نماز اور قربانی میں مناسبت

تحریر: علامہ حمید الدین فراہیؒ۔ ترتیب: عبدالعزیز

 نماز اور قربانی میں بہت سے پہلو ہیں جن کی طرف قرآن نے اشارے کئے ہیں۔ اس جگہ ہم ان دونوں کے صرف ان پہلوؤں کا تذکرہ کریں گے جن سے ان کی باہمی مناسبت واضح ہو:

 (1  نماز اور قربانی میں اسی طرح کی مناسبت ہے، جس طرح ایمان اور اسلام میں ہے۔

  یہ اجمال ہے، اس کی تفصیل سے پہلے ایک مختصر تمہید سن لینی چاہئے۔

  دین کی بنیاد علم اور عمل کی صحت پر ہے۔ علم یہ ہے کہ ہم اپنے رب کو پہچانیں ، اس کے ساتھ اپنے تعلق کو جانیں اور پھر اس معرفت سے کبھی غافل نہ ہوں۔ اس علم سے لازماً محبت اور شکر کی ایک قلبی کیفیت و حالت پیدا ہوتی ہے۔ اسی قلبی کیفیت سے اعمال کا فیضان ہوتا ہے۔ اس طرح گویا علم و عمل میں وہی تعلق ہے جو اثر اور موثر اور ظاہر اور باطن میں ہوتا ہے۔ یعنی علم ایمان سے تعلق رکھتا ہے اور عمل اسلام سے۔

 پھر ایک دوسری حقیقت پر غور کیجئے۔ عمل جس طرح علم کا مقابل ہے، اسی طرح قول کا بھی مقابل ہے یعنی قول، علم و عمل کے بیچ کی کڑی ہے۔ قول ارادہ کا اولین ظہور اور عمل کا عنوان و دیباچہ ہے۔ اس تمہید کی روشنی میں اب نماز اور قربانی کے باہمی تعلق پر غور کریں :

نماز ظاہر ہے کہ قول و اقرار ہے۔ یہ اٹھنا، بیٹھنا، جھکنا، سجدہ کرنا، ہاتھ اٹھانا، انگلی سے اشارہ کرنا کیا ہے؟ یہ سب اداؤں کی زبان سے ہمارا قول و قرار ہے۔ یہ ایمان کے بعد راہ اطاعت میں ہمارا پہلا قدم ہے۔ یہ اعمال کے دروازہ کی کلید ہے۔ اسی سبب سے یہ تمام شریعت کے دروازہ کا عنوان قرار دی گئی ہے۔ بہ کثرت آیات میں اس حقیقت کی طرف اشارات کئے گئے گئے ہیں ، مثلاً:

 ’’جو غیب میں ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ‘‘ (سورہ بقرہ، آیت:3)۔

 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصہ میں اس حقیقت کی پوری تشریح ہے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو اس کی صفت توحید کے ساتھ پہچان لینے کے بعد فرمایا:

 ’’میں نے ہر طرف سے کٹ کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں ‘‘ (سورہ انعام، آیت:80)۔

 اس آیت میں جس توجہ الی اللہ کا ذکر ہے نماز اسی توجہ الی اللہ کی عملی تصویر ہے۔ اسی وجہ سے ہماری نمازوں کا عنوان یہی مبارک کلمہ قرار پایا۔ یہی حقیقت حضرت موسیٰؑ کے قصہ میں بھی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو توحید کی معرفت بخشنے کے بعد فرمایا:

 ’’پس جب وہ اس کے پاس آیا، ندا آئی؛ اے موسیٰ! میں تمہارا رب ہوں ، پس اپنے جوتے اتار دو۔ تم وادی مقدس طویٰ میں ہو۔ اور میں نے تم کو برگزیدہ کیا، پس جو کچھ وحی کی جائے اس پر کان دھرو۔ میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس میری ہی عبادت کرو اور میرے ذکر کیلئے نماز قائم کرو‘‘ (سورہ طٰہٰ، آیات:11,12,13,14)۔

 ایک دوسرے مقام پر ابطالِ شرک کے بعد فرمایا:

 ’’اپنا رخ یکسو ہوکر دین الٰہی کی طرف سیدھا کرو۔ یہی للہ کی فطرت ہے، جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اس میں فطرت الٰہی کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہے۔ یہی فطرت کا سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اسی کی طرف متوجہ ہوکر اور اسی سے ڈرو اور نماز قائم کرو، مشرکین میں سے نہ بنو‘‘ (سورہ روم، آیت:30-31)۔

 اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ تمام اعمال میں سے نماز، ایمان سے سب سے زیادہ قریب بلکہ ایمان کا اولین فیضان ہے۔ یہ بیک وقت توحید، انابت، شکر، توکل، اور تبتّل اللہ ساری چیزوں کا مجموعہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات کی فطرت ہے۔

