ترکی کا تیرِ بے ہدف

صدر طیب اردگان نے مسلم دنیا کا نیلسن منڈیلا بننے کا موقع ضائع کر دیا۔

وقار احمد، دوحہ قطر

پندرہ جولائی 2016 کی شام چند دوست ملاقات کے لیے آئے اور ترکی میں فوجی انقلاب کی خبر بطور سوغات ساتھ لائے۔ اوسان خطا ہوتے ہوتے رہ گئے۔ جب فورا ہی الجزیرہ سے رجوع کیا اور پتہ چلا کہ ترکی کی تمام تر سیاسی قیادت سلامت ہے اور رجب طیب اردغان کے اعلان پر لبیک کہتے ہوئے عوام انقلابیوں کی مزاحمت کے لیے سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ قدرے اطمنان ہوا تاہم اس کشمکش کے ساتھ نیند کی آغوش میں چلے گئے کہ پتہ نہیں کل کا سورج پچھم سے طلوع ہوگا یا پورب سے۔ خیر سے رات گزری اور مسرت بہ داماں صبح نے انقلاب کے ناکام ہونے کا پیغام دیا۔ اس کے بعد جوں جوں گھڑیاں گھنٹوں اور گھنٹے دنوں میں بدلتے گئے شادمانی کا احساس انجان اندیشوں کی نذر ہوتا چلا گیا۔

انقلاب کے خلاف مزاحمت کے دوران ہی ترکی کی قیادت نے اس کا ٹھیکرا فتح اللہ گولن کے سر پھوڑ دیا اور انقلاب کی ناکامی کے بعد گرفتاریوں اور انتقامی کارروائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا جو تا حال جاری ہے۔ ساٹھ سے ستر ہزار کے درمیان گرفتاریاں ہوئیں جن میں فوجی افسران وملازمین، پولیس اہلکار، وکلاء، جج صاحبان اور ابتدائی درجے سے لے کر یونیورسٹی سطح کے اساتذہ و محققین شامل ہیں۔ ستم یہ کہ غضب سے مغلوب ارباب اختیار نے سیکڑوں بیش بہا تعلیمی اداروں، تنظیموں اور عوامی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے والی انجمنوں کو بھی بند کردیا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ دو قدم اور آگے بڑھتے ہوئے وہ تمام ٹیلی ویژن چینلز، اخبارت اور اربوں کھربوں میں کاروبار کرنے والی کمپنیاں اور کارخانے بند کر دیے گئے جن کا تعلق گولن تحریک سے تھا۔ ساتھ ہی  ہزاروں افراد کے پاسپورٹ منسوخ کیے گئے اور بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی گئی۔

یہ سب کچھ تب ہوا اور ہوتا جا رہا ہے جب فتح اللہ گولن چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے تھے اور ہنوز کہتے جا رہے ہیں کہ ان کا اس انقلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسی صورت میں دانش مندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ انقلاب کی کوشش میں براہ راست شریک افراد کو سخت ترین عبرتناک سزا دی جاتی اور مشکوک افراد پر نظر رکھتے ہوئے ان کے دلوں کو جیتنے کے جتن کیے جاتے۔ چہ جائیکہ اتنے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی جائیں اور فتح اللہ گولن کے انکار کے باوجود اس کی گرفتاری پر اصرار کیا جائے، اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ عالمی پیمانے دوست اور دشمن تبدیل کیے جائیں جیسا کہ ترکی قیادت کر گزری ہے۔ کل تک شام کے معاملہ میں امریکہ اور ترکی ایک صف میں تھے، روس صف دشمناں میں کھڑا تھا اور آج اردگان ماسکو میں پوتین کے ساتھ دیکھے گئے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے جب ترکی سپاہ نے روسی طیارے کو مار گرایا تھا تو پوتین نے ٹیلیفون پر اردگان کا سلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، اور اردگان نے اپنے وطن کی آزادی اور خود مختاری کے حوالے سے روس کو واضح اور دوٹوک پیغام دیا تھا، نیز روس کو ترکی کے حدود کے احترام کی خلاف ورزی پر واضح الفاظ میں دھمکی بھی دی تھی۔ راتوں رات ایسا کیا ہو گیا کہ جن دو خلابازوں نے روس کے طیارے کو مار گرایا تھا وہ تفتیش کی زد میں آگئے اور ترکی قیادت نے ان پر یہ الزام منڈھ دیا کہ ان دونوں نے روس سے تعلقات کو دانستہ خراب کرنے کی نیت سے طیارہ گرایا تھا، جبکہ گزشتہ دنوں وہ دونوں اسی قیادت سے داد شجاعت وصول کر رہے تھے۔

