ہم کو سکونِ دل ملا غربت کے باوجود

خان حسنین عاقب

ہم کو سکونِ دل مِلا غربت کے باوجود

کچھ لوگ مضطرب رہے دولت کے باوجود

دِل نے تو کہہ رکھا تھا کہ ان کو سنبھل کے دیکھ
اب آنکھ مَل رہا ہوں بصارت کے باوجود

دل کی نمی جو پہلے تھی ، جانے کدھر گئی
بہتے نہیں ہیں اشک ندامت کے باوجود

اس دَور نے بدل دئے مفہومِ دوستی
دوری بنی ہوئی ہے رفاقت کے باوجود

اک بوند آگے بڑھ کے زمیں پر برس پڑی
بادل کئی تھمے رہے عظمت کے باوجود

اک وہ کہ جھوٹ بول کے میدان لے گیا
اک ہم کہ چُپ تھے اپنی صداقت کے باوجود

وہ دن بھی تھے کہ میرے سِوا سوجھتا نہ تھا
مِلتے نہیں ہیں اب تو وہ فرصت کے باوجود

آدابِ پرورِش ہیں کہ اولاد پر کبھی
لازم ہیں سختیاں بھی محبت کے باوجود

عاقب عجیب شخص کہ مشہور ہے مگر
گمنام رہتا ہے کہیں شہرت کے باوجود

تبصرے بند ہیں۔