ما بعد جدیدیت کا چیلنج اور تحریکِ اسلامی (2/4)

انجینیئرسید سعادت اللہ حسینی

سچائی کی اضافت کا نظریہ

        پوسٹ ماڈرن ازم کا خیال ہے کہ دنیا میں کسی آفاقی سچائی کا وجود نہیں ہے۔ بلکہ آفاقی سچائی کا تصور ان کے نزدیک محض ایک خیالی تصور (Utopia) ہے۔ ماڈرن ازم کے علم برداروں کا خیال ہے کہ جمہوریت، آزادی ومساوات، سرمایہ دارانہ نظام معیشت (یا کمیونسٹوں کے نزدیک کمیونزم) اور ٹکنالوجیکل ترقی وغیرہ پر مبنی جو ماڈل یورپ میں اختیار کیا گیا، اس کی حیثیت ایک عالمی سچائی کی ہے اور ساری دنیا کو اپنی روایات چھوڑ کر ان عالمی سچائیوں کو قبول کرنا چاہئے۔ چنانچہ بیسویں صدی میں ساری دنیا کو ماڈرنائز کرنے یا جدید بنانے کا پروجکٹ شروع ہوا۔ روایتی معاشروں سے کہا گیا کہ وہ صنعتیں قائم کریں، شہر بسائیں، آزادی کی قدروں کو نافذ کریں، جمہوری طرز حکومت اپنائیں، جدیدٹکنالوجی کو اختیار کریں اور اس طرح جدید بنیں کہ فلاح وترقی کا یہی واحد راستہ ہے۔ پوسٹ ماڈرنسٹ دوسری انتہا پر جاکر عالمی یا آفاقی سچائی کے وجود ہی سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک چاہے سچائی ہو یا کوئی اخلاقی قدر، حسن وخوبصورتی کا احساس ہو یا کوئی ذوق، یہ سب اضافی (Relative) ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا تعلق انفرادی پسند و ناپسند اور حالات سے ہے۔ یعنی ایک ہی بات کسی مخصوص مقام پر یا مخصوص صورتوں میں سچ اور دوسری صورتوں میں جھوٹ ہو سکتی ہے۔ دنیا میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو ہمیشہ اور ہر مقام پر سچ ہو۔ ورلڈ ویو(World view) سچائی کی پیداوار نہیں ہوتا بلکہ طاقت کی لڑائی میں محض ایک ہتھیار ہوتا ہے۔ لوگوں نے دنیا پر حکومت کرنے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے اپنے من پسند خیالات کو عالم گیر سچائیوں کے طور پر ان پر مسلّط کیا ہے۔ اس طرح  وہ کیپٹلزم، ڈیموکریسی اور کمیونزم وغیرہ جیسے نظریات کے سخت ناقد ہیں، جو اپنے خیالات کو عالم گیر سچائی کی حیثیت میں پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ مذہبی عقائد اور تصورات کے بھی منکر ہیں کیونکہ مذاہب کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ ان کے معتقدات کی حیثیت اٹل حقائق کی ہے۔ 14؎

        اس نظریہ کی تائید میں ان کی دلیل یہ ہے کہ صدیوں کی علمی جستجو کے باوجود انسانی ذہن کسی ایک سچائی پر متفق نہیں ہوسکا۔ آج بھی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے اطراف کئی ایک اور بسااوقات باہم متضاد سچائیاں (یعنی سچ کے دعوے) پائی جاتی ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم سچائی سے متعلق اپنے نقطئہ نظر ہی کو بدلیں اور یہ مانیں کہ سچائی نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ سچائی محض ہمارے مشاہدہ کا نتیجہ ہوتی ہے اور مشاہدہ ہمارے ذہن کی تخلیق۔ سچائی کی تلاش نہیں، بلکہ سچائی کی تشکیل ہوتی ہے۔ حالات کے مطابق ہماراذہن سچائی کی تخلیق کرتا ہے۔ اور چونکہ بیک وقت ایسی کئی تخلیقات ممکن ہیں اس لیے یہ ماننا چاہیے کہ کوئی بھی تخلیق حتمی نہیں ہے۔

        پوسٹ ماڈرنسٹ سائنس کو بھی حتمی سچائی کی حیثیت سے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ لیوٹارڈ لکھتا ہے۔

There is a strong interlinkage between the kind of language called science and the kind called ethics and politics.and this interlinkage constitutes the culturalperspective of the west.15؎

