شعبۂ اردو کا کامیاب سفر

راحت علی صدیقی قاسمی

 ہندوستان کی عظیم ریاست مغربی اترپردیش کو اس ملک میں بہت سی خصوصیات و خوبیوں کا حامل مانا جاتا ہے، اس سرزمین نے بہت سی عظیم و محترم شخصیات کو پیدا کیا، جن کا وجود پورے ملک کی توقیر کا باعث ہوا، اس مردم خیز زمین کا تاریخی شہر میرٹھ جس کی کوکھ سے انقلاب نے جنم لیا اور ہندوستان کے جسم پر لدی غلامی کی زنجیریریں ٹوٹ گئیں، اس انقلابی سرزمین پر میرٹھ یونیورسٹی کے نام سے موسوم ایک ادارہ کا قیام عمل میں آیا، علم و حکمت کی تشنگی سے اس خطہ کے باشندوں کو سیراب کرنے کے لئے ملک کے مایہ ناز محقیقین کو مجتمع کیا گیا اور مغربی اتر پردیش کی کامیابی اور بلندی کا سفر شروع ہوا، اس سفر کو چند ہی دنوں بعد چودھری چرن سنگھ کے نام سے وابستہ کردیا گیا اور اس عظیم شخصیت کی یادگار کے طور پر آج بھی سرزمین میرٹھ پر ایک عظیم ادارہ تشنگان علوم و ادب کو سیراب کررہا ہے۔

یونیور سٹی قائم ہوئے ایک عرصہ دراز گذر چکا تھا مگر ابھی تک شعبۂ اردو کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا، حالاں کہ سرزمین میرٹھ دہلی اور پنجاب سے قربت رکھنے کے باعث اردو کا ابتدائی مسکن ہے، اس زمین نے زبان وادب کے شہسوار پیدا کئے ہیں، مگر ابھی تک اس سرزمین ادب کی باضابطہ درسگاہ کا انتظار باقی تھا، جسے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے انتظامیہ نے ختم کیا اور 2002شعبۂ اردو قائم کیا گیا اور اس کی ذمہ داریاں ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کے سپرد ہوئیں اور انہوں پورے مغربی یوپی دورے کئے، زبان و ادب سے ٹوٹے ہوئے رشتہ کو جوڑنے کی کوشش کی اور کارواں سبک رفتاری کے ساتھ آگے بڑھایا کہ سب عش عش کرنے پر مجبور ہوئے اور ان کی محنت جد وجہد نے لوگوں کو ان کی شخصیت کا معترف بنا دیااور ان کی محنتیں ثمریاب ہوتی نظر آنے لگیں اور اردو دنیا آپ کی جفاکشی کی مدح سرائی کرتی ہوئی محسوس ہونے لگی،  شعبۂ اردو کی ابتدا میں ایم اے اردو اور ایم اے ماس میڈیا کا قیام عمل میں آیا اردو کو روزگار سے وابستہ کرنے کی کامیاب سعی کی گئی، جس کے بہتر نتائج نگاہوں کو خیرہ کررہے ہیں اور آج بہت سے طلبہ چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی شعبۂ اردو میرٹھ سے تعلیم حاصل کرکے مختلف اردو چینلز اور مختلف اردو اخبارات میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں، جو شعبہ کی نیک نامی کا باعث ہے، اور شعبۂ اردو کے صدر کی محنتوں کا صلہ ہے، شعبۂ اردو نے اس کے بعد ڈپلومہ ان اردو قائم کیا جس کے ذریعہ بہت سے افراد کو اردو سے وابستہ کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔

 شعبۂ اردو میں 2003میں پی ایچ ڈی کورسیز اور 2004 ایم فل کورسز کا آغاز کیا گیا، شعبۂ اردو سے اب تک 16طلبہ پی ایچ ڈی 80ایم فل کر چکے ہیں اور امسال 4طلبہ ایم فل مکمل کرنے والے ہیں اور تین طلبہ پی ایچ ڈی کررہے ہیں، شعبۂ اردو نہایت ہی قلیل مدت ان زریں خدمات کو انجام دے چکا ہے، شعبہ کے لئے فخر کی بات یہ ہے کہ اس قلیل عرصہ میں شعبہ کے 16طلبہ نیٹ اور جی آر ایف میں کامیابی حاصل کرچکے اور ملک کے مختلف اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور شعبۂ اردو حاصل شدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لارہے ہیں۔