میں کوئی سیاست داں نہیں ہوں لیکن میری پہلی اور آخری نظر میں بھی یہ سارا ماجرا سیاسی ناپختگی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔

ترکی کی گزشتہ نوے 90 سالہ تاریخ سے تقریبا ہر پڑھا لکھا شخص کم وبیش واقف ہے۔ لہٰذا اسے دہرانے کی ضروت نہیں ہے، جو بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے وہ یہ ہے کہ گولن کون ہیں اور اردگان جدید ترکی کے ہیرو کیسے بنے؟

عالم اسلام میں عموما اور ترکی میں خاص طور پر لوگ ترکی کی تجدید کا سہرا دو‘ سروں پر باندھتے ہیں، جن میں ایک نجم الدین اربکان کا سر ہے اور دوسرا فتح اللہ گولن کا۔ نجم الدین اربکان کو (ابو الاسلام السیاسی) سیاسی اسلام کا بابائے قوم اور فتح اللہ گولن کو (ابو الاسلام الاجتماعی) معاشرتی اسلام کا بابائے قوم کہا جاتا ہے۔ دونوں رہنما اپنے اپنے دائرہ کار میں یکتا ہوتے ہوئے کبھی ایک دوسرے کے مخالف رہے ہوں ایسی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔ بلکہ جہاں جہاں اور جب جب ضرورت محسوس ہوئی ایک دوسرے کا دست وبازو بنے۔ جس کی تازہ مثال ترکی کے پچھلے انتخابات ہیں جن میں فتح اللہ گولن نے کھل کر نجم الدین اربکان کے سیاسی وارث رجب طیب اردگان کا ساتھ دیا۔ سیاسی دشمنی میں ایک حریف دوسرے کو جو چاہے الزام دے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں کے اسلامی افکار و اقدار ایک ہی ہیں۔ فتح اللہ گولن سید بدیع الزماں نورسی کی دعوتی تحریک کے وارث ہیں اور اردگان ان کے پیروکار۔ حیرت ہوئی جب یہ پڑھنے سننے کو ملا کہ اردگان کو فتح اللہ گولن کے ساتھ اپنی پرانی صحبتوں پر افسوس ہے۔ جب کہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اردگان؛ اردگان بن ہی نہیں سکتے تھے اگر گولن کا ساتھ میسر نہ ہوتا، خواہ سیاسی اعتبار سے کہیں یا مذہبی نقطہ نظر سے۔ ترکی کا سارا مذہبی مواد تو گولن ہی کا ہے۔ رہی سیاسی کامیابی پر اپنی پیٹھ تھپتھپانے کی بات تو الیکشن سے قبل اگر گولن سے پنجہ آزمائی کر لیتے اور پھر جیت کر ایوان میں پہنچتے تو بات سمجھی جا سکتی تھی۔

جو گولن کبھی آنکھ کا سرمہ تھے آخر کانٹا کیوں بن گئے؟ بات سنہ 2013 کی ہے جب ذرائع ابلاغ نے اردگان کے مقربین وزراء اور سیاسی اہل کاروں کے خلاف مالی بد عنوانی کے الزامات عائد کیے اور اعلی عدالت کے جج حضرات نے احتساب کا عمل شروع کرنا چاہا تو اس کو قبول کرنے کی بجائے اردگان نے اسے عدالتی انقلاب کا نام دے کر شفافیت کا گلا گھونٹ دیا۔ اور گولن تحریک کو اس کا مورد الزام ٹھہرا کر اس کے منتسبین کو عتاب کا نشانہ بنایا۔ یہی وہ دورانیہ تھا جب اردگان نے گولن کو اپنا حریف باور کیا اور کروایا۔