)اُس زبان میں جسے سائنس کہا جاتا ہے اور اُس زبان میں جسے اخلاقیات اور سیاسیات کہا جاتا ہے گہرا تعلق ہے اور یہ تعلق ہی مغرب کے تہذیبی نقطہ نظر کی تشکیل کرتا ہے۔ (

 یعنی سائنس بھی مغرب کی سیاست اور اخلاقی فلسفوں سے آزاد نہیں ہے۔

        وہ مزید کہتا ہے:

While science has sought to distinguish itself from narrative knowledge in the form of tribal wisdom communicated through myths and legends, modern philosophy has sought to provide legitimating narratives for science in the form of "the dialectics of Spirit, the hermeneutics of meaning, the emancipation of the rational or working subject, or the creation of wealth. 16؎

(گرچہ سائنس نے، اُس بیانیہ علم سے خود کو ممیز کرنا چاہا ہے جو قبائلی حکمت کی صورت میں داستانوں اور دیو مالائوں کے ذریعہ منتقل ہوتا رہا، لیکن جدید فلسفہ نے سائنس کو بھی  بعض ’ جائز بیانیے‘ (یا جائز دیو مالائیں )  روح کی جدلیات، معنوں کی ہرمینیات، عقل کی بالا دستی اور دولت کی تخلیق جیسے تصورات کی صورت میں فراہم کیے ہیں۔ )

دنیا کے غیر حقیقی ہونے کا نظریہ

         پوسٹ ماڈرن ازم کے نزدیک جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، اس کی حیثیت سچائی کی نہیں ہے۔ اس کے علم برداروں کا خیال ہے کہ ہم وہی دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم وہی دیکھتے ہیں جو مخصوص وقت اور مخصوص مقام پر مخصو ص احوال خود کو دکھانا چاہتے ہیں۔ وہ دنیا کو حقیقی اور ٹھوس اشیا اور مناظر کی بجائے ایسے عکسوں (Images)  اور مظاہر (Representations) سے عبارت سمجھتے ہیں جو غیر حقیقی(Unreal) اور Untangible ہیں۔ یعنی پوسٹ ماڈرن ازم کے نزدیک یہ دنیا محض ایک ویڈیو گیم ہے جس میں ہم اپنی پسند کی سچائیاں دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔ ضیاء الدین سردار نے اس کی تشریح یوں کی ہے:

"This means that the world has been transformed into a theatre where everything is artificially constructed. Politics is a stage-managed for mass consumption. Television documentaries are transformed and presented as entertainment. Journalism blurs the distinction between fact and fiction. Living individuals become characters in soap operas and fictional characters assume real lives. Everything happens instantaneously and everybody gets a live feed on everything that is happening in the global theatre.”17؎

(اس کا مطلب ہے کہ یہ دنیا ایک ایسا تھیٹر ہے جس میں ہر چیز مصنوعی طور پر تشکیل کردہ ہے۔ سیاست کا عوامی استعمال کے لیے  اسٹیج پر اہتمام کیاگیا ہے۔ ٹیلی ویژن ڈاکیومینٹریز تفریحات کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ صحافت  حقیقت اور افسانے کے بیچ فرق کو دھند لا دیتی ہے۔ زندہ افراد سوپ اوپیرا کے کردار بن جاتے ہیں اور افسانوی کردار زندہ انسانوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔ ہر چیز اچانک ہوجاتی ہے اور ہر ایک عالمی تھیٹر میں واقع ہونے والی ہر چیز کا  رواں نظارہ کرتا ہے۔ )

رد تشکیل کا نظریہ

         جیسا کہ عرض کیا گیا، پوسٹ ماڈرن ازم کے نزدیک جمہوریت، ترقی، آزادی، مذہب، خدا، کمیونزم اور اس طرح کے دعوئوں کی وہی حیثیت ہے جو دیو مالائی داستانوں اور عقیدوں کی ہے۔ اس لیے انھوں نے ان تمام دعوئوں کو عظیم بیانیہ، عظیم داستانیں یا Meganarratves  کا نام دیا ہے۔ ماڈرنزم کے مفکرین کا خیال ہے کہ انھوں نےبہت سی’سچائیاں ‘تشکیل دی ہیں اور چاہے مذاہب ہوں یا جدید نظریات، ان کی بنیاد کچھ خود ساختہ عالمی سچائیوں پر ہیں اس لیے ماڈرن ازم کے دور کی تہذیب، علم وغیرہ انہی مفروضہ سچائیوں پر استوار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان تشکیل شدہ سچائیوں کی رد تشکیل(Deconstruction) کی جائے، یعنی انھیں ڈھایا جائے۔ چنانچہ ادب، فنون لطیفہ، آرٹ، سماجی اصول وضابطے ہر جگہ ان کے نزدیک کچھ خود ساختہ سچائیاں اور عظیم بیانیے  ہیں جن کی ردِّ تشکیل ضروری ہے تاکہ پوسٹ ماڈرنسٹ ادب فنون لطیفہ وغیرہ میں ایسے ’غلط مفروضوں ‘ کا عمل دخل نہ ہو۔ پوسٹ ماڈرن ازم کا ایک تجزیہ نگار لکھتا ہے:

Postmodernist scholars argue that a global, decentralized society such as ours inevitably creates responses/perceptions that are described as postmodern, such as the rejection of what are seen as the false, imposed unities of meta-narrative and hegemony; the breaking of traditional frames of genre, structure and stylistic unity; and the overthrowing of categories that are the result of logocentrism and other forms of artificially imposed order.18؎

(ما بعد جدید مفکرین کا خیال ہے کہ ہماری طرح کے ایک آفاقی اور غیر مرکوز سماج میں خود بخودما بعد جدیدکی طرح کے رد عمل جنم لیتے ہیں۔ یعنی عظیم بیانات کے فکری استبداد کا استرداد، ساخت اور طرز کی وحدت کے روایتی فریموں کا توڑ اور منطق کی مرکزیت اور اس طرح کے دیگر مصنوعی طور پر مسلّط کردہ آرڈرز کو اٹھا کر پھینک دینے کا عمل۔ )

        شاید بحث پیچیدہ اور فلسفیانہ ہوگئی۔ لیکن چونکہ اس فکر کی بنیادیں فلسفیانہ ہیں اس لیے اس مختصر فلسفیانہ بحث کے بغیر اس نظریہ پر صحیح طریقہ سے روشنی نہیں ڈالی جاسکتی تھی۔

پوسٹ ماڈرن ازم کا ایک جائزہ

        پوسٹ ماڈرنسٹس کا یہ دعویٰ کہ دنیا میں کسی سچائی کا سرے سے وجود نہیں ہے ایک نہایت غیر منطقی دعویٰ ہے۔ اس دعویٰ میں بہت بڑا ریاضیاتی نقص ہے۔ یہ کہنا کہ ’ یہ سچ ہے کہ دنیا میں کوئی سچ نہیں ‘ ایک بے معنی بات ہے۔ ’’دنیا میں کوئی سچ نہیں ہے۔ ‘‘یہ بذات خود ایک دعویٰ اور ایک بیان ہے۔ اگر اس بیان کو درست مان لیا جائے تو اس کی زد سب سے پہلے خود اسی بیان پر پڑے گی۔ اور یہ بیان جھوٹا قرار دیا جائے گا۔ یہ ماننے کیلئے کہ ’’دنیا میں کوئی سچ نہیں ہے‘‘۔ کم سے کم اس ایک بات کو سچ ماننا پڑے گا۔ اس جملے کا ریاضیاتی (Mathematical) اور منطقی(Logical) تجزیہ اس مضمون کے دائرے سے باہر ہے، لیکن کم سے کم مندرجہ ذیل آسان تجزیہ ہر آدمی سمجھ سکتا ہے۔

        ٭دنیا میں کوئی سچ نہیں ہے۔

        ٭اس لیے یہ بات بھی کہ ’’دنیا میں کوئی بات سچ نہیں ہے‘‘سچ نہیں ہے۔

        ٭اس لیے ’’پوسٹ ماڈرن ازم‘‘سچ نہیں ہے۔

        ٭اس لیے دنیا میں سچ باتوں کا وجود ہے۔

        پوسٹ ماڈرنسٹس ہر عالم گیر سچائی کے دعوے کو عظیم بیان کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس پیمانے پر خود پوسٹ ماڈرن ازم کو ’’عظیم بیان‘‘ کیوں نہ قرار دیا جائے؟’خود ساختہ سچائیوں ‘ کی رد تشکیل کی یہ فکر ایسا جال بچھاتی ہے کہ اس میں خود ہی پھنس جاتی ہے اور خود اپنے اصولوں کے ذریعہ اپنے ہی اصولوں کا رد کرتی ہے۔ غالباً یہ انسان کی فکری تاریخ کا نہایت منفرد واقعہ ہے کہ کوئی فکر اپنے تشکیل کردہ پیمانوں سے اپنی ہی بنیادوں کو ڈھائے۔

