روزہ: صبر و برداشت کی عملی مشق 

وصیل خان

اس وقت ہم لوگ ایک ایسے مقدس اور بابرکت مہینے کے دامن میں سانسیں لے رہے ہیں جس میں ایک ایک نیکی کا صلہ ستر ستر نیکیوں کے برابرکردیاگیا ہے اور اسی ماہ میں ایک ایسی رات آنے والی ہے جس کی عظمت کا کیا پوچھنا، اس کا مرتبہ تو ہزار راتوں پربھی بھاری ہے۔ اللہ نے ہمیں انسان بناکرکائنات کی تمام مخلوقات میں سب سے ممتاز و افضل کردیاہے اسی لئے ہمیں اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے، ہم نے کبھی سوچاکہ ہم سب سے اشرف اور اعلیٰ کیوں ہیں اور دیگر تمام مخلوقات میں ہمیں یہ امتیاز کیسے حاصل ہوا اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کو اللہ نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے وہ صرف حال میں نہیں جیتا، ماضی اور مستقبل پر بھی اس کی نگاہیں پہنچتی ہیں وہ منصوبے بناتا ہے اور اسی منصوبے کے تحت مستقبل کا لائحہ ٔ عمل ترتیب دیتا ہے۔ یہ صفات حیوانات کو حاصل نہیں وہ صرف اور صرف اپنے حال میں جیتے ہیں اور وہی ان کی محدود دنیا ہے وہ ماضی اور مستقبل سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔

روزہ کو عربی میں صوم کہا گیا ہے جس کے معنی رک جانے کے ہیں گویا کچھ محدودمدت تک خود کو کھانے پینے یہاں تک کہ جائزو مباح عمل سے روک لینا یعنی صبح صادق سے غروب آفتاب تک مختلف امور سے بچائے رکھنے کا نام روزہ ہےاگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یہ ایک علامتی روزہ ہوگا اصلا ً اس روزہ یعنی رک جانے کے معنی انتہائی وسیع ہیں، گویا ہمارا رک جانا محدود نہیں لامحدود ہے۔

سوچئےجب ہم بھوکے پیاسے ہوں گے، بھوک پیاس کی شدت بڑھے گی، نفس بار بار اشارے کرے گا کہ یہ زحمت کیوں برداشت کررہے ہو، ہاتھ بڑھاؤ اور اپنی بھوک پیاس مٹالو، تمہیں کمی کیا ہے سارے وسائل موجود ہیں جیب پیسو ں سے بھری ہے جو چاہے حاصل کرلو ایسے میں جب خود کو روک لیں گےتمام لذتوں پر دسترس اور قدرت کے باوجود ہاتھ کھینچ لیں گے تب تمہیں مفلس و نادار لوگوں کی پریشانیوں اور ان کی قوت برداشت کا اندازہ ہوگا کہ بھوک پیاس کی شدت انہیں کتنا تڑپاتی ہوگی۔ وہ اپنی مصیبتوں میں کس طرح برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوں گے۔

روزہ ہمیں یہی احساس دلانے کیلئے آتا ہے کہ ہم معاشرے میں محلے میں اور گھر کے افراد کے ساتھ ڈسپلن والی شائستہ زندگی گزارنا سیکھ سکیں، ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ ہو، ہم کسی کیلئے وبال جان نہ بنیں بلکہ ہماری ذات میں بارش، دھوپ اور ہوا جیسی صفات پیدا ہو جائے جو بلا امتیاز ہر ایک کیلئے مفید اور راحت رساں بن جاتی ہے۔ روزہ ہمیں زندگی کےوہ راز بتاتا ہے جس پرچل کر ہم ایک پرامن زندگی گزارنے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں جب ہماری سوچ و فکر کے زاویئے ہی بدلتے جارہے ہیں خود غرضی، مطلب پرستی اور اپنے فائدے کیلئے ہر ناجائز عمل کو جائز کرلینے کی تھیوری نے ہمیں انسانی رتبے سے ہٹاکر حیوانوں کی صف میں کھڑا کردیا ہے، ہمارے سوچنے کی صلاحیتیں یا تو ماؤف ہوگئی ہیں یا پھر ہم نے اسے اپنی مطلب براری تک محدو د کرلیا ہےایسے میں روزہ اور اس کے ڈسپلن کی اہمیت و ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

روزہ ہمیں یہ بھی احساس دلاتا ہے کہ ہم مذہب کے محافظ نہیں بلکہ وہ خود ہمارا محافط ہےوہ ہمیں امن و شائستگی کی وہ راہ بتاتا ہے جس پر چل کر ہم زندگی کوخوشگوار بناسکیں۔ مذہب ہمارا محتاج نہیں ہم اس کے محتاج ہیں۔ مذہب کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہمارے اندر سنجیدگی پیدا ہو اور اپنے اندر کی کمزوریوں کا ہمیں احساس ہو جائےاور اسے دور کرکے ایک شانداراور خوشگوار معاشرے کے ہم معمار بن سکیں۔ قرآن کی ایک آیت میں کہا گیا ہے کہ ’  اللہ تمہاری مشکلیں آسان کرنا چاہتا ہے‘۔

