داعی قرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ

الطاف جمیل ندوی

ایک عظیم شخصیت کو دنیا ڈاکر اسرار احمد (ولادت:26؍اپریل 1932، وفات:13؍اپریل 2010) کے نام سے یاد کرتی ہے۔

ڈاکٹر اسرا ر احمدؒ ایک عظیم اسکالر اور مفکرتھے اور ایک مفکر ہماری تعریفوں اور خراجِ عقیدت کا محتاج نہیں ہوتا۔ ایک مفکر کے لیے خراج عقیدت یہ ہے کہ اس کے افکار و نظریات کو لے کر اٹھا جائے اور انہیں دنیا میں عام کرنے کی تاحد امکان سعی و جہد کی جائے۔ ڈاکٹر صاحب کا ماننا تھا کہ مولانا ابولاکلام آزادؒ جہاں پر اپنے انقلابی کلام سے ‘‘یہ صور پھونک کر تم سوگئے کہاں آخر’’کے مصداق دستبردار ہوئے،وہاں مولانا مودودی ؒ نے اسے آگے بڑھایا اور اب وہ خود مولانا مودودیؒ کے انقلابی مشن اور احیاء اسلام کی جد وجہد کو آگے بڑھا رہے تھے۔

 ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنی ساری عمر قرآن کی عظمت، اسکے نزول کے مقاصد بیان کرتے اور یہ کہتے گزار دی کہ قرآن حکیم بنیادی طور پر ہدایت کی کتاب ہے، جس کا مقصد انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے۔ برصغیر میں سب سے پہلے قرآن مجید کی جن حکمت آفرینیوں پر شاہ ولی اللہ نے توجہ مبذول کروائی تھی پھر علامہ اقبال نے اپنی کتاب ”اسلام میں مذہبی نظریات کی تشکیل نو“ میں جس بات کو آگے بڑھایا تھا ڈاکٹر اسرار احمد اسی تسلسل کا ایک حصہ تھے، وہ نہ صرف بولتا ہوا قرآن لوگوں تک پہنچاتے رہے بلکہ وہ قرآن سے محبت کرنے والوں کا ذکر بھی بڑی عقیدت سے کیا کرتے تھے، ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی مستقبل کی آئیڈیالوجی کے وہ بڑے معترف تھے، فرانسیسی ڈاکٹر مارس بیکائل، کی بیالوجی اور ایمبرالوجی کے میدان میں قرآن سے رہنمائی لے کر ثابت کرنا کہ قرآن مجید کی کوئی آیت سائنس کے خلاف نہیں‘ کو بھی ڈاکٹر اسرار احمد ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔

 ہمارے اس دعوے کی تصدیق کرنی ہوتو، آپ ڈاکٹر صاحب کی کوئی تقریر یا کوئی چھوٹا موٹا بیان سن لیجیے۔ آپ کو چند لمحات ہی میں  اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کسی زوردار اور متحرک شخصیت کو سن رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اندر نہ جانے کیسی حرکت القاء فرمائی تھی۔ وہ سراپا حرکت اور تحریک معلوم ہوتے تھے۔ یہ حرکت و تحریک ان کے شب و روز سے آگے بڑھ کر ان کی گفت و شنید سے بھی ظاہر ہونے لگی تھی۔

ڈاکٹر صاحب کا اصل میدان دعوت دین تھا۔ زمانہ طالبعلمی سے ہی غلبہ دین کی جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرتے ہی، اسلامی جمیعت طلبہ، جس کے یہ ناظم اعلیٰ تھے، سے استعفا دیا اور جماعت اسلامی کی رکنیت کی درخواست دے ڈالی۔ جماعت اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد کا پہلا پیار تھی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نہ صرف انکے امیر بلکہ فکری رہنماٗ بھی تھے۔ جماعت میں شمولیت دراصل ان کے اندر چھپے ہوئے، اعلائے کلمئہ حق کیلئے خون پسینہ ایک کرنے والے سپاہی کی جدوجہد کا پہلا قدم تھا پر آخر ڈاکٹر صاحب  جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوگئے جو ایک الگ موضوع  ہے کہ کیا اسباب تھے کہ ڈاکٹر صاحب جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوگئے  اور تنظیم اسلامی تشکیل دی  تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لئے وقف کردی تھیں . آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ آپ نے ‍قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں . مشہور بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کے قریبی تعلقات تھے اسی ضمن میں انہوں نے بھارت کے کئی دورے بھی کئے . عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی . بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں . بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔

 ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی شخصیت اس قبیلے سے تعلق رکھتی ہے جنہوں نے اپنی ساری زند گی قالاللہ و قال الر سولؐ کی صدائیں لگا تے لگا تے اور لوگوں کو کتاب ہدایت(قرآن حکیم)کی طرف بُلاتے گزار دی۔آپ جب قرآن کی تفسیر بیان کر تے تو مجھ جیسے بہت سے لوگوں کے زنگ آلودہ دل، خشیت الٰہی سے موم ہو جا تے، عجب سی پُر کیف سکو نت طاری ہو جا تی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی پر ورش ایسے دینی گھرا نے اور ماحول میں ہو ئی جہاں اسلام سے محبت اور قرآن حکیم سے شغف معمولات زند گی کا حصہ تھا،اسی گھریلو ماحول اور خاندانی پس منظر کا کما ل تھا کہڈاکٹر صاحب ؒ نے ایم۔اے اسلا میات کر نے کا فیصلہ کیا۔1965ء میں کرا چی یونیورسٹی سے اس امتحان میں اول پو زیش حا صل کر کے گولڈ میڈل حا صل کیااور اس کے بعد قرآن اور اقبال کو گہری نظر سے پڑھنا شروع کیااوران دو اہم علوم کی تحصیل کے لئے جُت گئے اور اسی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے مرکزی انجمن خدام القرآن کی بنیا د رکھی جسکے پلیٹ فام سے قرآنی دروس کا لا متنا ہی سلسلہ شروع کیا۔جس کا مقصدعوام با لخصوص نو جوانوں کو عر بی زبان اور قرآنی تعلیمات سے روشناس کر انا تھا۔ ڈاکٹر صاحبؒ کا انداز علمی اور استدلال انتہائی معقول اور منطقی ہو تا تھا جس کی وجہ سے اللہ جی کے خصوصی کرم کی بدو لت قرآنی دروس میں روز بروز اضافہ ہو تا چلا گیا اورملک عزیز کے طول و عرض میں اس کے ثمرات دیکھنے کو ملے جس کے نتیجے میں ڈاکٹرصاحب نے میڈیکل پر یکٹس کو خیر باد کہہ کر اپنا تمام وقت اس تحریک کو دینا شروع کر دیا اور ساتھ ہی غلبہ دین کےلئے تنظیم اسلامی کا قیام بھی عمل میں لا ئے اور دین حق کو قا ئم کر نے کی جدو جہد کا آغاز کیا

علامہ اقبال  مرحوم کے ساتھ محترم ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی کا اہم ترین سبب علامہ کا فکر قرآنی ہے۔ انہوں نے افکار قرآنی کو اپنے اشعار میں جس طرح سمویا وہ انہی کا حصہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ علامہ نے اپنی شاعری کے ذریعے قوم کو ایک پیغام دیا اور جسد ملی اور ایک نئی روح پھونکی لیکن اس بات سے شاید بہت کم لوگ واقف ہوں کہ اقبال در حقیقت ترجمان قرآن تھے ان کا پیغام بھی تمامتر افکار قرآنی ہی سے عبارت ہے۔ چنانچہ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اپنے پر تاثیر کلام کے ذریعے مسلمانان برصغیر کو قرآن حکیم اور اس کی تعلیمات کی جانب متوجہ کرنا انہيں قران کے انقلابی فکر سے روشناس کرانا اس طرح اسلام کی نشاﺓ ثانیہ کی راہ ہموار کرنا فی الاصل اقبال کے پیش نظر تھا اسی حقیقت کا نہایت شدت کےساتھ انکشاف محترم ڈاکٹر صاحب پر بھی ھوا کہ کرنے کا اصل کام یہی ہے۔ چنانچہ وہ اس معاملے میں علامہ مرحوم کو بجا طور پر اپنا پیش رو قرار دیتے ہیں اور ان کی عظمت کے واشگاف الفاظ میں اظہار و اعتراف میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے۔

محترم ڈاکٹر صاحب کے نزدیک دور حاضر میں اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید میں سب سے بڑا حصہ علامہ اقبال کا ہے۔ مسلمان بحیثيت مجموعی اس اہم حقیقت کو فراموش کر چکے تھے کہ اسلام محض ایک مذہب نہيں دین ہے جو پورے نظام اجتماعی پر اپنا غلبہ و اقتدار چاہتا ہے۔ اقوام مغرب کی غلامی نے انہیں اس درجے پست ہمت اور کوتاہ فکر بنا دیا تھا کہ وہ اپنے ذاتی نماز روزے پر ہی قانع ھو کر رہ گئے‌ تھے اور اسی کو کل اسلام سمجھ بیٹھے تھے۔ تکبیر رب جیسے ولولہ انگيز انقلابی تصور کو مسلمان نے تسبیح و وظائف تک محدود کر دیا تھا۔ اقبال نے بڑے زور دار انداز میں دین و مذہب کے اس محدود تصور پر ضرب لگائی اور نہایت دلنشیں پیرائے میں دین کے اصل تصور کو اجاگر کیا

ڈاکٹر اسرار احمدکا ماننا ہے کہ ‘‘دین’’کے ‘‘دین’’ ہونے کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ وہ نافذ و غالب ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو وہ دین کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے۔ آپؒ لکھتے ہیں یہ دین اپنا نفاذ اور غلبہ چاہتا ہے۔وہ دستور اور قانون بے معنیٰ ہے جوکہیں نافذ نہیں۔ہمارے ملک کے۴۵۹۱ اور۶۵۹۱ کے جو دستورر کھے ہوئے ہیں، کیا وہ واقعی دستور کہلائے جاسکتے ہیں۔جبکہ وہ نافذ ہی نہیں’’ ﴿مطالبات دین،ص:۸۳﴾