        منطقی تضاد کے علاوہ اس فکر کے عملی اثرات بھی نہایت بھیانک ہیں۔ اگر سچائی اضافی ہے اور دنیا میں کوئی قدر آفاقی نہیں ہے اورسچائیاں مقامی تہذیبوں کی پیداوار ہیں تو سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر مثلاً نازی ازم کو غلط قرار دیا جائے گا؟آخر نازی ازم بھی ایک قوم کے اتفاقِ رائے ہی کا نتیجہ تھا۔ یا مثلاً کس بنیاد پر ایک شخص کو دوسروں کی جیبکاٹنے سے روکا جائے گا؟ اس لیے کہ ہر جیب کترا جس مخصوص تہذیبی پس منظر میں پروان چڑھتا ہے وہ اسے جیب کترنے کے عمل کو ایک ناگزیر حقیقت کے روپ میں ہی دکھاتا ہے، یا اگر کوئی بزرگ وار افیم کھا کر چلتی ٹرین کے دروازہ میں سے یہ سمجھ کر نہایت صبر وسکون کے ساتھ باہر نکلنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے گھر کے چمن میں تشریف لے جارہے ہیں تو آخر کس دلیل سے انہیں اس حماقت سے روکا جائے گا؟ وہ نہایت ایمانداری کے ساتھ وہی سچائی دیکھ رہے ہیں جوافیم کے اثر سے پیدا شدہ ان کے ’مخصوص احوال‘ انہیں دکھارہے ہیں۔ اس لیے سچائیوں کے تعدّد(‘Pluralism of Truth’) کے نظریہ کا تقاضہ ہے کہ ان کی اختیار کردہ سچائی کو بھی تسلیم کیا جائے۔ سچائی کی اضافت کے نظریہ کو مان لینے کے بعد اس دنیا کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔ کچھ حقائق پر جب تک عالمی اتفاق رائے نہ ہو اور انہیں قطعی حقائق کے طور پر قبول نہ کیا جائے، اُس وقت تک تمدن کی گاڑی ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ جہاں کچھ باتوں پر اختلاف رائے تمدن کو رنگا رنگی اور تنوع بخشتا ہے  وہیں کچھ باتوں پر اتفاق تمدن کو استحکام عطا کرتا ہے۔ اس لئے اختلاف اور اتفاق دونوں کی بیک وقت ضرورت ہے۔

پوسٹ ماڈرن ازم اور اسلام

        سچائی کی اضافت کا نظریہ اسلامی نقطئہ نظر سے ایک باطل نظریہ ہے۔ اسلام اس بات کا قائل ہے کہ عقل انسانی کے ذریعہ مستنبط حقائق یقیناً اضافی ہیں اورشک وشبہ سے بالا تر نہیں ہیں۔ اس حد تک مابعد جدیدیت اسلامی فکر سے ہم آہنگ ہے۔ لیکن اسلام کے نزدیک جن حقائق کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے وہ حتمی اور قطعی ہیں۔ ان کی جزوی تشریحات وتعبیرات(جس میں فہم انسانی اور عقل انسانی کا دخل ہے) تو اضافی ہوسکتی ہیں، لیکن ان کے واضح معنٰی ہر اعتبار سے حتمی اور قطعی ہیں۔

        اس ساری بحث میں اسلام کا نقطۂ نظر نہایت معتدل، متوازن اور عقل کو اپیل کرنے والا ہے۔ اس نقطئہ نظر میں پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین کے اٹھائے ہوئے سوالا ت کے جوابات بھی موجود ہیں اور اُن تضادات کی بھی گنجائش نہیں ہے جو پوسٹ ماڈرن ازم میں پائے جاتے ہیں۔

        یہ بات کہ انسانی عقل حتمی نہیں ہے اور بسا اوقات دھوکہ کھاتی ہے، اسلام کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے کوئی نئی فکر نہیں ہے۔ ماڈرن ازم نے جس طرح عقل انسانی کو حتمی اور قطعی مقام دیا اور عقلیات کو حتمی سچائی کے طورپر پیش کیا، اس پر پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین سے بہت پہلے اسلامی مفکرین نے جرح کی۔ بلکہ یہ مبحث صدیوں قبل امام غزالی ؒ اور امام ابن تیمیہؒ  کے افکار میں بھی ملتا ہے۔

