ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی!

نورالامین یوسف شریف

 (پربھنی)

جب بھی ۱۵؍ اگست قریب آتی ہے تو قومی اخبارات میں، سوشل میڈیا پر یوم آزادی سے متعلق مضامین کثرت سے شائع ہوتے ہیں ہر اخبار کے صفحہ پر سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر آزادی میں مسلمانوں کی خدمات کو سراہا جاتا ہے، علماء کرام کی قربانیوں کے تذکرے ہوتے ہیں۔ لیکن راقم الحروف اس مضمون میں ان تمام باتوں پر تبصرہ نہ کرتے ہوئے یہ بات ڈنکِ کی چوٹ پر بتانے کی کوشش کرونگا کہ حقیقت میں ہم آزاد ہوئے بھی ہیں یا ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

۱۵؍اگست ۱۹۴۷ ؁ء کو بھارت انگریزوں کی غلامی سے ظاہری طور پر آزاد ہوا تھا لیکن ان انگریزیہودیوں ہی کے ایک طبقہ کی غلامی سے آج تک آزاد نہ ہوسکا۔ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ انگریزوں کا وہ مخصوص طبقہ بھارت میں رہائش پذیر برہمن ہے۔ واشنگٹن یونیورسٹی کے Biotechnology شعبہ کے سربراہ مائیکل بمشاد(Micheal Bamshad) نے وِشاکھا پٹنم Bitechologyشعبہ کے لوگوں کے ساتھ مل کر پوری دنیا کے DNA نمونوں کا برہمنوں کے DNA سے موازنہ کیا تو اس نتیجہ پر پہنچے کے بھارت میں رہنے والے برہمن یوریشا میں موجود کالے سمندر کے کنارہ رہنے والے یہودیوں کی نسل سے ہیں۔ اور بھارت میں یہ لوگ ۱۹۲۴ ؁ء سے ایک تنظیم قائم کرکے اس ملک کو ہندوراشٹر بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے بیرونی ملک کے آقاؤں کے حکم پر، ان کی منشاء کے عین مطابق ہر کام انجام دیتے ہیں۔

اس ملک کی عوام کو مذہب کے نام پر لڑا کر اپنااُلو سیدھا کرتے ہیں۔ ملک میں دہشت کا ماحول پیدا کرنا، فرقہ وارانہ فسادات کروانا، فرضی انکاؤنٹر، مسلم اور دیگر پسماندہ طبقات پر گائے کی حفاظت کے نام پر ظلم کے پہاڑ توڑنا سب کچھ ان ہی کی مرہون منت ہے۔ یہاں میرا مقصد آر۔ ایس۔ ایس اور بی جے پی کی مسلم دشمنی، ملک سے غداری یہ اور اسی طرح کی باتوں کا ماتم کرنا یا ان کی حرکتوں کا رونا رونا ہر گز نہیں ہے یہ بات تو اظہر مِن الشمس ہے کہ یوریشین یہودی اس ملک کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ اصل مقصد میرا یہ ہیکہ یوم آزادی کے موقع پر ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں کا جو تذکرہ سنتے ہیں، پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں کہ کس طرح علماء کے خون سے اس باغ کو سینچا گیا ہے، کس طرح ملٹا میں ہمارے اکابرین پابند سلاسل ہوئے، خانقاہوں سے آزادی کی تحریکیں شروع ہوئی کیا یہ سب کچھ جن کا ذکر ہم فخر سے کرتے ہیں صرف اس لئے تھا کہ ہم پر نام نہاد آزادی کا لیبل چسپاں کردیا جائے۔ کیا اسلاف کی قربانیوں کا صلہ طلاق پر پابندی کی صورت میں دیا جائیگا؟ کیا ہمارے خون کا یہی صلہ ہے کہ ہم پر اس ملک کی زمین کوتنگ کردیا جائے؟ کیا یہی وہ آزادی تھی جس کے لئے ماؤں کی گودیں ویران ہوئی؟ کیا یہی ہے وہ آزادی جس کے لئے اس ملک کی بیٹیاں بیوہ ہوئی؟ یہ کون سی آزادی ہے جس میں حق بات کرنے والے صحافیوں پر گولیاں برسادی جاتی ہیں ؟ یہ کون سی آزادی ہے جہاں بابری مسجد کے مجرم آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں ؟ ہماری آزادی تو بس اس شعر کے مصداق ہے۔

مجھے کو آزادی ملی بھی تو ایسے ناسک
جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے

ملک کی اس موجودہ صورتحال میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پنے اسلاف کی قربانیوں کا صرف تذکرہ ہی نہ کرے بلکہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس ملک کو ان یوریشین یہودیوں سے آزاد کرانے میں اپنا کردار کریں۔ ملک میں جو ظلم کا ماحول بنا ہوا ہے کیا اس کو اپنی طاقت کے مطابق روکنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ کہی بات ایسی تو نہیں کہ ظالم اگر مسلمان ہے تو ہی روکنا چاہیے ورنہ دیگر مذہب کا ہوتو اس کو روکنا ہماری ذمہ داری نہیں ؟ ظلم تو بس ظلم ہی ہے ظالم کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ ہم اسلاف کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے لیکن اسلاف کی طرح قربانیوں کے جذبات کا ہم میں فقدان ہیں۔

تھے تو آباد وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرفردا ہو!

