داعش کے بغیر شام و عراق اور اسرائل!

عالم نقوی

سر دست اسرائل کا سب سے بڑا سر درد یہ ہے کہ داعش کے بغیر  اب وہ کیسے اپنے  مستقبل کے ناپاک  منصوبوں میں رنگ بھر  سکے گا ! معروف صہیونی اخبار ’حارث ‘(Haaretz )نے  پچھلے ہفتے یہ خبر دی تھی کہ نیتن یاہو نے روس کے صدر کو ٹیلی فون کر کے یہ کہا ہے کہ اسرائل شام کی سرحد پر واقع اِرتفاع ِجولان (گولان ہائٹس ) کو پُر اَمن خطہ قرار دینے کے لیے تیار ہے۔ ‘اِسرائل کی اس  نام نہاد پُر اَمن پیشکش کا سبب یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ داعش کے مکمل قلع قمع کے بعد اِس خطے پر اِسرائل مخالف قوتوں کا قبضہ ہو جائے جسے عُرف ِعام میں مُزاحمتی یا اِستقامتی بلاک کہا جاتا ہے۔ اسرائل چاہتا ہے  کہ اس علاقے پر روس امریکہ اور اُردُن(جارڈن) وغیرہ پر مشتمل اَقوام ِمتحدہ کی نام نہاد اَمن فوجوں کی موجودگی برقرار رہے۔

بشار ،حزب اللہ،حماس ،عراق  اور ایران  نہیں  جسے بظاہر چین اور روس کی تائید بھی حاصل ہے۔ تاکہ وہاں اُس کا فوجی  عمل دخل  پہلے ہی کی طرح  برقرار  رہ سکےجس کا  امکان داعش کے خاتمے والی موجودہ  صورت حال میں برائے نام ہی رہ گیا ہے ۔ گزشتہ چار پانچ برسوں سے یہ حساس سرحدی علاقہ داعش وغیرہ دہشتگردوں کی مخصوص  سپلائی لائن رہا ہے اور اسرائل سے انہیں ہر طرح کی مدد ملتی رہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائل کی پریشانی اس وقت شروع ہوئی جب عراق و سیریا کے درمیان زمینی رابطے بحال ہو گئے جس کے نتیجے میں ایران اور لبنان  سمیت  ان تمام ملکوں ک شام کی بندرگاہ ’لا ذقیہ ‘ کے  توسط سے بحیرہ روم تک رسائی حاصل ہو گئی ہے جو  تہران ، بغداد ،دمشق اور بیروت چاروں کے لیے یکساں  تجارتی ،اقتصادی  اور تزویری اہمیت کا حامل بحری رابطہ ہے جو اسرائل  اور اس کے حامیوں اور معاونوں کو کو کسی قیمت پر منظور نہیں ۔ اب اسے  اُمّتِ مرحومہ کی بدنصیبی ہی کہیے کہ معاونینِ اسرائل کی اِس فہرست میں سعودی عرب سمیت وہ چاروں عرب ملک بھی شامل ہیں جو قطر کے معاشی بائکاٹ میں ملوث ہیں ۔

