دارالعلوم دیوبند اور فتوی: حقیقت کیا ہے؟

راحت علی صدیقی قاسمی

دارالعلوم دیوبند دنیا کی عظیم دینی درسگاہوں میں سے ایک ہے، یہاں مسلمانوں کی اخلاقی دینی تعلیمی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، ان کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے افراد تیار کئے جاتے ہیں ، وہ افراد ملک کے مختلف گوشوں میں نکل کر تعلیمی بیداری پیدا کرتے ہیں ، دین و عقائد سے تعلق اور محبت کے جذبہ کو مہمیز کرتے ہیں ، اسلامی ماحول تشکیل دینے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کرتے ہیں ، جہالت، بداخلاقی لادینیت کا قلع قمع کرنے کی سعی پیہم کرتے ہیں ، بدعات وخرافات کا محل زمین بوس کرتے ہیں ، ملک کے مختلف حصوں میں دارالعلوم سے فیض یافتہ افراد کو نمایاں خدمات انجام دیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، دین سے محبت کرنے والے افراد تیار کرنا دارالعلوم دیوبند کا امتیازی وصف ہے، سماج پر دارالعلوم دیوبند ہندوستانی عوام کا محبوب ادارہ ہے، مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی دارالعلوم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اس سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں ، اس کی زیارت کو باعث شرف سمجھتے ہیں ، بہت سے غیر مسلموں نے جب اس عقیدت کا اظہار کیا، تو حقائق پر یقین آیا، اور انہیں لکھنے کی جسارت پیدا ہوئی، دارالعلوم دیوبند کی خدمات تقریباً ڈیڑھ صدی کو محیط ہے، اس نے ہندوستانی سماج کی آبیاری کی اس کی جڑوں سے رسم و رواج کے کیڑوں کو ختم کیا، سماجی بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، معاشرہ میں جب بھی کوئی مرض پنپتا ہے، دارالعلوم کے فضلاء اس کے ازالہ کی عمدہ تدبیرکرتے ہیں ، دارالعلوم دیوبند نے ملک کو مثالی سماج عطاکیا، ملک سے محبت کرنے اور ملک کی آبرو پر جان قربان کرنے والے افراد تیار کئے، اس ادارے سے وابستہ ہر ایک شخص کا قلب حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہے، تاریخ اس حقیقت کو دلائل عطا کرتی ہے، جنگ آزادی میں جس طرح بانء دارالعلوم حضرت مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے احباب نے عظیم خدمات انجام دیں ، جان، مال، عزت و آبرو سب کچھ داؤ پر لگا دیا مگر ہندوستان کے خوبصورت جسم پر غلامی کا بدنما داغ برداشت نہیں کیا، تکلیفیں اٹھائیں ، قید و بند کی مشقتیں جھیلیں ، حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کی تحریک ریشمی رومال اور اس کے کارنامے تاریخ کے سینہ پر آب زر سے رقم ہیں ، آپ نے مالٹا کی جیل میں رہنا منظور کیا، انگریز کا تشدد برداشت کیا، جس کی کہانی آپ کمر پر سلاخوں کے نشانات سے عیاں ہوتی ہے، آپ ہتھیار بند ہو کر انگریزوں کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے، ملک سے فرنگیوں کا صفایا کرنا چاہتے تھے، ان کی یہ خواہش تو پائیہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی، لیکن انہوں نے آزادی کی خواہش ہر ہندوستانی کے قلب میں بیدار کردی، ان کے قلوب میں آزادی کی مشعل روشن کردی، انہی مشعلوں کی روشنی میں جنگ آزادی کا مثالی سفر طے کیا گیا، مستقبل میں جس کے اچھے نتائج ظاہر ہوئے، یہ دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم کی کوششوں کا ثمرہ تھا،تاریخ آزادی میں مولانا محمود الحسن دیوبندی کا مقام نمایاں ہے، جس کو ڈاکٹر ایلا مشرانے اپنے مقالے تحریک ریشمی رومال میں ثابت کیا ہے،اسی طرح فرزندان دارالعلوم نے ملک کی خدمت میں نمایاں حصہ لیا ہے، ہر شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔

دارالعلوم نے جنگ آزادی میں بھی حصہ لیا اور مسلمانوں کے عقائد کی حفاظت کا اہم کام بھی انجام دیا، آزادی کے بعد ہندوستان ایک جمہوری ملک قرار پایا، اب دارالعلوم دیوبند پر بڑی ذمہ داری تھی کہ وہ مسلمانوں کا اعتماد بحال رکھے، اور ان کی دینی و دعوتی میدان میں رہنمائی کرتا رہے، انہیں اسلامی زندگی سے روشناش کراتا رہے، چنانچہ اس کسوٹی پر بھی دارالعلوم کھرا اترا، اور آزادی کے بعد سے مسلسل مسلمانوں کی رہنمائی میں مصروف ہے، اسی ضمن میں دارالعلوم کا ایک متحرک شعبہ دارالافتاء بھی ہے، جس شعبہ سے متعلق افراد کاکام مسلمانوں کی شرعی مسائل میں رہنمائی کرنا ہے، جب کوئی شخص اپنا استفتاء لیکر حاضر ہوتا ہے، تو مفتیان کرام شرعی نقطۂ نظر کو واضح کر کے اس کی رہنمائی کردیتے ہیں اور اس سوال کا جواب لکھ دیتے ہیں ، یہی جواب فقہی اصطلاح میں فتوی کہلاتا ہے، جس کا تعلق شریعت سے ہے، اور سوال سے ہے، جب لکھا ہوا سوال پیش کیا جاتا ہے، تب ہی لکھا ہواجواب دیا جاتا، دارالعلوم کا مہتمم بھی اگر اپنی تقریر میں کوئی حکم صادر کررہا ہے، تو وہ شریعت کی اصطلاح میں فتوی نہیں ہے، چونکہ فتوی دینا ایک خاص شعبہ سے متعلق کام ہے۔

