خواہشات کی صلیب

سالک جمیل براڑ

رات کے تقریباً بارہ بج رہے تھے۔ چاندنی رات تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ہوا کے تیز جھونکے رمیش کی ٹوٹی پھوٹی کھڑکی کو باربارہلارہے تھے۔ کھڑکی کے جھروکوں سے چاندنی چھن چھن کررمیش کی چارپائی پردرازہورہی تھی۔ ہواکی سرسراہٹ سے ایسی آواز پیدا ہو رہی تھی۔ جیسے اسے کوئی لوری سنارہاہو۔

اتنے خوشگوار موسم میں بھی رمیش کونیندنہیں آرہی تھی۔ وہ چارپائی پرلگاتارکروٹیں بدل رہاتھا۔ اس کی سوچ کا پنچھی آسمان کی بلندیوں میں اڑنے لگا۔

وہ خودکوکوس رہاتھا۔ کہ میں کتنا بدنصیب ہوں ……شادی سے لے کرآج تک اپنی بیوی کو کپڑوں کا ایک جوڑاتک نہیں دے سکا……پھر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بیٹے راجوکا روتاہواچہرا ابھرا۔ جو اکثرسکول جانے کی ضد کرتاہے۔ مگر اسے تعلیم دلوانارمیش کے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ اس کی آمدن بہت کم اور اخراجات بہت زیادہ ہیں۔

پھر اس کی آنکھوں کے سامنے لالہ موتی لال کا چہرہ نمودار ہوا۔ جس سے اس نے سات سال پہلے اپنی شادی کے موقع پر قرضہ لیاتھا۔ مگر ابھی تک ایک بھی پیسہ چکا نہیں سکاتھا۔ آج صبح ہی اس نے اپنے کھیت سے گندم منڈی لے جانے کے لیے بیل گاڑی میں بھری تھی۔ کہ اسی وقت لالہ اپنے کرائے کے غنڈے لے کرآگیا۔ اورپوری فصل اٹھواکرلے گیا۔ رمیش نے اس کی بہت منتیں، خوشامدیں کیں۔ مگرلالہ نے اس کی ایک نہ سنی۔ قرضہ اب بھی ویسے کا ویسے ہی تھا۔ یہ فصل توسود میں چلی گئی۔ اب اُسے لالہ کی تجوری میں اپنی فصل پڑی نظرآرہی تھی۔

’’اگر مجھے میرے خون پسینے کی محنت کا پھل میری فصل کے روپے مل جائیں۔ تومیری ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ رادھا کوکپڑے اورراجوکو سکول میں داخلہ مل سکتاہے۔ اورپھر میرے پاس اب اورکچھ بچابھی نہیں۔ جس سے دوبارہ کھیتی کرسکوں۔ ‘‘رمیش من ہی من بڑبڑایا۔

لمبی کشمکش کے بعد اس نے لالہ کے گھرچوری کرنے کا پکا ارادہ کرلیا۔ وہ تیزی سے اٹھااورکلہاڑی اٹھاکردروازے کی طرف بڑھا۔

’’کہاں جارہے ہو؟اتنی رات گئے……‘‘رادھا نے اسے ٹوکا جوابھی تک جاگ رہی تھی۔

’’چھیننے جارہاہوں اپنے حق کو اپنی محنت کو‘‘

’’مگرکہاں سے؟‘‘

’’لالہ کے گھر سے‘‘

رادھا خاموش رہی۔ یہ سوچ کر کہ رمیش کا وقتی پاگل پن ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے رمیش کندھے پرکلہاڑی رکھ کرلالہ کی حویلی کی طرف چل پڑا۔ اس کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے برس رہے تھے۔ اورسرپرخون سوارتھا۔

لالہ موتی لال اپنی حویلی میں اکیلا ہی رہتاتھا۔ اس کے بیوی بچے شہرمیں مقیم تھے۔ کنجوس بھی اس قدرتھاکہ کوئی نوکربھی نہیں رکھتاتھا۔ بس چارپانچ غنڈے پال رکھے تھے۔ جس سے اس کا سودکاکاروبارچلتاتھا۔ جو اس وقت شراب کے نشے میں دھت ڈھیرہوئے پڑے تھے۔ رمیش حویلی کی پچھلی دیوار پھاندکراندر چلاگیا۔ اس نے دیکھاکہ حویلی کے صحن میں لالہ کے آدمی نشے میں دھت ڈھیر ہوئے پڑے ہیں۔ وہ دبے پاؤں لالہ کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔ اب وہ لالہ کے کمرے تک پہنچ چکاتھا۔ جس کا دروازہ اندر سے بندتھا۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ جواب نہ ملنے پراس نے دوبارہ دستک دی۔

’’کون ہے اتنی رات گئے……کمبخت رات کوبھی سونے نہیں دیتے‘‘ لالہ نے آنکھیں ملتے ہوئے دروازہ کھولا۔

’’تم‘‘

’’ہاں میں ………تیری موت کا فرشتہ‘‘رمیش نے لالہ کی گردن پر کلہاڑی رکھتے ہوئے کہا۔

’’دیکھ رمیش……یہ تمہارے لیے اچھّا نہیں ……تومیراقرض دارہے۔ ‘‘لالہ نے کانپتے ہوئے کہا۔