اب جو حالات ہیں ان میں ترکی کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کے بارے میں قابل رشک پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ سیاسی حالت کا اندازہ مشرق وسطی کی خانہ جنگیوں، خاص طور پر پڑوسی ملک شام کی خوں ریزی اور مہاجرین کا مسئلہ جو ترکی کے لیے سر دست بڑا دردسر ہے، اسرائیلی عزائم اور ایران کی لامحدود خواہشات کے ساتھ حالیہ دنوں ناکام انقلاب کے بعد یوروپی ممالک کی ترکی سے بیزاری اور امریکہ سے گولن کی حوالگی کے نام پر خواہ مخواہ کی دشمنی اور روس سے عزت نفس کی قیمت پر دوستی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اب تک یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ترکی شام کے انقلابیوں کے ساتھ بشار الاسد کا بدترین مخالف ہے لیکن اب کے حالات میں وہ بشار الاسد اور روس کے ساتھ کھڑا ہوا نظر آرہا ہے جو واضح طور پر سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کا مخالف خیمہ ہے۔ مصر سے اس کے تعلقات پہلے ہی خراب تھے۔ اب یہ سمجھنا دشوارتر ہے کہ ترکی کے ساتھ روس کے علاوہ اور کون کھڑا ہے۔

یہ تو رہا عالمی اور علاقائی سیاست کا منظرنامہ۔ اب آئیے اندرون ملک ترکی کی سیاست کس کروٹ بیٹھے گی اس پر ایک نظر ڈالیے پھر معاشرتی اور اقتصادی معاملات بھی بڑی حد تک اسی پر منحصر ہیں۔

جن ستر ہزار نفوس کو گرفتار کیا گیا ہے یا روزگار سے فارغ کیا گیا ہے وہ سب کے سب یقینا ترک باشندے ہیں، جہاں ان کے خاندان آباد ہیں، رشتہ داریاں ہیں، سماجی قربتیں ہیں اور احباب کے حلقے بھی ہوں گے اور ان سب پر مستزاد گولن تحریک کے فیض یافتگان کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہوں گی جو یقینا کروڑوں میں ہوں گے۔ با وجود اس کے کہ بہت سے ایسے بھی ہوں گے جن کی وفاداریاں تبدیل بھی ہوئی ہوں گی، عوامی مزاج جس طرح آج اردگان کی جمہوریت کو مظلوم سمجھ کر اس کا ہم نوا نظر آ رہا ہے، بالکل اس کے بر عکس آنے والے کل میں جمہور کو اس نظام میں آمریت کا پرتو نظر آئے گا۔ ترکی کا اسلامی سماج جو گزشتہ کل تک ایک دھاگے میں پرویا ہوا نظر آ رہا تھا آنے والے کل میں بری طرح بکھرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ جہاں اب تک صرف اسلام کی بات ہوتی تھی وہاں اب فرقوں کی بات ہوگی، کیوں کہ حکمراں طبقہ گولن تحریک کو ایک گمراہ فرقہ کے طور پر متعارف کروانے کے درپے ہے۔ پچھلی ایک صدی سے سیکولرزم کے مارے ہوئے مسلم سماج نے ابھی کھڑا ہونا سیکھا ہی تھا کہ لگتا ہے اس کے پاؤں میں بیڑی ڈال دی گئی۔ رجب طیب اردگان کی نیت پر شبہ کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے، اس کے باوجود ان کے کچھ کام ایسے ہیں جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ایسا بہت کچھ کرتے ہیں جو نہیں کرنا چاہیے۔ مالی بد عنوانی کے ملزمین سے درگزر، اور الزام لگانے والوں پر بلاتحقیق عدالتی انقلاب کا الزام، اپنے داماد کو فوج کے اعلی ترین عہدہ پر فائز کرنا، نظریاتی اختلاف رکھنے والے بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں کو کنارے لگانا جن میں سابق وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو اور سابق صدر عبد اللہ گل سر فہرست ہیں۔