ڈاکٹر اسراراحمدؒ ایک مصلح کی حیثیت سے امت مرحومہ کی موجودہ صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی دورخی پالیسی پر یوں تنقید کرتے ہیں :

یہ عجب طرفہ تماشا ہے کہ دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کے نام سے جو قوم بس رہی ہے، وہ دعویٰ تو اس بات کا کرتی ہے کہ اصل دستور اور قانون خدا کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی سنت ہے لیکن یہ عجیب شتر گربگی ہے کہ ان کا عمل اس دعوے کے بالکل برعکس ہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کا عطا کردہ دستور و قانون ان کی عملی و اجتماعی زندگی میں کہیں نظر نہیں آتا‘‘﴿ایضاً ص:۸۳و۸۴

ڈاکٹر صاحبؒ کا ماننا ہے کہ تزکیہ و طہارت کے بعد طاغوتی حکومتوں سے تصادم کا مرحلہ آنا بہر حال لازمی ہے اور اس تصادم اور ٹکراؤکے بغیر اسلامی انقلاب کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ آپ ؒ لکھتے ہیں :

معاشرہ چاہے سرمایہ دارانہ ہو یا جاگیردارانہ،کمیونزم کو مانتا ہو یا سوشلزم کو، ظالمانہ ہو یا آمرانہ،یعنی اللہ کے سوا کسی اور کا قانون چل رہا ہو،تو اگر ایمان موجود ہے تو اس کا لازمی تقاضا ہوگا کہ ایسے فاسد نظام سے ٹکرا جاؤ۔اب بات نظریاتی نہیں رہے گی، کیونکہ اس نظام کے ساتھ مراعات یافتہ طبقات کے مفادات اور vested interestsوابستہ ہیں۔وہ ٹھنڈے پیٹوں آپ کی بات نہیں چلنے دیں گے۔بلکہ وہ اس نظام کا ہر قیمت پر تحفظ و دفاع کریں گے،اور آپ کو ان سے ٹکرانا ہوگا۔یہ طاقت کا طاقت سے بالفعل ٹکراؤ ہوگا۔ یہی جہاد کی بلند ترین منزل ہے،جہاں پہنچ کر جہاد قتال کی شکل اختیار کر لیتا ہے‘‘۔﴿حقیقت ایمان، ص۱۳۴

ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کی تبلیغ و تحریر میں بات یہ تھی کہ

خطاب عوام سے ہوتا یا خطاب طلباء سے ہوتی اہل علم سے درد دل کہہ رہے ہوں یا حاکم وامراء کو نصیحت فرما رہے ہوں سب کو وعظ ونصائح کے بجائے آئینہ دکھانے پر وہ یقین رکھتے تھے اور سننے والے اس آئینہ میں اپنی صورت وسیرت کی کمزوریوں، اپنے دل ودماغ کی کوتاہیوں کا مشاہدہ کرتے جاتے تھے، اس بالواسطہ ترسیل سے حضرت نے وہ کام لیا جو زورِ خطابت اور جوش بیان سے نہیں ہوسکتا تھا، اسی طریقہ نے عوام الناس سے اہل علم تک سب کو متاثر کرکے ان کا گرویدہ بنادیا تھا۔ ان تقریروں کوپڑھنے سے ایک منضبط تحریر کی خوبی نظر آتی ہے، جو دماغ سے زیادہ دل کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، قرآنی آیات واحادیث کی روشنی میں بزرگوں کی سیرت وسوانح کے حوالہ سے حضرت جوفرماتے وہ سامع کے دل میں اترجاتا اور زبانِ حال سے وہ پکار اٹھتا ؂دیکھنا تقریر کی لذت جو اس نے کہامیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

ڈاکٹر اسرار احمد کافی عرصے سے دل کے عارضے اور کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے بالآخر مؤرخہ 14 اپریل،2010ء کو 78 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے آپ کو گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں

میں تحریک اسلامی کے مخلص و بے باک نقیب مولانا عامرعثمانی رحمتہ اللہ علیہ ﴿ایڈیٹر ماہ نامہ تجلی، دیوبند﴾ کے اِن اشعار پر اپنی بات ختم کروںگا۔ یہ وہ اشعار ہیں، جو انھوں نے  شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ کے سانحۂ ارتحال پر فرمائے تھے:

وہ ایک تارا جو ضوفگن تھا، حیات کے مغربی افق پر

سیاہی شب کے پاسبانو! خوشی مناو ٔ کہ وہ بھی ڈوبا

وہ اک سفینہ جو ترجماں تھا بہت سی غرقاب کشتیوں کا

ہماری حالت پہ ہنسنے والو! ہنسی اڑاؤ کہ وہ بھی ڈوبا

وہ ایک دل جو دمک رہا تھا،خلوص و ایماں کی تابشوں سے

خلوص و ایماں کے دشمنوں کو ِخبر سناؤکہ وہ بھی ڈوبا

تبصرے بند ہیں۔