اب قربانی کی حقیقت پر غور کیجئے؛ قربانی در حقیقت اسلام کی تصویر ہے۔ اسلام کا مفہوم اطاعت، سرفگندگی اور نفس کو بالکلیہ مولیٰ کے حوالہ کر دینا ہے۔ نماز کی طرح یہ بھی بندوں کی فطرت ہے کیونکہ تمام مخلوق امر الٰہی کی اطاعت سے وجود میں آئی ہے، خدا نے کلمۂ ’’کُن‘‘ کے ذریعہ سے حکم دیا اور تمام مخلوق ابتدائے خلقت میں اس کلمہ کی اطاعت سے وجود میں آئی۔ اب اگر وہ خدا کی نافرمانی کرتی ہے تو اپنی فطرت کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس اعتبار سے اسلام تمام کائنات کو محیط ہے۔

’’آسمان اور زمین میں جو ہیں ، سب طوعاً و کرہاً اسی کے سامنے سرفگندہ ہیں اور سب اسی کے پاس لوٹائے جائیں گے‘‘ (سورہ آل عمران، آیت:83)۔

 یعنی بدخلقت میں جس طرح تم نے اس کے حکم کی تعمیل کی، اسی طرح آخرت میں اس کے حکم پر دوڑوگے۔ چنانچہ فرمایا ہے:

’’جب وہ تم کو زمین سے نکلنے کیلئے ایک بار پکارے گا، تم دفعتہ نکل کھڑے ہوگے‘‘ (سورہ روم، آیت:25)۔

 دوسری جگہ فرمایا: ’’اور تم اس کی حمد کے ساتھ اس کی پکار پر دوڑوگے اور گمان کروگے کہ نہیں تم ٹھہرے مگر بہت کم‘‘ (سورہ بنی اسرائیل، آیت:52)۔

اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اور تسبیح و سجدہ اور نماز دونوں عین فطرت اور باہم دگر نہایت قریبی رشتہ دار ہیں۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ہمارا امام، ان کی مسجد کو ہمارا قبلہ اور ان کے طریقہ کو ہمارے لئے دستور العمل بنایا تو ایک واقعہ بیان کرکے ہمارے لئے قربانی کی حقیقت بھی آشکارا کردی جس سے ضمناً نماز کی حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔ فرمایا:

 ’’میں اپنے پروردگار کی طرف جارہا ہوں ، وہ میری رہبری فرمائے گا (یعنی میں اپنے پروردگار کی ہجرت کرتا ہوں ، وہ مجھ پر اپنی راہ کھولے گا)‘‘۔

 ’’اے پروردگار! مجھے صالحین میں سے بخش (یعنی اولاد صالح، تاکہ میں ان کو لے کر تیری راہ پر چلوں ، اور لوگوں کیلئے حق و ہدایت کی راہ کھلے)‘‘۔

 ’’پس ہم نے اس کو ایک حلیم لڑکے کی بشارت دی (یعنی حضرت اسمٰعیل ؑ کی) اسمٰعیلؑ کے معنی ہیں ’’اللہ نے سنا‘‘ چونکہ ان کی ولادت ابراہیمؑ کی دعا کے مطابق ہوئی تھی، اس وجہ سے ان کا نام اسمٰعیل رکھا گیا‘‘۔

’’جب وہ اس عمر کو پہنچے کہ ان کے ساتھ دوڑ پھر سکیں۔ انھوں نے کہا ’بیٹے! میں نے خواب میں یوں دیکھا کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں (یعنی اللہ کیلئے)، اب تم بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘۔

 (یہ سوال اس لئے تھا کہ اطاعت میں فرمانبردار بیٹے کو بھی برابر کا شریک کرلیا جائے، کیونکہ حضرت ابراہیمؑ ہمیشہ کیلئے تسلیم و اطاعت الٰہی کی ایک راہ کھول رہے تھے اور چونکہ اطاعت شعار فرزند دعاہائے سحر کی قبولیت کے نتیجہ کے طور پر عطا ہوا تھا، اس وجہ سے اس کا عاقل اور حلیم ہونا معلوم تھا۔ یہ اندیشہ نہ تھا کہ اس کو اس امتحان بندگی میں شرکت سے انکار ہوگا)۔

’’انھوں نے جواب دیا، والد ماجد! جو حکم ملا ہے اس کی تعمیل فرمائیے؛ انشاء اللہ آپ مجھ کو ثابت قدموں میں پائیں گے‘‘۔

 (حضرت اسمٰعیل ؑسمجھ گئے کہ ان کو حکم الٰہی کی تعمیل میں ذبح کیا جارہا ہے، اس وجہ سے انھوں نے وہ جواب دیا جو متوکلین کے شایانِ شان تھا)۔

