خوش فہمیوں کے فریم میں چہرہ تو کوئی اور تھا

افتخار راغبؔ

خوش فہمیوں کے فریم میں چہرہ تو کوئی اور تھا

آئینہ رکھ کے سامنے دیکھا تو کوئی اور تھا

آنکھوں میں تیری ڈوب کے، کیا ہو گیا ہوں دیکھ لے

ابھرا تو کوئی اور ہوں، ڈوبا تو کوئی اور تھا

میں مبتلاے عشق ہوں، اپنے جنوں کا رزق ہوں

عقل و خرد کے دار پر لٹکا تو کوئی اور تھا

ضربِ وفا سے آپ کی نکھری تھی میری زندگی

ٹوٹا تو کوئی اور تھا، بکھرا تو کوئی اور تھا

چلتا نہیں ہے کچھ پتا، تعمیر ہو رہا ہے کیا

تیری وفا کا ذہن میں نقشہ تو کوئی اور تھا

غیروں پہ التفات سے، ترکِ وفا کی بات سے

جلتا تو کوئی اور تھا، بجھتا تو کوئی اور تھا

قسمت تھی یا مری خطا، راغبؔ تھا میرا دل سوا

گزرا الگ ہی سانحہ خدشہ تو کوئی اور تھا

تبصرے بند ہیں۔