ہندوستان کے ایک خاص طبقہ کے لئے دارالعلوم دیوبند اور مسلمانوں کا تعلق ہمیشہ تکلیف دہ رہا ہے، یہ طبقہ اپنے کوجدید فکر کا حامی گردانتا ہے، لہذا بارہا یہ کوششیں کی گئیں کہ مسلمانوں اور دارالعلوم کے درمیان دوری پیدا کردی جائے، بلکہ مسلمانوں اور علماء کے درمیان دوری پیداکرنا ان کا مقصد نظر آتا ہے، اس کے علاوہ سیاسی مفاد کی خاطر بھی فتووں کا استعمال کیا گیا ہے، میڈیا نے ان فتووں کا غلط طریقے سے استعمال کیا، جو شخص واحد کی نوعیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے دئے گئے تھے، ان فتووں کی بنیاد پر اسلامی احکامات کے خلاف قلعہ تعمیر کردیا، جس کی دارالعلوم دیوبند نے کئی مرتبہ مذمت کی، اور کاروائی کرنے دھمکی دی، لیکن فتووں کے نام پر ملت کو دارالعلوم سے برگشتہ کرنے کا میڈیا کا کھیل اب بھی جاری ہے۔

کیرانہ ضمنی انتخاب سے قبل دیوبند کے سابق چیئرمین حسیب صدیقی نے کیرانہ نشست پر بی جے پی کو ناکام کرنے اور مہاگٹھ بندھن کو کامیاب کرنے کی اپیل کی جسے میڈیا نے دارالعلوم دیوبند کا فتوی بتا کر پورے دن نشر کیا، بحثیں کیں ، ہنگامہ کھڑا کیا، جس کا انتخاب پر جو اثر ہونا تھا وہ ہوچکا ہے، اس کے علاوہ عقیدتوں کے تاج محل پر زد آئی جو لوگ دارالعلوم سے محبت کرتے ہیں ، عقیدت رکھتے ہیں ، اسے اسلامی اقدار کا حامل گردانتے ہیں ، غیر سیاسی سمجھتے ہیں ، ان کے قلوب پر ضرور ٹھیس لگی، اس موقع پردارالعلوم نے اپنی پرانی روش کو باقی رکھا اور ایک مذمتی بیان دینے پر اکتفاکیا، اور ٹی وی چینلز کو دھمکی دے کر اپنی ذمہ داری سے بری ہوگئے، یہ فکر کا وقت ہے، اگر اسی طرح اس عظیم ادارے کے وقار اور عزت و آبرو سے کھیلا جاتا رہا اور اسے بے وقعت سمجھتے رہے، تو ایک دن دارالعلوم کا وقار ملکی سطح پر کم ہو جائے گا، غور کیجئے اس فرضی فتوی کے نشر ہونے کا جو اثر انتخاب اور عوام پر ہوا کیا اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کیا وہ لمحات واپس لوٹ کر آسکتے ہیں ، جن میں لوگوں کی ذہنی تبدیلی ہو رہی تھی، جس طرح سے اسلام کا مذاق اڑایا گیا کیا آپ اس کا کفارہ ادا کرسکتے ہیں ؟ آپ کی مذمت کتنے لوگوں تک پہنچی؟ کتنے چینل آپ کی دھمکیوں سے ڈر گئے اور انہوں نے اپنا عمل چھوڑ دیا؟ یہ سوال دارالعلوم کی انتظامیہ سے جواب چاہتے ہیں ، اگر آپ کے پاس جواب ہیں تو آپ قابل مبارکباد ہیں ، اور جواب نہیں تو آپ کو فکر کرنے کی ضرورت ہے، لفظوں سے کام مت چلائیے، عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیے، ان چینلوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالئے جنہوں نے آپ کی آبرو سے کھیلنے کوشش کی ہے، لکیر پٹنا عقلمندی کی پہچان نہیں ہے، آج آپ نے مذمتی بیان پر اکتفا تو کل پھر کوئی اخبار کوئی چینل اپنے مفاد کہ خاطر جسارت کریگا، اور آپ کے وقار کی دھجیاں اڑائیگا، لہذا کوشش کیجئے دارالعلوم کے وقار کی حفاظت کیجئے، علم و عمل کے تاج پر جو حرف آئے اس حرف کومٹادیجئے۔

دارالعلوم دیوبند جو اسلامی کی سچی و صحیح ترجمانی کررہا ہے، اس سے لوگوں کو آشنا کرائیے، شوشل میڈیاکے ذریعہ اپنے پیغامات ہر زبان میں ملک کے ہر شہری تک پہنچائیے، یہ وقت کاتقاضا ہے، ورنہ پھر وہی ہوگا جو ہورہا ہے، ہر شخص دارالعلوم دیوبند اور علماء کے خلاف سوشل میڈیا پر زبان دراز کئے ہوئے ہے، کچھ چیزیں موجود ہیں اور میڈیا کی اختراعات ہیں ، ان کا سدباب کیجئے، ورنہ لوگ اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