 ’’پس جب دونوں امر الٰہی کے سامنے جھک گئے اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل پچھاڑ دیا‘‘۔

 (یعنی اس طرح دونوں نے اپنے کمالِ اطاعت و اسلام کو آشکارا کر دیا کیونکہ باپ نے اس چیز کو قربان کرنے کا عزم کرلیا جو اس کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھی، اور بیٹے کی توکل کائنات صرف اس کی جان ہی تھی)۔

 ’’اور ہم نے اس کا پکارا، اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا، بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔ بلا شبہ کھلی ہوئی جانچ یہی ہے‘‘۔

(اس اطاعت کاملہ نے ان کو درجۂ احسان کی سرفرازی بخشی اور یہی کمالِ اسلام ہے۔ اس امتحان کے بعد ان دونوں کو خدا نے قوموں کا امام اور ہادیوں کا رہبر بنایا)۔

  ’’اور ہم نے اس کو بڑی قربانی کے عوض چھڑا لیا‘‘ (سورہ صافات، آیت:99 تا 107)۔

 (یعنی اس قربانی کی یادگار میں قربانی کی ایک عالم گیر اور عظیم الشان سنت قائم کر دی، جو قربانی کرنے والوں کی مغفرت کا وسیلہ ہے)۔

 اس سرگزشت میں خدا نے ہمارے سامنے یہ حقیقت کھولی ہے کہ اسلام کی روح خدا کی اطاعت اور اپنی عزیز سے عزیز متاع حتیٰ کہ جان کو بھی خدا کے حوالہ کردینا ہے۔ اور یہ بات بغیر کامل ایمان و اخلاص کے پیدا نہیں ہوسکتی۔ پس گویا ان دونوں کا رتبۂ کمال مقام احسان ہے۔ احسان کی حقیقت یہ ہے کہ ’’اپنے رب کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو)۔ اس سے معلوم ہوا کہ قربانی اور نماز میں وہی تعلق ہے جو تعلق ایمان و اسلام میں یا قول اور عمل میں ہے اور احسان ان دونوں کا نقطۂ اتصال ہے۔

 (2  دوسرا پہلو یہ ہے کہ نماز اور قربانی میں وہ نسبت ہے جو نسبت زندگی اور موت میں ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نماز کی حقیقت یادِ الٰہی ہے۔

 ’’اور میری یاد کیلئے نماز قائم کرو‘‘ (سورہ اعلیٰ، آیت:15)۔

قرآن مجید میں اس مضمون کی آیتیں بہت ہیں اور ذکر سے مقصود دوام ذکر الٰہی ہے؛ چنانچہ فرمایا:

  ’’جو اللہ کو یاد کرتے ہیں ، کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے‘‘ (سورہ آل عمران، آیت:191)۔

  یہی راز ہے کہ ہمارے رات دن کے تمام اوقات نمازوں سے گھیر دیئے گئے ہیں اور کسی حالت میں بھی اس سے معافی نہیں دی گئی ہے۔ نماز سانس کی طرح زندگی کیلئے ناگزیر ہے۔ وہ حقیقی زندگی جو نور، سکینت اور ایمان کے الفاظ سے تعبیر کی گئی ہے، صرف اللہ کی یاد ہی سے باقی رہ سکتی ہے۔ خدا سے قرب حاصل کرنے کی راہ یہی ہے۔ اللہ سے قربت کا مفہوم صرف یہ ہے کہ اس کو یاد رکھا جائے اور اس سے دوری کا مطلب یہ ہے کہ اس کی یاد سے غفلت ہوجائے (اعاذنا اللہ منہا)، جب بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو اس سے قریب ہوجاتا ہے، جیسا کہ فرمایا ہے:

(وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ) ’’سجدہ کرو اور قریب ہوجاؤ‘‘ (سورہ علق، آیت:19)۔

 اس وقت اللہ کی نظر رحمت اس کو نوازتی ہے، اس کا سینہ انوار و تجلیات الٰہی سے جگمگا اٹھتا ہے اور اس کی روح ذکر و فکر کی گہرائیوں میں جس قدر اترتی ہے، زندگی اور قوت کے لازوال خزانوں سے اسی قدر قریب تر ہوتی جاتی ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں اسی حقیقت کی خبر دی گئی ہے:

’’بندہ نوافل کی راہ سے میری طرف بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس کو محبوب بنا لیتا ہوں ، اور جب میں اس کو محبوب بنالیتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے‘‘۔

  یہ اسی روحانی زندگی کا بیان ہے، جو حقیقی اور واقعی زندگی ہے۔

 اس سے معلوم ہوا کہ نماز حقیقی زندگی کا سر چشمہ اور اس حیاتِ سفلی سے نجات حاصل کرنے کا زینہ ہے۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