دبستان برار: عہد ماضی کی بازیافت

مصنف:  فیروزخان

تعارف و تبصرہ: وصیل خان

نام کتاب: دبستان برار
موبائل: 08924042310
قیمت: 250/-  روپئے۔ صفحات  :  236
پتہ :  دارالاشاعت مصطفائی ۳۱۹۱  گلی وکیل کوچہ پنڈت لال کنواں ، دہلی ۶، فون نمبر :  23214465/23216162

کام تو بے شمار ہیں اور بہت کچھ کئے بھی جارہے ہیں لیکن معیاری سطح پر جس طرح کام کی ضرورت ہے ان کی مقدار بہر حال تسلی بخش نہیں ہے، قابل ستائش ہیں وہ لوگ جو اس نہج پر سوچتے ہیں اور پیش رفت  کرتے ہیں اور اپنے حصے کا وہ کام کرجاتے ہیں جس سے آئندہ نسلیں مستفید ہوتی ہیں ۔ ماضی سے مکمل ربط، حال سے ہم آہنگی اور مستقبل پر گہری نگا ہ کسی بھی قوم کی رفعت وسربلندی کی ضمانت ہے۔

فیروز حان ندوی ایک جواں سال عالم دین ہیں، ان کے سینے میں ملت کیلئے ایک درد نہاں بھی ہے جو انہیں ہمہ وقت بے چین رکھتا ہے۔ ان کی شدید خواہش ہے کہ امت مسلمہ زندگی کے تمام تر شعبوں میں اسی طرح کامیابی سے ہمکنارہو جیسا کہ وہ ماضی میں پوری طرح ہم آہنگ رہا کرتی تھی۔ انہوں نے شعرو ادب کے حوالے سے اپنی تحقیقی کاوشوں کے ذریعے ماضی کو حال سے جوڑتے ہوئے ایک اہم اور معیاری کام انجام دیا ہے۔

’ دبستان برار ‘ میں انہوں نے ماضی وحال کے شعراکی ایسی فہرست اکٹھی کی ہے جس میں کم از کم ۱۲۵؍ سالہ تاریخ سمٹ گئی ہے جس کی تکمیل کیلئے وہ نہ جانے کتنے جاں گسل مراحل سے گزرے ہوں گے۔ عام طور پر بیشتر تذکرہ نگار اجمالی تذکرے سے زیادہ کے متحمل نہیں ہوپاتے لیکن بہر حال اس سے اتنا فائدہ تو ضرور ہوجاتا ہے کہ بہت سے بھولے بسرے اور کسی سبب متعصبانہ غیریت کےشکار فنکارحال کی روشنی سے نکھر جاتے ہیں ۔ اس تعلق سے فیروز ندوی کا ایک اختصاص یہ بھی ہے کہ انہوں نے برار کے ان چھوٹے چھوٹے اور نسبتاً غیرمعروف قریوں کو بھی کھنگالتے ہوئے ان شعراءو ادبا کا تفصیلی تعارف پیش کیاہےجنہیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے، یہی نہیں انہوں نے اس ضمن میں کافی محنت و جستجو کا مظاہرکرتے ہوئے یہ کوشش کی ہے کہ جو کچھ منظر عام کیا جائے وہ تاریخی طور پر مستندہو۔ اڑتی پھرتی اور غیر مصدقہ روایات و حکایات سے حتی الامکان اجتناب نے ان کی کتاب کو واقعتاً ایک ایسا دبستان بنادیا ہے جس سے شائقین ادب جی بھر کے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

پروفیسر اشرف شفیع لکھتے ہیں کہ ’’ شعرائے براراور ادبا نے علم و ادب کی ترقی میں جو قابل قدر کام کیا ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر افسوس کہ برار کی ادبی تاریخ پر بہت کم کسی کی نظر گئی جبکہ اردو میں زبان و ادب کی ادبی تاریخوں کی کوئی کمی نہیں ، مجموعی طورپر لکھی جانےو الی تاریخوں اور تذکروں میں بعض علاقوں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے جس میں برار بھی شامل ہے۔ فیروز خان ندوی نے دبستان برار تحریر  کرکے برار کے شعرا کو ان کا مستحق و جائز مقام دلانے کی قابل تعریف کوشش کی ہے انہوں نے دبستان برار کے نام سے جو تذکرہ مرتب کیا ہے اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ برار کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں کیسے کیسے اعلا درجے کے سخنوروں نے جنم لیا ہے جن کی طرف شہروں کی چکا چوندسے متاثر ادب نواز شخصیتوں کی نظر کم بلکہ بہت ہی کم گئی ہے۔ ‘‘

کتاب کا مطالعہ باورکرتا ہے کہ مصنف محض ایک تذکرہ نگار ہی نہیں ، نقدو نظر سے بھی بہرہ مند ہیں ساتھ ہی عربی، فارسی اور اردو ادب پر ان کی عمق نظری نے کتاب کو مختلف زاویوں سے قابل مطالعہ بنادیا ہے ایک طرف وہ اگر شعراکے کوائف بیان کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کی شعری جہات پر ناقدانہ نظر کے ساتھ ان کے محاسن و معائب کی بلیع انداز میں توجیہ و توضیح بھی کرتے جاتےہیں۔ اس طرح انہوں نے ان محققین کا کام بھی آسان کردیا ہے جو بعد کے ایام میں شعرائے برار پر کچھ تحقیقی کام کرنا چاہیں گے۔

مصنف نےشعرائے برار کی ان ادبی خدمات کو اجاگر کرکے ادب میں ایک اچھا اضافہ کیا ہے جو برسہا برس سے پردہ خفا میں تھےاور جن پر ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہ کی جاسکی تھی۔ کتاب کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں ’’ دبستان برار نہ کوئی بڑا ادبی کارنامہ ہے نہ ہی کوئی اعلا درجے کی تحقیق بلکہ یہ شعرائے برار کے سلسلے میں عرصہ سے دل میں پنپ رہے شدید احساس کا پرتو ہے۔ ‘‘ موصوف کا آخرالذکر جملہ ’ شدید احساس ‘ دراصل یہی محرک ہے کتاب کی تصنیف کا جس نے برار کے شعراکی ادبی خدمات و جہا ت پر ان سے ایک دستاویزی کام لے لیا۔

تحقیق و تنقید کے میدان میں یہ جذبہ اور لگن فی زمانہ کمزورہوتا جارہا ہے جس کی بازیابی ضروری ہے۔ لیکن کتاب میں اغلاط کی بھرمار بار بار مطالعے کے تسلسل کو مجروح کرتی ہے جو منتظمین کتاب کی شدید غفلت کی غماز ی کرتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ اب یہ غفلت عام ہوتی جارہی ہے اور نئی شائع ہونے والی اسی فیصد کتابیں اسی تغافل کاشکار نظر آتی ہیں ۔ کیا اس کا تدارک زبان و ادب کی بقا کیلئے ضروری نہیں ہے یہ سوال اب بار بار ذہن میں اٹھنے لگا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