  مشرق ِوُسطیٰ کی سیاست کے ماہرین  اور بین ا لا قوامی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت سمیت کئی ملکوں کے طیارے سعودی فضائی حدود سے ہوتے ہوئے تل ابیب کے بن گوریان ائیر پورٹ پر اترتے ہیں اور اسرائل سے اڑ کر سعودی فضائی حدود کا استعمال کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بے روک ٹوک  پرواز کرتے ہیں ۔ دوسری جانب اسرائل اپنے عرب دوست ملکوں کے تعاون سے ایک ایسی ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی رکھتا ہے جو اسرائلی شہر حیفا سے لے کر اردن (جارڈن ) کے شہر حسین پل تک ہو اسطرح اردن اور سعودی عرب سمیت متحدہ عرب امارات بھی اسرائل سے  براہِ  ریلوے ، منسلک ہو جائیں گے۔   شام میں داعش کی تشکیل اور فروغ کا مقصد بھی یہی تھا کہ اسرائل شام کے راستے عراق ،ترکی اور یورپ تک زمینی  رسائی چاہتا تھا۔ جاننے والوں کا کہنا ہے کہ اسرائل اس منصوبےپر تین سال سے اردن کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے اور اب اس میں سعودی عرب کی شمولیت بھی کم و بیش یقینی ہو چکی ہے ۔ اسرائل اپنے العفولہ شہر سے فلسطینی اتھارٹی کے حدود میں واقع جنین شہر تک بھی ایک شاہراہ کی تعمیر چاہتا ہے لیکن شام و عراق میں داعش کی شکست اور اسرائل مخالف طاقتوں کی فتح کے بعد اس منصوبے کی تکمیل پوری طرح کھٹائی میں پڑ گئی ہے۔  سحر ٹی وی کے  ایک تجزیہ نگار کے لفظوں میں ’تہران سے غزہ تک زمینی پُل‘ سے تعبیر کیا جانے والا ’عراقی۔ شامی۔ سرحدی علاقہ ‘

داعش کی شکست کی وجہ سے صہیونی منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کیونکہ اسرائل کو یقین ہے کہ داعش کے بعد شام میں امریکی تسلط کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اور  داعش کے کنٹرول والا پورا شامی علاقہ بشار ا لاسد ،ایران اور حزب ا للہ  کے براہ راست  کنٹرول میں آجانے سے جسے روس کی حمایت  حاصل ہے ،  اسرائل کے  ناپاک منصوبوں کی تکمیل تقریباً ناممکن ہو جائے گی۔ قطر کے ساتھ عرب ممالک کے حالیہ تنازعے کا ایک اور  بڑا سبب  یہ بھی ہے کہ قطر بھی اپنی قدرتی گیس ، پائپ لائن کے ذریعے  یورپ تک  پہنچانے کے لیےٹرانزٹ کے طور پر شامی سرزمین کے استعمال کا حق چاہتا ہے جس کے لیے قطر اور بشار ا لا سد کے درمیان معاہدہ ہو جانے پر قطر نے بشار دشمن شامی فورسز کی  مدد اور حمایت سے  ہاتھ اٹھا لیا تھا۔

 اندور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سجاد جعفری نے مذکورہ بالا تجزیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جو لوگ شامی عوام کے قتل عام  میں ایران کو برابر کا شریک سمجھتے ہیں انہیں اسرائلی ،امریکی، داعشی اور  سعودی پالیسیوں  پر بھی نگاہ رکھنی چاہیے کہ اگر ایران و  حزب ا للہ ، شام   وعراق میں خوارج  کے خلاف مسلح   مداخلت نہ کرتے تو وہاں  موجود پیغمبروں کے مقابر ،  علی ،اَولاد ِعلی  اور حسنین کی خواہر گرامی زینب بنت علی و فاطمہ اوردیگر اصحاب و انصار اہلِ بیت نبوی ﷺ کے مزارات کا حشر بھی وہی ہوتا جو انیسویں صدی کے آغاز میں ’ جنت ا لبقیع ‘ کا ہوا تھا  ! لیکن اب عراق و شام میں داعشی خوارج کی شکست کے بعد نجف و کربلا و کوفہ ا ور  دمشق و بغداد کے عتبات ِعالیات  و مزارات پوری طرح محفوظ ہو گئے ہیں ! ‘‘

جہاں تک انسانی خون کی حرمت کا سوال ہے تو شام و عراق کی طرح یمن و نائجیریا ،بحرین اور کویت ،اور افغانستان  و  پاکستان میں خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں  بے گناہ انسان ہی  مارے جا رہے ہیں ! ہم یمن و سیریا  اور افغانستان وپاکستان  میں بہنے والے خون میں کوئی تفریق نہیں کرتے!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