش کیا جارہاہے۔

حُسنِ خُلق:

ہر ایک کے ساتھ انتہائی خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے پیش آنا یقینا یہ ایک ایسی عادت ہے جس سے انسان کی زندگی میں چار چاند لگ جاتے ہیں اور وہ سماج و معاشرے میں بااخلاق،مہذب و مؤدب اور شریف الطبع انسان کے طور پر جانا جاتاہے۔ اسی لیے تو اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:’’یقیناتم میں سب سے زیادہ مجھے وہ شخص محبوب ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں ۔ (بخاری)    اس حدیث رسول ﷺ کی رو سے غریب نواز علیہ الرحمۃ کی زندگی کے پہلوؤں پر نظر ڈالی جاتے تو آپ کی ذات و شخصیت من و عن اس کی پیکر جمیل،مظہر اتم اور نمونہ کامل نظر آتی ہے۔ حضرت بابافرید الدین گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیر ومرشد سیدنا خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ کا بیان رقم فرماتے ہیں کہ :میں حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ کے ساتھ بیس سال تک رہا،ایک مرتبہ ہم ایک ایسے جنگل میں پہونچے جہاں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مارسکتاتھا،ہم تین روز تک اس جنگل میں پھرتے رہے،میں نے سناتھا کہ اس جنگل کے پاس ایک پہاڑپر کوئی بزرگ رہتے ہیں ، حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ نے مصلے کے نیچے سے دوروٹیاں نکال کر مجھ کو دیں اور فرمایا کہ ان بزرگ کی خدمت میں لے جاؤ اور میرا ان سے سلام کہو!

میں نے روٹیاں ان بزرگ کے سامنے رکھیں ، انہوں نے ایک روٹی مجھے عنایت فرمائی اور دوسری افطارکے لئے رکھ لی، پھر مصلے کے نیچے سے چار کھجوریں نکالیں اور مجھے دیتے ہوئے فرمایا،یہ معین الدین کو دے دینا،جب میں کھجوریں لیکر آیا تو حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ مجھے دیکھ کر بہت مسرور ہوئے اور فرمایا:اے درویش ! پیر کا فرمان رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہوتا ہے،پس جو پیرکا فرمان بجا لاتا ہے وہ گویا رسول اللہ ﷺ کا فرمان بجالاتا ہے۔ (معین الارواح)

 اللہ تعالیٰ نے آپ کو محبوب و پسندیدہ اخلاق و عادت، خصائل جمیلہ اور اوصاف حمیدہ سے آراستہ و پیراستہ فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صغیر و کبیر،امیروغریب اور کمزوروطاقت ور سبھی کے ساتھ انتہائی خوش خلقی و خوش روئی سے پیش آتے تھے۔

خوفِ خدا:

اللہ تعالیٰ کو بندے کی وہ حالت وکیفیت بہت زیادہ پسندہے جس میں وہ اپنے رب کے حضور خلوت وتنہائی میں گریہ وزاری کرتاہے،اس کی بارگاہ میں نادم وشرمندہ ہوتا ہے اور خوفِ َ خدا وندی و خشیتِ اِلٰہی کے باعث گریہ ونالاں ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں خوفِ خدا رکھنے والوں کے لئے دوجنتوں کی بشارت ونوید سنائی گئی ہے۔ چنانچہ  اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے، اس کے لئے دو جنّتیں ہیں (پارہ ۲۶،سورہ رحمٰن، آیت،۴۶)۔ اسیطرح اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے فرمایاہے کہ ’’:اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) فرمائے گا(ان فرشتوں سے جو دوزخ پر متعین ہیں ) آگ میں سے اس شخص کو نکال دو جس نے مجھ کو ایک دن بھی یاد کیا یا کسی مقام پر مجھ سے ڈراہے۔ ‘‘(ترمذی)

مذکورہ بالا فرامین کی روشنی میں دیکھیں تو حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ کی زندگی بھی کچھ اسی قدر تھی۔ آپ ہمیشہ اپنے رب کے حضور گریہ وزاری کرتے رہتے تھے اور اپنے مریدوں سے بھی یہی فرماتے تھے کہ :’’اے لوگوں اگر تم کو زیرِ خاک ہوئے لوگوں کا ذرا سا بھی حال معلوم ہوجائے تو تم (مارے خوف ودہشت کے)کھڑے کھڑے پگھل جاؤ اور نمک کی طرح پانی ہوجاؤ۔ ‘‘(مسالک السالکین)

 غریب نواز علیہ الرحمۃ کے اندر خوفِ خداوندی اور خشیتِ اِلٰہی خوب رچی بسی تھی جس کی وجہ سے آپ بارگاہِ خداوندی میں بے حدمقبول ہوئے۔

تواضع و انکساری:

یہ بھی ایک ایسی عادت و خصلت ہے کہ جس بندے کے اندر پیدا ہوجائے تو وہ دنیا وما فیھا کو چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے لولگاتا ہے جس کی وجہ سے بندے کواپنے رب کا قرب حاصل ہوجاتا ہے اور تعالیٰ اس کو دونوں جہاں میں بلندی و سرخروئی عطا فرماتاہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ :’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے تواضع و انکساری اختیار کرے گا،اللہ تعالیٰ اس کو سربلندی عطا فرمائے گا‘‘۔ (احیا ء العلوم)اسی کو حضرت شیخ سعدیؔشیرازی علیہ الرحمۃ یوں بیان کرتے ہیں کہ :

 دلا گر تواضع کنی اختیار

شود خلق دنیا ترا دوست دار

 اے دل ! اگر تو تواضع اختیار کرے گا تو دنیا کی مخلوق تجھے اپنا دوست بنالے گی (کریما سعدی)

 حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمۃ اسی مبارک خصلت و عادت کی ایک عملی تصویر کا نام ہے،جن کے اندر عاجزی و خاکساری،تواضع و انکساری اور منکسرالمزاجی انتہائی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ بزرگوں نے ولی کامل کی علامت و پہچان کے بارے میں فرمایا ہے کہ جس کے اندر سورج کی طرح شفقت،دریا کی طرح سخاوت و فیاضی اور زمین کی مانند تواضع و خاکساری ہو وہ انتہائی درجہ کمال پر فائز ہوتا ہے۔ یہ تینوں اوصاف و کمالات حضور غریب نواز علیہ الرحمۃ میں بدرجہ اتم موجود تھے۔

عفوو درگزر:

کسی کی غلطی پر عفو و در گزر سے کام لینا اور ہر حال میں صبر و شکر اختیار کرنا یقیناً یہ انبیاے کرام علیھم السلام کی سنت مبارکہ ہے جو بہت ہی بہترین خصلت اور نہایت ہی عمدہ و نفیس عادت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے:’’لوگوں کی خطاؤں کو معاف کردواور عفودرگزر کی خصلت اختیار کرو‘‘۔ خود پیارے آقا ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ:’’خیر المال العفو‘‘یعنی معاف کرنا بڑی دولت ہے۔ سرکار غریب نواز علیہ الرحمۃ مذکورہ فرامین و خصائل کے ایک عملی نمونہ تھے، آپ انتہائی متحمل المزاج، رقیق القلب اور متین و سنجیدہ شخص تھے،اگر کوئی آپ کو کسی طرح کی بھی کوئی دکھ و تکلیف پہنچاتا تو آپ نہایت ہی خندہ زنی سے اسے سہہ لیا کرتے پھر بعد میں اس کے نادم و شرمندہ ہونے پر عفو و درگزر سے کام لیتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک شخص آپ کا قتل کرنے کے ارادے سے آپ کے پاس آیا،کشف کے ذریعہ آپ پر اس کے آنے کا مقصد ظاہر ہوگیا،اس شخص کو نہایت شفقت ومحبت سے اپنے پاس بٹھایا کر فرمایا:جس ارادے سے یہاں آئے ہو،اسے پورا کرو۔ وہ شخص حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ کی زبان سے یہ جملہ سن کر مبہوت وحیران رہ گیا،وہ اسی وقت آپ کے قدموں پر گر کر معافی کا طلب گارہوا، حضرت نے اسے معاف کردیا اور اس کے حق میں دعائے خیر بھی فرمائی۔ (معین الارواح)

آپ کی سیرت و سوانح کی کتابوں میں آپ کے عفو و درگزر کے بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس قدرمتحمل المزاج نرم دل، حلیم وبردبار اورمخلوق، خدا پر مہربان تھے۔

سخاوت و فیاضی اور غریب پروری:

اپنے خالق ومالک کی عطاکردہ نعمتوں کا شکرواحسان بجالاتے ہوئے اسے راہ خدا میں صرف کرنا سخاوت وفیاضی کہلاتا ہے۔ یہ ایک ایسی عادت و خصلت ہے جس کے سبب اللہ تعالیٰ سخی وفیاض شخص کو بے شمار اجر و ثواب اور ابدی نعمتوں سے سرفراز فرماتاہے اور مزید اس کے اموال و ذرائع میں بے پناہ برکتیں اور رحمتیں نازل فرماتاہے۔ اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے  سخی وفیاض کو جنت سے قریب اور جہنم سے دور بتایا اور فرمایا کہ جنت سخی لوگوں کا گھر ہے۔ یقینا یہ تمام فضائل و انعامات ان لوگوں کے لیے ہیں جو راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں یعنی غریبوں ، مسکینوں اور حاجت مندوں کی حاجات و ضروریات کو پوری کرتے ہیں ۔ غریبوں ، مسکینوں ،حاجت مندوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی دل جوئی کرنا،ان کے درد وکرب، اضطراب وبے چینی اور غربت وافلاس کا ازالہ کرکے راحت وآرام،اطمینان وسکون اور فرحت وخوشی پہنچانا،ان سے الفت و محبت کرنا ان کی حاجات و ضروریات کو بلا  و توقف پورا کرنانہایت ہی اعلیٰ خدمت ہے۔ غریب نواز علیہ الرحمۃ کی ذات والا صفات کو اگر اس ضمن میں بھی دیکھا اور پڑھا جائے توآپ بہت ہی وسیع الظرف،دل نواز،حاجت رو ااور غریب پرورنظر آتے ہیں ۔ حضرت سلطان الہند غریب نواز علیہ الرحمۃکے عطاوبخشش،سخاوت و فیاضی اور غریب پروری کی مثال تاریخ ہند میں کہیں نہیں ملتی۔

آپ خود اپنے ارادت و عقیدت مندوں کو یہی نصیحت و تلقین فرمایا کرتے تھے کہ:’’درویشوں اور غریبوں سے محبت رکھوجو ان کو دوست رکھتا ہے اللہ عزوجل اس کو دوست رکھتا ہے۔ ‘‘حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمۃ کا بیان ہے کہ: میں ایک عرصہ تک آپ کی خدمت اقدس میں حاضر رہا، اس دوران کبھی کسی سائل یا فقیر کو آپ کے در سے خالی ہاتھ جاتے نہیں دیکھا۔ آپ کے لنگر خانہ میں روزانہ اتنا کھانا تیار کیا جاتا تھا کہ شہر کے تمام غربا ومساکین خوب سیر ہوکر کھاتے،خادم حاضر بارگاہ ہوکر جب یومیہ خرچ کا مطالبہ کرتا تو آپ مصلے کا ایک گوشہ اٹھاکر فرماتے جس قدر آج کے خرچ کے لئے ضرورت ہو لے لو،وہ مطلوبہ مقدار میں لے لیتا اور حسبِ معمول کھانا پکواکر غریبوں اور مسکینوں کے درمیان تقسیم کردیا کرتا،اس کے علاوہ حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے دربار سے درویشوں کا وظیفہ بھی مقرر تھا۔ (سیرتِ خواجہ غریب نواز،ص۲۶۴)

یہی وجہ ہے کہ آپ برصغیر بلکہ تمام اکنافِ عالم میں ’’ غریب نواز‘‘ کے نام سے مشہور و معروف ہیں ۔ اورآج بھی آپ کے آستانہ عالیہ پر بلا تفریق مذہب و ملت لوگ آتے ہیں اور اپنے دامن کو گوہر مراد سے بھر کے لوٹتے ہیں ۔

صبروشکر:

مصیبتوں کے سامنے عزم و اسقلال کے ساتھ جم کر ڈٹے رہنا اور نعمتوں کیحصول پر اپنے رب کا خو ب شکر بجا لانا یہ ایک ایسی عادت و خصلت ہے جوانبیائے کرام و رسولان عظام علیھم السلام کی مبارک سنت ہے۔ جس انسان کے اندر یہ سرشت و خو پیدا ہوجاتی ہے، وہ اپنے رب کا انتہائی صابر و شاکر بندہ بن جاتا ہے۔ سرکار غریب نواز علیہ الرحمۃ کی حیات طیبہ کے درخشاں پہلوؤں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نہایت ہی صابر و شاکر اور قناعت پسند تھے۔ آپ ہر سخت سے سخت مصیبت پر صبر و تحمل کا مظاہرہ فرماتے، یہاں تک کہ آپ نے اپنی پوری زندگی میں بے شمار مشکل گزارگھاٹیوں کو طے فرمایا،لیکن کبھی بھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے اور یونہی صبر و استقلال اور ثبات قدمی کے ساتھ اس پر ڈٹے رہے،اور اسی طرح رنج و راحت اور غمی و خوشی میں اپنے رب کا شکر و احسان بجالاتے رہے۔  غریب نواز علیہ الرحمۃ کی حیات مقدسہ کے یہ چند اخلاقی پہلو تھے، جن سے غریب نوازعلیہ الرحمۃ کے اخلاق وکردار، علم وعمل،زہدوتقویٰ،تزکیۂ نفس وتصفیۂ قلب، عبادت وریاضت،سخاوت وفیاضی اور اخلاص وللہیت کا بے پناہ درس ملتا ہے۔ جن پرعمل کرکے ہم اپنی زندگی کو اخلاق و کردار کا آئینہ دار بنا سکتے ہیں ۔

 مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں غریب نواز علیہ الرحمۃ کے اخلاق و کردار کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