 شعبۂ اردو نے ہماری آواز کے نام ششماہی میگزین کا آغاز ابتدائی مراحل میں ہی کر دیا تھا، جس میں ملک کے نامور اور معتبر افراد کی تحقیقات شائع ہوتی ہیں اور طلبہ کے مضامین شائع کرکے انہیں لکھنے پڑھنے اور تحقیقات کرنے کا حوصلہ بخشا جاتا ہے اور اسی طرح مختلف نامور شخصیات کے کارناموں کو زندہ کرنے کوشش کی جاتی ہے، ہماری آواز اب تک سر سید احمد خاں، مولانا اسماعیل میرٹھی، امتیاز علی خاں عرشی، ڈاکٹر انجم جمالی،  جمشید پور نمبر، آزادی نمبر،  صحافت نمبر، پریم چند قرۃ العین حیدر، کملیشور پر خصوصی شمارہ ، بشیر بدر اطہر الدین اطہر کی شاعری پر خصوصی شمارہ اور عید گاہ سے واپسی پر خصوصی شمارہ پیش کر چکا ہے اور اب انتظار حسین کی شخصیت پر خصوصی گوشہ پیش کررہا ہے اور یہ ہماری آواز کا پندرہواں شمارہ ہے4دسمبر 2016کو اردو صحافت اور آج کی ضرورت پر ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں ملک کے نامور صحافی شامل ہوئے، مہمان خصوصی کے طور پر سہارا کے گروپ ایڈیڈیٹر اور ممتاز صحافی فیصل علی نے شرکت کی۔

پروگرام کی صدارت شعبۂ اردو کے صدر اسلم جمشید پوری نے فرمائی، پروفیسر این کے تنیجا نے شمع روشن کی خصوصی مقرر کے طور پر ہندوستان کے مایہ ناز صحافی ودو ساجد شریک ہوئے۔ پروگرام چار اجلاس پر مشتمل تھا، اقبال احمد صدیقی آل انڈیا ریڈیو نجیب آباد ڈاکٹر شیخ نگینوی اور ان کے علاوہ ملک کے ممتاز صحافیوں نے شرکت فرمائی اور پروگرام بیحد کامیاب رہا اور صحافت اور موجودہ دور کے مسائل پر ڈاکٹر مستمر، ڈاکٹر آصف علی، ڈاکٹر شاداب علیم ڈاکٹر فرحت خاتون اور دیگر مقالہ نگاروں نے مقالہ پیش کئے، ابوالکلام آزاد پر بھی مقالہ پیش کئے گئے اور پروگرام انتہائی کامیاب رہا، ڈاکٹر آصف علی کی کتاب خواجہ حسن نظامی بحیثیت صحافی کا اجراء عمل میں جس میں پروفیسر احمد محفوظ پروفیسر تنویر چشتی، تنویر حسن حیدری اور شعبۂ اردو کے صدر ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری شریک اور پروگرام کو اپنے خطابات سے خوبصورت بنایا۔

28دسمبر غالب کے یوم پیداش تیرا بیان غالب کے عنوان سے غالب کی شخصیت اور شاعری پر پروگرام ہوا سیمینار کی صدارت خواجہ اکرام عباس سابق این سی پی ایل ڈائرکٹر نے کی اور خصوصی خطبہ ڈاکٹر تقی عابدی نے پیش کیا، اس موقع پروفیسر یوسف عامر اور رانیہ مصر موجود رہے، سیمینار میں تقی عابدی کے خطبہ کی شہرت پوری ادبی دنیا میں محسوس کی گئی، اس کے علاوہ میرٹھ کے مشہور شاعر اور ادبی دنیا میں میرٹھ کا نام روشن کرنے والے حفیظ میرٹھی کے یوم وفات پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا اور ان کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا گیا،  جس کی صدارت معروف شاعر نظیر میرٹھی نے شعبۂ اردو کایہ کامیاب سفر دیکھئے، اور تصور کیجئے سترہ سال پہلے جس طرح اس شعبہ کا آغاز ہوا تھا، ایک شخص کے کندھوں پر یہ بار ڈالا گیا تھا، جسے اس خطے کے افراد میں اردو کی محبت پیدا کرنی تھی، اردو کی قدر کا احساس کرانا تھا، شعبہ کو اردو کی خدمت کے لئے آگے لانا تھا اور اردو کی مشہور مثل ’’اکیلا چنا کیا بھاڑ پھوڑے گا‘‘ سب نے سنی ہے، اس کے پس منظر میں اس شخص کی محنت جدو جہد کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جس نے تنہا اس سفر کو کامیابی کے ساتھ طے کیا، وہ نام ہے شعبۂ اردو کے ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری کا اور ان پر یہ پوری طرح صادق آتا ہے :

