خواجہ معین الدین اردو عربی فارسی یونیورسٹی میں گوشہ شارب کا افتتاح

پروفیسر شارب رولوی نے پا نچ ہزار کتابیں اردو عربی فارسی یونیورسٹی کوعطیہ کیں

ڈاکٹر ہارون رشید

                لکھنؤ۔ ۲۹؍اگست۔ کتابیں آنے والی نسلوں کی امانت ہیں کسی کی ذاتی میراث نہیں۔ آپ اپنی گاڑھی کمائی سے کتابیں خریدتے ضرور ہیں لیکن وہ آپ کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتیں۔ اسی لئے میں نے اپنی پانچ ہزار کتابیں خواجہ معین الدین اردو عربی فارسی یونیورسٹی کو عطیئہ کر دیں تاکہ آنے والی نسلیں ان کتا بوں سے استفادہ کر سکیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر شارب ردولوی نے کیا وہ خواجہ معین الدین اردو عربی فا رسی یونیورسٹی میں ’’گوشہ شارب‘‘ کے افتتاح کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ انھوں نے خاص طور سے ’’فوائد الفواد، (دوجلدیں )مسائل تصوف اور اقبال ‘مارکسی جمالیات، بنگالی زبانوں سے اردو کا رشتہِ، غالب ایک مطالعہ، انیس اور فردوسی کا تقابلی مطالعہ، اثر لکھنوی شخصیت اور فن، جمالیات کے تین نظریے، گیت گووند، لکھنؤ کی شاعری نفسیاتی تنقید، تحلیل نفسی، غالب بوطیقا، تاریخ آصفی، اردو ہندی ہندوستانی، ہندوستانی مصوری ‘‘جیسی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتابیں اس لئے بھی اہم ہیں کہ اب دستیاب نہیں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کلیات میں ’’کلیات ولی، کلیات سودا نسخہ جانسن، کلیات جمیل مظہری، کلیات محسن زیدی، کلیات نامی انصاری، کلیات جذبی، کلیات مصطفے زیدی، دیوان غالب (بخط غالب)دیوان آبرو، دیوان ناسخ، دیوان غالب، دیوان درداور لغات میں ’’فرہنگ عامرہ، فرہنگ مراثی انیس جلد اول، فرہنگ مراثی دبیر، فرہنگ اثر، دکنی لگت، فرہنگ وضع اصطلاحات، فرہنگ کلیات میر، عصری لغت، اردو لغت، اور علمی لغت  کے علاوہ بھگوت گیتا کے اردو تراجم کے کئی نسخوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی  کہ یہ و  راثت آنے والی نسلوں کے لئے آپ کے سپر د کر دی اب ان کتابوں کی حفاظت آپ کا ذمہ ہے۔ پروفیسر شارب ردولوی نے اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے پہلے دن کچھ کتابیں بھجوائیں تو میں کتابوں کی جگہ خالی دیکھ کرپورا دن بہت بے چین رہا۔ انھوں نے کہا کہ میں خواجہ معین الدین یونیورسٹی کا شکر گذار ہوں کہ انھوں نے میری طرف سے یہ چھوٹا سا تحفہ قبول کیا۔ وقار رضوی کا  شکریہ ادا کرتے ہوئے پروفیسر شارب ردولوی  نے کہا کہ وہ چھوٹی سی بات کو بھی بڑا بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔

