یکساں سول کوڈ اور مسلم نوجوانوں کی ذمہ داری

محمد فراز احمد

یکساں سول کوڈ کا جو شوشہ مرکزی حکومت کی جانب سے چھوڑا گیا ہے اس پر بحث و تکرار جاری ہے اور موجودہ حکومت نے یہ طئے کرلیا ہیکہ وہ ملک کے دانشور، صحافی حضرات، مصنف ، مقرر،محقق اور با شعور افراد کے ذہن کو کبھی سکون میں نہ رکھیں گے بلکہ ہر نئی صبح کے ساتھ ایک نیا عنوان دے دیا جائیگا بحث و مباحثہ کے لئے یعنی ہر روز ایک نیا تنازعہ پیدا کر کے ملک کی معصوم عوام کو ذہنی دباؤ میں رکھا جائے اور وکاس کی پٹری سے عوام کی توجہ اِن ہی تنازعات کی طرف مبزول کروادیں۔

یکساں سول کوڈ کے عنوان سے بہت سے مقالات، تجزئیے اور تحریریں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور مزید بھی آسکتی ہیں لیکن مسئلہ مسلم نوجوانوں کا ہے جو بہت جلد جذباتی ہوجاتے ہیں اور حکومت کے یہ تنازعات کا مقصد بھی یہی ہیکہ مسلم نوجوانوں کے جذبات کو بھڑکا کر انھیں مشتعل کردیا جائے، لیکن نوجوانوں نے اس معاملہ پر جس صبر اور تحمل کا اظہار کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ پُر امن احتجاج اور دستخطی مہمات میں نوجوانوں کا خاص حصہ موجود تھا جو کہ نوجوانوں کا اسلامی شریعت کے تئیں الفت اور محبت کا عمدہ ثبوت ہے۔

اثبات کی پیشگی کے بعد اب ’نمونہ‘ دکھانا بھی لازمی و ضروری ہے کیونکہ مومن کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوتا اور جس شریعت کے تحفظ کی بات کرتے ہیں وہ ’’عملی نمونے‘‘ کے بغیر ممکن نہیں۔

مسلمان نوجوانوں نے یہ تو سمجھ لیا کہ یکساں سول کوڈ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے قطعی ناقابلِ قبول ہے اور مزید اسکے متعلق دیگر لاشعور افراد میں اثباتاً شعور بیداری کی ضرورت ہے، اور یہ بات بھی سمجھ لینا ضروری ہیکہ اگر انھیں یکساں سول کوڈ کی مخالفت یا اسکے خلاف میں احتجاج کرنا ہوں تو شریعت پر مکمل عمل آواری کا عہد کرلیں، یہی سب سے بڑا احتجاج ہوسکتا ہے۔ لاکھوں سَروں کے مجموعہ کو سڑک پر جمع کرنے سے اتنی مخالفت نہیں ہوسکتی جتنا شریعت پر عمل کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے، لہٰذا نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنی زندگی کو شریعت کے مطاطق نہ صرف اجتماعی زندگی بلکہ انفرادی اور عائلی زندگی کو بھی ڈھال لیں تاکہ کسی کی ہمت نہ ہوسکے کہ وہ اسلام یا شریعت کے خلاف انگلی اٹھائیں۔ اور یہ بات بھی ذہن نشیں کرلیں کہ شریعت بالکل قرآن اور احادیث کے مطابق ہی قابل قبول ہے اور یہی دراصل ’’صبغت اللہ‘‘ کی نشانی ہے۔نیز نوجوانوں کو چاہئے کہ اسلام کی صحیح شکل کو لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ طلاق کا مسئلہ جس طرح مسلمانوں کی ہی غلط کاریوں کی وجہ سے ابھرا ہے، ایسا ماضی میں اپنے غلط عمل کے ذریعہ نہ ہونے دیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