خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے؟

مدثراحمد

مسلمان اپنی زندگیوں کواللہ کے احکامات اوراللہ کے نبیﷺ کی احادیث کے مطابق گذارنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اپنی زندگیوں کو شریعت کے مطابق گذارانافائدہ مند قرار دیتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺنے اپنی زندگی کو تمام مسلمانوں کیلئے نمونہ بنا کر پیش کیا ہے۔کھانے پینے کے آداب سے لیکر ازداوجی زندگی کے طریقے نبی کریمﷺنے اپنی امت کو سکھائے ہیں، سائنس، ٹیکنالوجی،ڈیفنس،پبلک ریلیشن اور پالیٹکس کے گُر نبی کریمﷺنے اپنی امت کے سامنے پیش کئے ہیں۔ مسواک کے فائدے نبی کریم ﷺنے بیان کئے ہیں تو اسی نبیﷺنے مسلمانوں کواپنی دفاع کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کادرس دیا ہے۔اپنے اور اپنے دین کے تحفظ کیلئے حکمت،دانشوری اور دعوت کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ طاقت کااستعمال کرنے کابھی حکم دیا ہے۔اگر اسلام نے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کیلئے طاقت کا استعمال کرنے سے روکا ہوتا تو نہ تو کوئی غزوہ آپﷺکی حیات میں پیش آتا نہ ہی جہاد فی سبیل اللہ کے موقع آتے اور نہ ہی قتال کے احکامات جاری کئے جاتے۔

آج ہم امتیوں نے نبی کریمﷺ کی سوانح حیات کو محدود موقعوں پرنمونہ کے طو رپر استعمال کرنا شروع کیا۔ہمارے نزدیک ولیمہ کا کھانا،سُنت ابراہیمی کروانا ہی سُنت ہے۔اس کے علاوہ ہمارے فائدے کیلئے جو بھی سنتیں ہیں اسے ہم بخوبی اختیار کرتے ہیں، لیکن جب بات دین کے تحفظ اور بچاؤ کی آتی ہے، مسلمانوں کی حفاظت کی آتی ہے تو ہمیں نہ کوئی سنت یاد آتی ہے نہ ہی قرآن پاک کے احکامات۔ مسلمانوں کے زوال کی جب بات کی جاتی ہے تو ہمارے اہل علم حضرات یہ کہہ کر اپنا دامن بچالیتے ہیں کہ آج مسلمان قوم دین سے دور ہوتی جارہی ہے اور سنتوں سے دور ہونے لگی ہے اس وجہ سے مسلمانوں پر اللہ کا عذاب نازل ہورہاہے۔ یقیناًمسلمان دین سے دور ہورہے ہیں، انہوں نے اپنے تحفظ کی خاطر پختہ اصول نہیں اپنائے ہیں نہ ہی مسلمانوں نے اس کیلئے لائحہ عمل تیار کئے ہیں، نہ ہم ذہنی طورپر تیار ہیں نہ ہی جسمانی طورپر۔ سرکاری محکمے جیسے پولیس، انتظامیہ اور عدالتوں میں ہماری نمائندگی نہ کہ برابر ہے۔

سال 2015-18؍ تک کرناٹک میں ہی 17؍ ہزار پولیس کانسٹیبلوں کی بھرتیاں ہوئی ہیں ان میں سے صرف 9؍ سو مسلمانوں نے روزگار حاصل کئے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو گلی محلوں میں غنڈہ گردی کرتے ہوئے اپنا رعب دکھانے کا شوق ہے وہیں ان نوجوانوں کو باوردی ہاتھ میں پستول لے کر اپنا رعب جمانے کا موقع ملنے کے باوجود ہم اس کا استعمال نہیں کررہے ہیں۔ جب ہم سنتوں کی بات کرتے ہیں تو ہم کشتی کرنے کی سنت کو بھول جاتے ہیں، تیر اندازی، تلوار چلانا، تیراکی جیسی سنتوں کو بھی ہم بھلا بیٹھے ہیں۔ بس ولیمے کھانا، کدو کھانا، گوشت کھانا، شہد کھانا ہی ہماری عام سنتیں ہیں۔ جب تک ہم مسلمان اپنے تحفظ کیلئے اپنے دل و دماغ کے ساتھ ساتھ جسمانی طورپر بھی تیار نہیں کرتے اسوقت تک مسلمانوں کا تحفظ ناممکن ہے۔ دریں اثناء یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ جمیعت العلماء ہند نے یوتھ کلب نام سے اپنی تنظیم کی شاخ قائم کی ہے جہاں پر نوجوانوں کو سیلف ڈیفنس کے گر سکھائے جارہے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے، دیر آمد درست آمد۔ جمیعت نے یہ فیصلہ بہت دیر سے ہی کیا ہو لیکن درست کیاہے۔ لیکن ہم جمیعت کو اس جانب بھی توجہ دلانا چاہینگے کہ جو کام کیا جارہاہے وہ حکمت، رازداری اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جائے۔ آریس یس کی ہی بات لیں۔ 1925؍ میں قائم ہونے والی آریس یس نے آج تک اپنے ایجنڈے کو واضح نہیں کیا، انکے تربیتی کیمپس کہاں ہیں وہاں کیا ہورہاہے اور کیسے ہورہاہے اس بات کا اندازہ کسی کو نہیں ہے۔