        امام غزالی ؒ نے تہافۃ الفلاسفہ، مقاصد الفلاسفہ وغیرہ کتابوں میں ارسطو کی منطق پر خود اسی منطق کے اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے جو تنقید کی ہے اس کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عقل کے ذریعہ معلوم حقائق کو محض واہمہ قرار دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کائنات کی وسعتیں اور وقت لامحدود ہے اور انسانی عقل لامحدود کا ادراک نہیں کرسکتی۔ اس لیے اس کے مشاہدات اضافی (Relative) ہیں اور ان مشاہدات کی بنیاد پر اخذ کردہ نتائج بھی اضافی ہیں۔ 19؎  اپنی کتاب معیار العلم، میں اس بحث کوآگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے مختلف مثالوں سے ثابت کیا ہے کہ انسانی حسیات کے ذریعہ حاصل شدہ معلومات اکثر اوقات دھوکہ کا باعث ہوتی ہیں۔ ستارے آنکھ سے چھوٹے ذرات معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً ان میں سے کئی زمین اور سورج سے بھی بڑے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر آنے والے حقائق بھی ضروری نہیں کہ حقائق ہوں۔ وہ محض حقیقت کا سایہ یا واہمہ ہوسکتے ہیں۔ حسیات کا دھوکہ عقل سے معلوم ہوتا ہے اور عقل کا دھوکہ کسی ایسے ذریعہ سے معلوم ہوگا جو عقل سے بالا تر ہے (یعنی وحی الٰہی)۔ 20؎

        علّت (Causality) کے سوال پر امام غزالیؒ اور ابن رشدؒ کی بحث بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ 21 ؎ ان کا نقطۂ نظر ہے کہ خالص عقلی طریقوں سے دنیا یا انسان کے بارے میں کسی آفاقی بیان تک نہیں پہنچاجاسکتا، اس لئے کہ جو بیان بھی تشکیل دیا جائے گا وہ اپنے عہد کے مخصوص مادی پس منظر سے ماورا نہیں ہوگا۔ جو لوگ اس موضوع پر تفصیلسے پڑھنا چاہیں وہ خاص طور پر امام غزالیؒ کی تہافۃ الفلاسفہ اور معیارالعلم کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

        جدید اسلامی مفکرین نے بھی ’’ماڈرن ازم ‘‘ پر کلام کرتے ہوئے عقل کی محدودیت اور عقل کے ذریعہ معلوم حقائق کی اضافت ثابت کی ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ رقم طراز ہیں :

 ’’انسانی فکر کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علم کی غلطی اور محدودیت کا اثر لازماً پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خدائی فکر میں غیر محدود علم اور صحیح علم کی شان بالکل نمایاں ہوتی ہے۔ جو چیز خدا کی طرف سے ہوگی اس میں آپ ایسی کوئی چیز نہیں پاسکتے جو کبھی کسی زمانے میں کسی ثابت شدہ علمی حقیقت کے خلاف ہو یا جس کے متعلق یہ ثابت کیا جاسکے کہ اس کے مصنف کی نظر سے حقیقت کا فلاں پہلو اوجھل رہ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ان کے (علمی قیاسات) غلط ہونے کا اتنا ہی امکان ہوتا ہے جتنا ان کے صحیح ہونے کا، اور تاریخ علم میں ایسے بہت کم قیاسات و نظریات کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جو بالآخرغلط ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ ‘‘  22؎

        علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں :۔

عقل  بے  مایہ امامت  کی  سزا وا ر  نہیں

 راہبر  ہو  ظن  وتخمیں تو  زبوں کارِ حیات

فکر  بے  نور  ترا، جذب  عمل  بے بنیاد

سخت  مشکل ہے کہ روشن ہو  شب تارحیات 23؎

یا

وہ علم  کم بصری  جس میں ہم کنار  نہیں

تجلیات    کلیم  و    مشاہدات     حکیم 24؎

        اسلام کا نقطئہ نظر یہ ہے کہ علم حقیقی (یا حتمی اور قطعی سچائی) کا سرچشمہ باری تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس نے اپنے علم سے انسان کو اتناہی معمولی ساحصہ بخشا ہے جتنا وہ چاہتا ہے۔

إِنَّ اللّہَ لاَ یَخْفَیَ عَلَیْْہِ شَیْْء ٌ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ فِیْ السَّمَاء۔ (آل عمران :5)

’’بیشک اللہ وہ ہے جس سے نہ زمین کی کوئی چیز مخفی ہے نہ آسمان کی۔ ‘‘

یَعْلَمُ مَا بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلاَ یُحِیْطُونَ بِشَیْْء ٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلاَّ بِمَا شَاء۔ (البقرۃ:255)

’’جوکچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جوکچھ ان سے اوجھل ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے اور لوگ اس کے علم میں کسی چیز پر بھی حاوی نہیں ہو سکتے بجز ان چیزوں کے جن کا علم وہ خود انکو دینا چاہے۔ ‘‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