ہم بس اپنے واٹس ایپ کی DP اور Status پر ہی اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے حصے کی شمع روشن کر دی ہے، کیاواٹس ایپ کی DP اور Status سے اس ملک میں ظلم کی نماز جنازہ ادا کردی جائے گی امت عجیب نیند میں سوئی ہوئی ہے سوشل میڈیا پر چند باتوں کی تشہیر کرکے یہ سمجھتی ہے کہ ہم نے اپنا حق ادا کردیا۔

حق اس طرح ادانہیں ہوا کرتے حق ادا کرنے کے لئے گردنیں کٹوانی پڑتی ہے، حق ادا کرنے کے لئے کربلا کے میدان بنائے جاتے ہیں، حق ادا کرنے لئے سر پر کفن باندھے جاتے ہیں، حق ادا کرنے کے لئے شجاعت ٹیپو سلطانؒ چاہیے، حق ادا کرنے کے لئے حسین احمد مدنیؒ کے نقش قدم پر چلنا پڑتا ہے، حق ادا کرنے کے لئے کالے پانی کی سلاخوں کو گلے لگانا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی کہا یہی جاتا ہے کہ’’ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘۔ تب جاکر غلامی کی زنجیروں سے نجات ملتی ہے۔ غلامی قید و بند کی صعبوتیں برداشت کرنے کو نہیں کہتے غلامی اغوا کرکے غلام بنالئے جانے کو نہیں کہتے، ظالموں کا تختِ مشق بننے سے غلامی کو کوئی مشابہت نہیں، اصل غلامی تو یہ ہیکہ ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا چھوڑدیں۔ غلامی نظریات کی ہوتی ہے، بیداری کی کیفیت میں بھی نیند میں ہونے کا ناٹک کرنے والے نیند کے غلام ہوتے ہیں اور یہ امت آج اسی غلامی میں مبتلا ہے، غلامی جہالت کے اندھیروں کی ہوتی ہے کہ ظلم ہوتا ہوا دیکھتے رہیں اور ظلم کا سر قلم کرنے کے لئے کسی بھی اقدام سے گریز کیا جائے صرف اپنی جان کی امان کے لئے اور اسی کو ذہنی غلامی کہاجاتا ہے، جسمانی غلامی اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی ذہنی غلامی ہوتی ہے، غلامی کی بدترین شکل وہ ہے کہ جب غلاموں کو اپنی زنجیروں سے محبت ہوجائے۔

جب ملک انگریزوں کا غلام تھا اُس وقت علماء کرام نے اس امت کی رہبری کی تھی اور آج کئی علماء کرام ان یوریشین یہودیوں سے آزادی کے لئے اپنی آواز کو بلند کررہے ہیں جن میں حضرت مولانا سجاد نعمانی برکاتہم اور دیگر کئی علماء کرام شامل ہیں، ہم یہ نہ دیکھے کہ دیگر علماء کرام کیا کررہے ہیں بلکہ جو اس کام میں لگے ہوئے ہیں ان کو دیکھنے Youtube پر انکے بیانات کو سنے خصوصاً مولانا سجاد نعمانی دامت برکاتہم اور مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم اور انکی ہدایات کے مطابق خود کو آزادی کی اس تحریک میں شامل کریں یہ حضرات ہمارے سروں کے تاج ہیں یہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود ملک کے گوشہ گوشہ میں جاکر امت کو جگارہے ہیں۔ اس ملک میں ہم کو اپنے اسلامی شعار کے ساتھ جینے کے لئے یہ حضرات اپنی جان، مال، وقت سب کچھ لگارہے ہیں۔ واٹس ایپ پر وقت برباد کرنے سے بہتر ہے ہم ان حضرات کے بیانات کو سنے کتابوں کا مطالعہ کریں۔ اگر ہم ملک کے حالات کو سمجھنا چاہتے ہیں حالات کی سنگینی سے واقف ہونا چاہتے ہیں تو ایم۔ ایس۔ مشرف کی کتاب کرکرے کا قاتل کون۔ ۔ ! کا مطالعہ کریں۔ اور حالات کے رُخ کو موڑنا چاہتے ہیں تو ان حضرات سے رہبری لینا اور ان کی ہدایات کے مطابق چلنا پڑیگا۔

ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی 
دن آجاتا ہے آزادی کا، آزادی نہیں آتی

تبصرے بند ہیں۔