خوش فہمیوں میں پڑگئے باتوں پہ مرگئے

سالک ادیؔب بونتی

خوش فہمیوں میں پڑگئے باتوں پہ مرگئے
سادہ مزاج لوگ اداؤں پہ مرگئے

جانانہ حال چال اشاروں پہ مرگئے
کچھ حسن کے پجاری نگاہوں پہ مرگئے

بس بےہدف قدم کوبڑھاتےچلےگئے
مجبور دل نوازتھےراہوں  پہ مرگئے

یہ حادثہ بھی دیکھاہےآنکھوں نے بارہا
موجوں سے لڑنےوالےکناروں پہ مرگئے

اپنےکمالِ ضبط پہ جن کو تھا ناز وہ
گلشن کی بات آئی گُلابوں پہ مرگئے

جن پراثرکِیانہ کبھی زہرِ ہلاہل
وہ بھی مسیحا! تیری عطاؤں پہ مرگئے

دردِ جگر چھپاکےجوجیتےرہےادیؔب
چارہ گری کےدھندلے گمانوں پہ مرگئے

تبصرے بند ہیں۔