انسان فطرتا ً بے حد کمزورہے یہی سبب ہے کہ اللہ نے اس کے اندر خود احتسابی اور اصلاح کی صفت رکھ دی ہے اور وہ اس صفت کے زور پر اپنی اصلاح کرسکتا ہے، اپنی غلطیوں کا ادراک کرکے انہیں اچھائیوں میں تبدیل کرسکتا ہے اس عمل کی تکمیل کیلئے روز ہ ایک نہایت طاقت ور ہتھیار ہے جو ہماری زندگی کے دھارے کو بدل سکتا ہے اور ہمیں ایک ایسے انقلاب سے آشنا کرسکتا ہے کہ اس کے زور پر ہم اپنے گردو پیش کے ماحول کو انتہائی روحانی و نورانی بنادیں جہاں صرف امن و سکون کی حکمرانی ہو اور ہر طرف صداقت و شجاعت کے دریا بہہ رہے ہوں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا حقیقتا ً ایسا ہورہا ہے اور ہمارے اردگرد ایسا ہی ماحول قائم ہے۔ جواب یقینا ً نفی میں ہوگا، تو ایسا کیوں ہے اس وقت ہمارے سامنے یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہم نے روزے کے معانی و مفاہیم ہی بدل لئے ہیں۔ ہماری توجہ اس بات پر نہیں کہ روزہ کس طرح رکھیں بلکہ ساری توجہ اس پر ہے کہ اس دوران کیا کیا چیزیں کھا سکتے ہیں۔ ساری توجہ افطار پر مرکوز ہوتی ہے، شام ہوتے ہیں افطار بازار کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں گھروں میں انواع و اقسام کی خوش ذائقہ اور رسیلی اشیا خوانوں میں سج جاتی ہیں۔ سیاسی اور نیم سیاسی افطار پارٹیوں کا ایک طویل سلسلہ چل پڑتا ہے اور اس کی آڑ میں بڑی بڑی سودے بازیوں کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ دشمنان ملک و قوم کے سروں پر مخملیں ٹوپیاں اڑھا دی جاتی ہیں اور انہیں معمار قوم اور نہ جانے کیا کیا القابات سے نوازدیا جاتا ہے۔

ایک طرح سے یہ افطار پارٹیاں اب ہمارے فیشن کا ایک حصہ بن چکی ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ روزہ صبر اور جذبہ خوداحتسابی کو فروغ دیتا ہے لیکن ہم نے تو اس کے معانی ہی بدل ڈالے ہیں۔ یعنی ہم روزہ تو رکھتے ہیں لیکن محض علامتی طور پر روزے کی روح کیا ہے اس کے مقاصد کیا ہیں ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں۔ پڑوسی بھوکا رہے تو رہے، اس کی غربت و ناداری کا سبب اس کی کاہلی اور کام چوری میں تلاش کرکے ہم مطمئن ہو جاتے ہیں۔ زکوٰۃ و عطیات کی تقسیم کا خوب خو ب مظاہرہ کریں گے اور دوردراز خیرات بانٹیں گے لیکن اپنے ہی مفلس عزیز و اقارب یہاں تک کہ حقیقی بھائی بہنوں کو بھول جائیں گے۔ روزہ کا مطلب ہے جسم کے ساتھ ہی روح کو بھی بالیدہ کرنا۔

ایک طرح سے یہ مہینہ اس مشن کا نام ہے جس کے ذریعے سال بھر اپنے جسم و روح کو قابو میں کیا جاسکے لیکن ہم نے اس ماہ کو بس کھانے پینے کا موسم بنالیا ہے۔ اس پاکیزہ مہینے کے دوران چھوٹی چھوٹی باتو ں پر غصہ کرنے اور گالم گلوچ سے بچنے کے بارے میں تو ہم سوچتے بھی نہیں۔ دوران افطار بیگم سے کوئی کمی بیشی ہو جائے تو اس بے چاری کی خیر نہیں۔

واقعتاً اگر ہم اور آپ عدم تشدد اور رواداری کے قائل ہیں تو عہد کریں کہ اپنی فیملی کے اراکین پر نہ تو غصہ کریں گے نہ ہی ان پر بے جا رعب جھاڑیں گے۔ اس طرح سے آپ اپنے روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے مواقع کا مثبت استعمال کرکے اپنے آس پاس کی دنیا کواور اپنے گھر کی فضا کو خوش رنگ بناسکتے ہیں اور پھر یہی آپ کے بچے بھی سیکھیں گے۔ ہمیں روزے کے اس کھلے پیغام کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔

تبصرے بند ہیں۔