خود کو فضیحت دوسروں کو نصیحت

مودی جی کے منہ سے تین طلاق کی بات

عبدالعزیز

بھارتیہ جنتا پارٹی کے مکھیا اور ملک کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ مسلم بہنوں پر ’’تین طلاق‘‘ جیسے ظلم کو ختم کرنا ہوگا۔ جب چاہا ٹیلیفون پر طلاق طلاق طلاق کہہ کر مسلم مہیلاؤں (عورتوں) کے حق کو سلب کرلیامیاں کہاں کا انصاف ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مودی جی کے منہ سے مسلمانوں یا مسلم عورتوں کی فکر اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ مودی جی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو سورت اور احمد آباد شہر میں جو کچھ مسلمان عورتوں کے ساتھ ہوا وہ دنیا کے کسی مہذب ملک اور ریاست میں نہیں ہوا۔ سورت میں مسلم خواتین کو ننگا کرکے بھگوا خاندان والوں نے گھمایا۔ 2002ء کے فساد میں ہزاروں مسلم خواتین کے ساتھ ہر قسم کے جبر و ظلم کو روا رکھا۔ کئی بستیوں کو مسلم عورتوں اور بچوں کی موجودگی میں جلا دیا گیا۔ گلبرگ کالونی جس میں سابق ایم پی سید احسان جعفری کا خاندان رہتا تھا، کالونی سمیت ان کے خاندان کے لوگوں کو جلانے مارنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی۔ کالونی جلتی رہی، سید جعفری مدد کیلئے مودی اور ان کے کارندوں کو فون کرتے رہے مگر پولس وقت پر نہیں آئی، بلکہ بلوائیوں کو مزید اودھم مچانے کیلئے بھیج دیا۔ سابق ایم پی کو گھر سے گھسیٹ کر اسے زندہ جلا دیا گیا اور شہید جعفری کی بیوہ اور اس کی بیٹی قاتلوں کے خلاف قانونی جنگ لڑ رہی ہیں۔ مودی جی کو ان خواتین کی فکر نہیں ہے بلکہ قاتلوں کی عورتوں اور ان کی بیٹیوں کی فکر ہے جنھوں نے مسلم بستیوں کو جلانے میں حصہ لیا۔ مودی جی اپنی بیوی کو نہ جانے کتنی طلاقیں دی ہوں گی مگر وہ شاید چند مہینوں سے زیادہ ان کے ساتھ نہ رہ سکی جسے اپنی بیوی کی پرواہ نہ ہو وہ دوسروں کی بیویوں اور عورتوں کی پرواہ کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ محض سیاست ہے اور کچھ نہیں۔
مودی جی نے یہ بھی کہا کہ مہربانی کرکے تین طلاق کو ہندو مسلماں کا مسئلہ نہ بنائیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مودی جی اسے ہندو مسلمان کا مسئلہ بناکر اتر پردیش اور پنجاب کے الیکشن میں اپنی پارٹی کیلئے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ بی جے پی یا مودی کے اس سیاسی یا انتخابی ایجنڈے کے مقصد کو پورا ہونے نہ دیں۔ انھیں بتائیں کہ یہ مسلمانوں کے گھر کا مسئلہ ہے۔ ان کے گھر میں جھانکنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں، جہاں ہزاروں عورتیں جہیز یا تلک کے نام پر جلادیی جاتی ہیں۔ آج بھی مسلمان معاشرہ سے کہیں زیادہ ہندو سماج میں طلاق کی شرح ہے۔ جو لوگ خود ظالم ہیں ان کے منہ سے عدل و انصاف کی بات کیسے کسی کو اچھا معلوم ہوسکتا ہے؟
جہاں تک مسلمانوں کے اپنے معاشرہ کی اصلاح کا معاملہ ہے یقینا ہم مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ طلاق کے طور طریقہ میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ واقعہ تو یہ ہے کہ اگر ہم مسلمان اپنے گھر کو درست نہیں کریں گے۔ نکاح یا طلاق کے مسئلہ کو سلجھانے کی کوشش نہیں کریں گے تو کفر کی نشتر زنی برداشت کرنی ہوگی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح بیاہ و شادی میں غلط رسوم اور غلط طور طریقہ کا استعمال کیا جارہا ہے اسی طرح طلاق دینے کے طریقہ کو جیسے اور جس طرح دینے کا چلن پیدا ہوگیا ہے اس سے مسلمان عورتیں مصیبت اور مسائل سے دوچار ہیں۔ بہت سے ظالم تو ایسے ہیں کہ دوسری شادی کیلئے اپنی بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی بھی فکر نہیں کرتے۔ غریب اور لاچار ماں محنت اور مزدوری کرکے اپنے بچے کو پالتی اور دیکھ بھال کرتی ہے۔ سنگ دل معاشرہ بھی اس ظلم پر خاموش رہتا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو نشے کے عالم میں اپنی بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں۔ اسے قاضی، فقیہ آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ’’طلاق ہوگئی‘‘۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو غصہ کی حالت میں جب بے قابو ہوتے ہیں اور ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں تو طلاق طلاق کہہ کر برسوں کے ساتھی کو یکلخت اپنے سے جدا کر دیتے ہیں۔
طلاق کا جو طریقہ اسلام نے بتایا ہے وہ ناپسندیدہ ہونے کے باجود عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ جب میاں بیوی میں ناچاقی ہوجائے تو پہلے باہمی گفتگو سے اسے سلجھانے کی کوشش کریں۔ اگر یہ کوشش کامیاب نہ ہو تو اپنے خاندان والوں کو اپنے مسئلہ کے حل کیلئے مدد لیں۔ اس سے بھی نہ ہوسکے تو خاندان کے باہر کے افراد کو شامل کریں۔ ان تمام طریقے پر جب عمل ہوجائے اور ایک ساتھ رہنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے اور ایک ساتھ رہنے سے نکاح کا مقصد فوت ہوتا دکھائی دے جب کہیں طلاق کے بارے میں غور و فکر کریں۔ سیکڑوں بار اس پر غور و فکر کریں تب کہیں طلاق کے لفظ کا استعمال کریں کیونکہ کسی کی زندگی کا معاملہ ہوتا ہے جسے اپنے گھر بیاہ کر لائے ہیں ، اس کے مسائل و مصائب کا معاملہ ہوتا ہے۔ اگر بچے ہوں تو ان کی زندگی کا مسئلہ در پیش ہوتا ہے۔ اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاہے کہ ’’نکاح کو آسان کرو اور طلاق کو مشکل‘‘ ۔ غور کیجئے کہ مسلمانوں نے اس حدیث کے خلاف عمل ایک زمانے سے کر رہے ہیں۔ نکاح کو مشکل تر بنا دیا اور طلاق کو انتہائی آسان اور سہل۔ ظاہر ہے اسلام کے خلاف چلنے والے کسی بھی شریعت یا اسلامی قانون کی حفاظت نہیں کرسکتے بلکہ ظالموں اور کافروں کی اپنے طور طریقہ سے مدد کرسکتے ہیں اور آج غیر اسلامی طریقہ پر چلنے سے ایسے لوگوں سے باتیں سن رہے ہیں جو خود کو ’’فضیحت اور دوسروں کی نصیحت‘‘ کرتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