ترکی کی اقتصادیات ظاہر ہے کہ کمزور ہو رہی ہے اور مزید اس کے کمزور ہونے کا اندیشہ یقین کی حد تک ہے۔ جس ملک کی مکمل آبادی ہی آٹھ کروڑ ہو جن میں خواتین اور بوڑھے بچے سب شامل ہوں اس ملک میں ستر ہزار خاندان کی ملازمت چھین لی جائے جن میں کم وبیش پچیس سے تیس ہزار خاندان کے کمانے والے افراد کو لمبی قید اور بہتوں کو سزائے موت دے دی جائے جس کا قوی امکان ہے، سیکڑوں تجارتی کمپنیاں، کل کارخانے، تجارتی مراکز، درجنوں ٹیلی ویزن اور اخبارات بند کر دیے جائیں، بے شمار افراد کے بیرون ملک سفر پر پابندی لگا دی جائے وہاں بے روزگاری نہیں بڑھے گی اقتصادی مندی نہیں آئے گی تو اور کیا ہوگا۔

ان حالات میں حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ سیاسی حکمت عملی تبدیل کی جاتی، براہ راست جرم کے مرتکب کو سزا دی جاتی، اختلاف رائے رکھنے والوں کے شکوے سنے جاتے، وسیع تر قومی مفاہمت کی فضا تیار کی جاتی اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا حوصلہ پیدا کیا جاتا۔ کسی انقلاب کے وقتی طور پر ناکام ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ پھر دوسرا انقلاب تعاقب میں نہ ہو۔ اگر رجب طیب اردگان نے حالات کا درست تجزیہ نہیں کیا اور اپنا طرز عمل تبدیل نہیں کیا تو ایسا لگتا ہے کہ پہلا انقلاب ناکام ہو گیا لیکن دوسرا انقلاب ناکام نہیں ہوگا۔

ترکی کی قیادت گولن تحریک کو حرف غلط کی طرح مٹانے میں بہت عجلت دکھا رہی ہے۔ اس کار خیر کے لیے اس نے سب سے بڑا تیر جو مارا ہے وہ یہ ہے کہ مذکورہ تحریک کے تمام چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں کو بند کر دیا۔ اساتذہ فارغ ہو گئے اور طلبہ کا مستقبل بے سمت۔ اپنے ملک کے اداروں کو ویران کرنے کے بعد بھی آتش انتقام نہیں بجھی تو دوست ممالک کا رخ کیا اور اسی ضمن میں ترک وزیر خارجہ پاکستان جا پہنچے۔ سرتاج عزیز کے سامنے دوستی کا حوالہ دیتے ہوئے گولن تحریک کے ذریعہ چلائے جا رہے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی تجویز پیش کی۔ پاکستانی وزیر نے حکمت سے کام لیتے ہوئے اداروں کو بند کرنے سے معذرت کر لی۔ البتہ ترک وزیر کو یقین دلایا کہ ان اداروں میں کسی قسم کی منفی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے گی۔

تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ پاکستان میں گولن تحریک کے تحت چلائے جا رہے 28 اسکولوں کے پرنسپل کو سبک دوش کر دیا گیا ہے جن میں 23 ترک باشندے ہیں۔ اب ان کی جگہ نئے سرے سے پاکستانی شہریوں کو بحال کیا جائے گا۔

عمومی طور پر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ مسلم ممالک میں جہاں کوئی حادثہ ہوا فورا ہی الزام واتہام کی انگلی امریکہ اور اسرائیل کی طرف اٹھ جاتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایسا ہر معاملہ میں صحیح یا غلط ہی ہوتا ہے۔ لیکن یہ طرز فکر وعمل غلط ضرور ہے۔ ہم اپنے گھر کے دروازوں کو بند کرنا ضروری کیوں نہیں سمجھتے۔ آخر اسے کھلا چھوڑتے ہی کیوں ہیں کہ جب جی چاہے چور ہمارے گھر میں داخل ہوجاتا ہے۔ آخر کوئی ملک امریکہ، اسرائیل یا یوروپی ممالک میں اس قسم کی بد امنی کیوں نہیں پھیلا سکتا۔ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ وہاں کے عوام اور حزب اختلاف ارباب اقتدار کی شفافیت سے مطمئن ہیں۔ عدالتیں آزاد ہیں۔ ان کی باز پرس پر حکومتیں انقلاب کا الزام نہیں دھرتیں۔ اپنی خامیوں اور عاقبت نا اندیشیوں پر پردہ ڈالنے اور دوسروں پر الزام عائد کرنے کا لازمی نتیجہ اندرون خانہ بدامنی اور بین الاقوامی سطح پر تنہائی ہی ہوتا ہے۔ کیا ضروری تھا کہ ناکام انقلاب کا الزام امریکہ کو دیا جائے۔ اگر یہ درست ہے تب بھی ڈپلومیسی اختیار کی جانی چاہیے تھی اور محتاط عمل وردعمل کے ذریعہ معاملہ کو آگے لے جانا چاہیے تھا۔ براہ راست الزام دے کر امریکہ کو مجرم قرار دینا اور اس کے بعد گولن کی حوالگی کا مطالبہ کرنا اور ساتھ ہی روس سے دوستی کے یے ماسکو کا سفر کرنا پے در پے عجلت میں کیے گئے اقدامات ہیں جن سے کچھ بھی بھلا ہونے نہیں جا رہا ہے۔