                قابل ذکر ہے کہ ترقی پسند نقاد پروفیسر شارب ردولوی نے خواجہ معین الدین اردو عربی فارسی یونیورسٹی کو اپنے بیش قیمتی سرمایہ میں سے پانچ ہزار دو سو پچاس کتابیں عطیہ کے روپ میں پیش کر دیں ہیں جن میں نایاب کتابوں کے علاوہ بعض اہم جرائد و رسائل کےخصوصی نمبر بھی شامل ہیں۔ اس سلسلہ میں خواجہ معین الدین اردو عربی فارسی یونیورسٹی کی لائبریری میں ’’ گوشہ شارب ‘‘ کا افتتاح کیا گیا۔ تقریب کی صدارت پروفیسر خان مسعود نے کی جبکہ نظامت کےفرائض پروفیسر شفیق اشرفی اور ڈاکٹر فخر عالم اعظمی نے مشترکہ طور پر انجام دئے۔ مہمان خصوصی الہٰ باد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رتن لال ہانگلو نےاس مو قع پر خواجہ معین الدین کے حوالے سےصوفی ازم کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے دیگر مذاہب میں صوفی ازم کے تصور کا جائزہ پیش کیا۔ ایک وقت یہ محسوس ہوا کہ پروگرام’’ گوشہ شارب ‘‘ کے حوالے سے نہیں بلکہ تصوف پر ہو رہا ہے۔ انھوں نےکہا کہ خواجہ معین الدین چشتی کی حیات کا مطالعہ روح کو تسکین پہونچاتا ہے۔ پروفیسر ہانگلو نے موضوع سے ہٹ کر بولتے ہوئے کہا کہ صرف اسلام ہی میں نہیں بلکہ ہر مذہب میں تصوف کاتصور موجود ہے۔ انھوں نے صوفی ازم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تصوف صوفی از م کی ایک شاخ ہے۔ اور یہ خدا کی معرفت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے جو معرفت نفس سے ہو کر جاتا ہے۔ اس سے پہلے پروفیسر علی احمد فاطمی(شعبہ اردو الہ باد یونیورسٹی) نے پروفیسر رتن لال ہانگلو کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے ان کی اردو دانی اور بہتر منتظم ہونے کا خصوصی ذکر بھی کیا۔ (اگر وہ چاہتے تو راستے میں پروگرام اور شارب ردولوی کے بارے میں انھیں بریف کر دیتے  جس سے وہ پروگرام کے تعلق سے بھی چند جملے بول سکتے)سابق وزیر تعلیمات ڈاکٹر عمار رضوی نے کہا کہ کتابیں عطیہ کر کے پروفیسر شارب صاحب نے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کیا ہے ہم ان کو مبارک باد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آنے والی نسلیں صدیوں تک اس قیمتی علمی سرمائے سے مستفیض ہوتی رہیں گی۔ انھوں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ اگر وہ چاہتے تو اپنے کالج کو بھی کتابیں دے سکتے تھے لیکن  پھر خیال آیا کہ ان کا کالج انٹر تک ہے اور یونیورسٹی میں زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفیض ہو ں گے  اس لئے ان کا یہ فیصلہ صحیح فیصلہ ہے ہم ان کو اور خان مسعود صاحب دونوں کو مبارک باد یتے ہیں۔ ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے پروفیسرشارب ردولوی کے اس کام کو تاریخی حیثیت کا حامل قر ار دیا اور کہا کہ جان دینا آسان ہے لیکن کتابیں دینا آسان نہیں ہے۔ ڈاکٹر عصمت نے کہا کہ کتابیں مانگنا بے وقوفی ہے اور مانگ کرواپس کر دینا بہت بڑی بےوقوفی ہے۔ انھوں نے اس موقع پر خاص طور پر ڈاکٹرطارق قمر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک اچھے شاعر ہیں مجھ سے ایک کتاب مانگ کر لے گئے لیکن واپس نہیں کی تو میں نے فیس بک پر ان کے ایک شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھ دیا کہ تم شاعر اچھے ہو لیکن میری کتاب کب واپس کروگے۔ ڈاکٹر عصمت نے ایک بار پھر شعرا کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عالمی مشاعروں کے شعرا نے ان کتابوں کا مطالعہ تو کجا ان کتابوں کی زیارت بھی نہ کی ہوگی۔ کیونکہ وہ پڑھتے نہیں ہیں۔ لکھنؤیونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر ڈاکٹر عبا س رضا نیر نے کہا کہ میں نے ایسے لو گو ں کو د یکھا ہے کہ جن کی ہزاروں کتابیں یا تو دیمک کھا گئیں یا پھر کسی اور وجہ سے ضائع ہو گئیں۔ لیکن پروفیسرشارب صاحب نے کتابیں عطیہ دے کرایک تاریخی کارنامہ انجام د یا ہے  جسے نسلیں یاد رکھیں گی۔ یہ ایک مثالی قدم ہے تمام اہل اردو کو اس کی تقید کرنا چاہئے۔ خواجہ معین الدین یونیورسٹی کےوائس چا نسلر پروفیسر خان مسعود نے شکریہ ادا کرتے ہوئےکہا کہ ہم نے د و برسوں کی مسلسل کوششوں کے بعد شارب صاحب سے یہ کتابیں حاصل کی ہیں جس میں وقار رضوی کا بھی بھر پور تعاون شامل حال رہا انھوں نے بتایا کہ شارب صاحب نے پہلے ایک قسط دی پھر دوسری قسط دی اس کے بعد کل تیسری قسط دی۔ ہم ان کے شکر گذار ہیں کہ انھوں نے ہماری گذارش منظور کی اور امید کرتے ہیں کہ ابھی اور قسطیں آئیں گی۔ انھوں نے کہا کہ ہم ان کتابوں کی حفاظت کریں گے یہانتک کہ اب شارب صاحب بھی کو بھی یہ کتابیں پڑھنے کے لئے باقاعدہ ہماری لائبریری میں آنا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے شارب سے کہا تھا کہ میں آپ کی سری کتابوں پرآپ کے نام کی مہر لگوا دوں گا لیکن یہ زحمت بھی انھوں نے نہیں دی اور ساری کتابوں پر خود مہر لگوا کر ہمیں پیش کیں۔ پروفیسر خان مسعود نے کہا کہ شارب صاحب کا درد میں سمجھ سکتا ہوں جو کتابوں کی جدائی کی وجہ سے وہ محسوس کر رہے ہوں گے۔ پروفیسر شافع قدوائی نے اگر چہ وقت کی قلت کی وجہ سے تقریر نہیں کی لیکن اس نامہ نگار سے انھوں نے کہا کہ میں بھی جلد ہی چھ سات ہزار کتابیں اس یونیورسٹی کو عطیہ کو طور پر بھجواؤں گا۔

                اس موقع پر پروفیسر روپ ریکھا ورما(سابق وائس چانسلر لکھنؤ یونیورسٹی)سید خواجہ محمد یونس۔ نہال چودھری، وقار رضوی، سلام صدیقی، مرزا شفیق حسین شفق، ڈاکٹر ریشماں پروین، ڈاکٹر ہارون رشید، ڈاکٹر منصور حسن خان۔ ڈاکٹر ثوبان سعید، عامر مختار، سلمی حجاب، بابر نقوی، عرفان احمد علیگ، ڈاکٹر طارق حسین خان، عارف نگرامی، ڈاکٹر جاں نثار جلال پوری، پردیپ کپور، رضوان احمد وغیرہ خاص طور پر موجود تھے۔

تبصرے بند ہیں۔