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

راہ رو آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

 یہ اسلم جمشید پوری کی محنت اور کاوش کا صلہ ہے کہ انہوں بابائے اردو کی سرزمین کو پھر سے معتبر کردیا اردو کے تئیں پیدا ہوئی سستی اور کاہلی کو دور کردیا ہے اور ایسے کارواں کی تشکیل ہے، جس میں ناقد بھی ہیں، افسانہ نگار بھی اور شاعر بھی، یہ انہی کی محنتوں کا صلہ ہے کہ شعبۂ اردو آج اتنی ترقی حاصل کرسکا ہے اور پوری ادبی دنیا میں باوقار ہوگیا ہے، اسلم جمشیدپوری کی یہ یقینی طور سے سرزمین میرٹھ کو اور بہت سے گوہر نایاب عطا کرے گی، جو آنے والی نسلوں کے لئے زبان و ادب میں آئیڈیل ہوں گے اور میرٹھ کا نام روشن کریں گے۔ ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ شعبۂ اردو کے صدر کی ان خدمات کو قبول کرے اور ان کی عمر دراز کرے تاکہ دنیائے ادب میں ان کے دم قدم سے روشنی رہے۔ اور ان تمام شماروں کو ادبی دنیا میں بڑا مقام حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ شعبۂ اردو نے قومی کونسل کے تعاون سے بہت سی شخصیات کے نام سے موسوم سالانہ تحقیقی خطبہ پیش کئے ہیں اور اہل کی بصیرت میں اضافہ کیا ہے اور طلبہ کے لئے تحقیق کی جانب رہنمائی کی ہے، جن میں مشہور پروفیسر شمیم حنفی نے اس سلسلہ کا آغاز کیا، پھر قاضی افضال حسین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، پروفیسر ارتضیٰ کریم، شہپر رسول، مولانا مظہر الحق، اعجاز ارشد ان عظیم شخصیات نے خطبات پیش کئے ہیں، ان شخصیات کے نام ہی اس خطبہ کی اہمیت کو عیاں کررہے ہیں اور ادب سے وابستہ ہر شخص ان افراد کے تحقیقی و تنقیدی معیار کا بخوبی علم رکھتا ہے۔ اردو زبان گنگا جمنی تہذیب کی علامت، پیار و محبت کی پیغامبر ہے، اس زبان نے ہمیشہ نفرتوں کو شکست دی ہے، زبان کے اس معجزے کو ظاہر کرنے کے لئے شعبۂ اردو ہمیشہ قومی یکجہتی لیکچر سیریز کا انعقاد کرتا ہے، اس سیریز کا پہلا خطبہ مولانا سید عقیل الغروی نے دیا۔

گذشتہ 17برسوں میں شعبۂ اردو نے تحقیق و تنقید کے میدان میں لازوال خدمات انجام دی ہیں اور ادبی سرمایہ میں گراں قدر اضافہ کیا ہے، اس دعوی کے ثبوت کے لئے یہی کافی ہے کہ اس مختصر سے عرصہ میں شعبۂ اردو میں 52کتابوں کا اجراء عمل ہوچکا ہے، اس مدت میں شعبہ اردو کے طلبہ کی 60کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور دس کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہونے کے لئے تیار ہیں اور اب تک شعبہ سے اردو سے وابستہ افراد کی 15کتابوں کو اترپردیش اکیڈمی سے انعام حاصل ہوچکے ہیں -اسی طرح شعبۂ اردو طلبہ کی استعداد مضبوط کرنے کے لئے سیمنار کا انعقاد کراتا رہا ہے، جس میں 2002سے 2015تک 60ملکی سطح پر اور عالمی سطح کے سیمینار منعقد کئے گئے اور تمام کو سیمینار مقبولیت عام حاصل ہوئی اور بعض سیمینار نے اتنی شہرت حاصل کی کہ پوری ادبی دنیا ان کے انتظام و انصرام اور معیار کی مدح سرائی کرنے پر مجبور ہوئی اور ان سیمناروں میں ادب کی وہ کہکشاں شامل ہوئی جن سے زبان و ادب کی دنیا میں روشنی ہے،  (12/14اپریل 2008)معاصر تہذیبی اقدار اور نئی اردو کہانی، ، کا انعقاد کیا گیا، یہ سیمینار تین دنوں تک جاری رہا، اس کی صدارت پروفیسر شمیم حنفی نے فرمائی، مہمان خصوصی کے طور پر عظیم افسانہ نگار جوگیندر پال شریک ہوئے، پروفیسر زماں آزردہ نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔

تبصرے بند ہیں۔