سارے منظرنامے کو سامنے رکھیں اور غور کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ترکی کی حالیہ قیادت انتہائی بزدل ثابت ہوئی ہے۔ 2013 سے لے کر اب تک اس کے سارے اقدامات خوف کے سائے میں اٹھائے گئے معلوم ہوتے ہیں۔ نقطہ نظر کے اختلاف کو برداشت کرنے پر کسی طور آمادہ نہیں۔ باحوصلہ قیادت بردبار ہوتی ہے، اور بردباری سے حکمت کے چشمے پھوٹتے ہیں جس سے ریاست وحکومت کی آبیاری کی جاتی ہے۔ اور سب کو ساتھ لے کر وطن کی تعمیر وترقی کے خواب تعبیر کیے جاتے ہیں جسے عرف عام میں جمہوریت کہا جاتا ہے۔ ترکی کی موجودہ حکومت باوجود اس کے کہ جمہوریت کی دعویدار ہے؛ جمہوری نہیں ہے۔ محض روایتی طور پر منتخب ہو کر اقتدار حاصل کر لینے سے ہی کوئی حکمراں جمہوری نہیں ہو جاتا، اس کے لیے مزاج کا جمہوری ہونا زیادہ ضروری ہے۔ کہنے کو تو قذافی، صدام، علی عبد اللہ صالح اور بشار بھی منتخب ہو کر آتے رہے ہیں۔ اور حضرت عمر بن عبد العزیز کو اقتدار وراثت میں ملا تھا۔ دنیا کے سامنے ان سبھوں کے سیاسی وحکومتی رویے درس وعبرت کا نشان ہیں۔

ایک مسلم فاتح قائد کا رویہ مغلوب مخالفین کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے؟ خاص طور پر ان حالات میں جب مخالف خیمہ میں بھی اپنے بھائی اور سابق حلیف ہی ہوں ؟ اور ایسے ملک میں جہاں جمہوریت کے راگ الاپے جاتے ہوں ؟ چند سو افراد کی مجرمانہ حرکت کی سزا ہزاروں ملازمین کے لاکھوں بچوں کے پیٹ پر لات مار کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیسی صاحب بصیرت قیادت ہے جس نے سیکڑوں تعلیم وتدریس کے سرچشموں کو بیک جنبش زبان خشک کر دیا؟

کیا اللہ کے رسول علیہ الصلوات والتسلیمات نے اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ فتح مکہ کے دن جو حسن سلوک کیا تھا، ہمارے مسلم فاتح قائد اس سے نابلد ہیں ؟ اگرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ان کے لیے اسوہ حسنۃ وکاملۃ نہیں ہے تو پھر وہ کہاں سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور منصب قیادت ان کی قامت زیبا پر کیوں کر پورا اترتا ہے؟

صلاح الدین ایوبی نے القدس فتح کرنے کے بعد صلیبیوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا، کیا انہیں یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک ناکام انقلاب کے تعاقب میں وہ اتنا دور نکل جائیں کہ غبار راہ کے پیچھے دوسرے انقلاب کی بنیاد پڑ جائے اور انہیں اس کا احساس بھی نہ ہو کہ ان کے مخالفین بھی اتنے ہی ترک ہیں جتنے وہ ہیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ ترکی کی قیادت بصیرت سے کام لے اور وہاں امن واستقرار قائم ودائم رہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