’’مگرآج تومیں لینے آیاہوں ……چل تجوری کی چابی نکال……اگرکسی طرح  کی کوئی چالاکی کرنے کی کوشش کی……توحرامی کی گردن دھڑسے الگ کردوں گا‘‘

’’مجھے معاف کردوں، میں بربادہوجاؤں گا۔ ‘‘لالہ نے ہاتھ جوڑکرگڑگڑاتے ہوئے کہا۔ ایک دم لالہ کو دل کا دورہ پڑا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ زمین پرڈھیرہوگیا۔

رمیش گھبراہٹ میں کمرے میں اِدھر اُدھر تجوری کی چابی تلاش کرنے لگ گیا۔ چندہی منٹوں میں اسے چابی مل گئی۔ اس نے جلدی جلدی تجوری کا سامان اپنے تھیلے میں ڈال لیا اور حویلی سے باہر آگیا۔

 اب وہ چوری کاسامان ایک محفوظ جگہ پرچھپاکرآرام سے چارپائی پرجالیٹااوراپنے مستقبل کے سنہرے خیالوں میں ڈوباہواتھا۔

اگلی صبح پولیس رمیش کو چوری کے الزام میں پکڑکرلے گئی۔ عدالت میں کیس چلا۔ اور رمیش کو مجرم قراردیاگیا۔ مگراس نے اپناجرم قبول نہیں کیا۔ چوری کامال کہاں ہے؟پتہ لگانے کے لیے عدالت سے پولیس کوتین دن کاریمانڈ ملا۔ لالہ نے پولیس کے مونہہ نوٹوں سے بھردئے۔ رمیش پرتھرڈڈگری کے سارے داؤ آزمائے گئے۔ مگراس نے اپنی زبان نہیں کھولی۔ اس کے گھر کی بھی تلاشی لی گئی۔ مگرکچھ نہ ملا۔ پھرعدالت نے اسے سات سال کی سزاسنائی۔

سزاہونے کے بعد اگلے ہی دن رادھا رمیش سے ملنے آئی۔ رمیش نے اشاروں ہی اشاروں میں اسے سمجھادیاکہ لوٹاہوامال کہاں ہے۔ وہ اسے لے کرگاؤں چھوڑکرشہرچلی جائے رادھا نے وعدہ کیاکہ وہ اسے ہرماہ ملنے آیاکرے گی۔ مگر تین چارماہ کے بعداس نے آنا بندکردیا۔ رمیش نے اس سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی۔ مگرمایوسی ہی ہاتھ آئی۔ اس طرح پانچ سال بیت گئے۔ سرکار کی طرف سے رمیش کی دو سال کی سزا معاف کردی گئی۔ آج وہ جیل سے رہاہونے جارہاتھا۔

جیل سے رہاہونے کے بعدوہ سیدھاشہرمیں موجود اپنے سسرال گیا۔ وہاں کس نے اسے پہچاناتک نہیں۔ رادھا اورراجو کے بارے میں بتانے کی بات تودور رہی۔ اب وہ بالکل مایوس ہوکر گاؤں جانے کے لیے بس اسٹینڈ کی طرف جارہاتھا۔

راستے میں رمیش کو رادھاایک شوروم سے باہر نکلتی ہوئی دکھائی دی۔ وہ بھاگ کر وہاں گیا۔ مگرجب تک وہ ایک آدمی کے ساتھ کارمیں سوارہوکرجاچکی تھی۔

’’یہ عورت جو ابھی ابھی یہاں سے گئی ہے۔ آپ اسے جانتے ہیں ؟‘‘رمیش نے شو روم کے اندرجاکرمالک سے پوچھا۔

’’کون؟……میڈم۔ ‘‘

’’نہیں ……وہ نہیں ……وہ جوابھی کارمیں بیٹھ کرگئی ہیں۔ ‘‘

’’ہاں ہاں وہی لکشمی میڈم ہیں۔ آپ انھیں نہیں جانتے……یہ شوروم ان ہی کا ہے۔ ‘‘

’’وہ آدمی کون تھا؟ان کے ساتھ ‘‘رمیش نے مزیدپوچھا۔

وہ ہمارے صاحب………اشوک بابوتھے………لکشمی جی کے پتی‘‘یہ کہتے ہوئے وہ آدمی اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

’’نہیں نہیں ……یہ سب جھوٹ ہے……رادھا………ایسانہیں کرسکتی ………وہ مجھے دھوکانہیں دے سکتی۔ ‘‘رمیش بڑبڑایا۔

اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیراچھّاگیا۔ وہ بڑی مشکل سے گرتا پڑتاشوروم سے باہر آیا۔ اس کے سپنوں کے محل بکھرچکے تھے۔ اسی وقت اسے ایک ٹرک آتانظرآیا۔ چندہی لمحوں کے بعد رمیش ایک لاوارث لاش بن چکاتھا۔

تبصرے بند ہیں۔