قریب 75سال بعد آریس یس کے کارکنوں نے باقاعدہ طورپر ہتھیاروں کی تربیت کے سلسلے میں دنیاکو آگاہ کیا، انکے یہاں بجرنگ دل، ہندو جاگرن منچ، ہندو سینا، درگہ شکتی کیندر جیسی شاخوں کو ہتھیاروں سے لیز کرواکر انکی تربیت کی جانے لگی۔ 75؍ سال بعد انہوں نے یہ کہا کہ ہم اپنے سیلف ڈیفنس کی خاطر ان تربیتی کارگاہوں کا اہتمام کررہے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی ڈھنڈورا پیٹا جاتاہے جسکی وجہ سے مستقبل میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ آج قوم کو ذہنی و جسمانی طورپر تیار ہوکر فسطائی طاقتوں کے خلاف کمر بستہ ہوتے ہوئے ملک کے جمہوری نظام کو بحال کروانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جو علماء دین مدارس اسلامیہ سے فارغ ہوکر نکل رہے ہیں انہیں حکومتی محکموں میں بھر تی کرنے کیلئے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارا ڈپٹی کلکٹر آئی اے یس کے ساتھ ساتھ حافظ قرآن ہو، عالم ہو،قاری ہوتو یقیناًمسلمانوں کی بہترقیادت ہوسکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ علماء کو مسجدوں و مدرسوں تک ہی محدود رکھا جائے۔ جب علماء مدارس سے فارغ ہوکر مختلف تنظیموں کے سربراہان ہورہے ہیں، مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہورہے ہیں تو کیا یہی علماء اپنی دینی تعلیم سے فارغ ہوکر مزید دوسال سویل سرویسس کی تیاری کیلئے نہیں لگاسکتے ؟۔ اگر ایسا ہوتاہے تو ہمارے علماء دوسرے مسلم امیدواروں سے بہتر کارگردگی دکھاسکتے ہیں اور وہ ملک کے انتظامیائی امور میں اپنی شراکت دے سکتے ہیں۔

 یادرہے کہ آج ملک کاانتظام چلانے والے جتنے بھی بیوروکریٹس یعنی افسرشاہی ہیں ان میں سب سے بڑی تعداد برہمنوں کی ہے اور ملک میں برہمنوں کی جملہ تعداد صرف 5؍ فی صد ہے جب کہ سرکاری ملازمتوں میں ان کی نمائندگی 34؍فی صد ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو آگے لائیں تاکہ وہ قوم کے تحفظ کیلئے کام کرسکیں۔ ذراسوچئے کہ اگر ہر تھانے میں کم از کم دو کانسٹبل ہوں، ہر تعلق میں کم ازکم دو انسپکٹر اور ہر ریاست میں کم ازکم 10؍ آئی پی یس ہوں تو مسلمانوں کے تحفظ کیلئے کتنی بڑی طاقت مل سکتی ہے۔ بھلے یہ لوگ صرف مسلمانوں کیلئے کام نہ کریں بلکہ انصاف کیلئے کام کریں، قانون کیلئے کام کریں تب ہی ملک میں مسلمان محفوظ رہ سکتے ہیں کیو نکہ بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈ کر نے ملک کے آئین میں تمام کو یکساں جینے کا حق دیا ہے۔ ہندوستانی آئین کسی خاص مذہب و ذات کے لیے محدود نہیں ہے اور نہ ہی اس آئین کو ماننے والوں پر کوئی کسی پر ظلم کرسکتاہے مگر ہماری بد نصیبی ہے کہ ہمارے افسران، پولیس، سیاستدان سب فرقہ پرست سوچ رکھنے والے بنتے جارہے ہیں ایسی ذہنیت سے ملک کے آئین کو بچانے کے لئے ہمیں ہی آگے آنا ہوگا۔ علامہ اقبال نے اپنے کلا م میں کہا تھا کہ

تیرے دریاں میں طوفان کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے

یہ علامہ اقبال نے دو اندیشی کا پیغام دیا تھا،آج ہم مسلمانوں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا دریا تو یقیناًموجود ہے،لیکن اس دریا میں جوش، ہمت،خودی کا دریا نہیں ہے۔اگر یہ دریا افان کھائے تو یقیناًوہ ساحلوں سے ٹکر مارکربھی اپنی خودی کو برقرار رکھ سکتا ہے یہی مسلمان کی شناخت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