دستورِ مدینہ کے تحت عدلیہ

ترتیب: عبدالعزیز
تمہید: قبل از اسلام عرب کی سیاسی فکر کا مرکزی تصور قبیلہ تھا۔ بنیادی طور پر قبیلہ خونی رشتوں پر استوار ایک گروہ تھا۔ قبیلہ کی رکنیت جان و مال کی حفاظت کی واحد ضمانت تھی جس کے عوض قبیلہ اہل قبیلہ سے مکمل وفاداری کا تقاضا کرتا تھا۔ اسلام نے قبل از اسلام کے قبائلی تصور پر مبنی سماجی اور سیاسی ڈھانچہ کی بنیاد کو منہدم کر دیا اور قبیلہ کی جگہ اسلامی امہ قایم کی، امّہ نسبی اور خونی قرابت داری کے بجائے آفاقی، دینی اور اخلاقی اصولوں پر قائم ہوئی۔ اس حقیقت کو نہ صرف نظریاتی بنیادوں پر استوار کیا گیا بلکہ اس پر باقاعدہ معاشرت قایم کرکے اس کا عملی طور پر بھی مظاہرہ کیا گیا۔ قرآن نے نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اسلام پر ایمان لانے والے تمام مسلمان بلا لحاظ رنگ، نسل، علاقہ ایک مضبوط و مستحکم امت ہیں: ’’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃ‘‘ (سب مومن بھائی بھائی ہیں)۔
مکی دور ہی میں مختلف النسل لوگوں، عرب کے مختلف قبائل کے اراکین اور برادریوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول تسلیم کرلیا تھا۔ انصارِ مدینہ کا آپؐ کو قبول کرلینا امہ کے تصور میں فروغ اور استحکام کیلئے سب سے بڑا واقعہ تھا۔ ہجرت ایک عظیم موڑ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کا مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا اور عرب کے مختلف قبائل کے ارکان اور خانوادوں کا مدینہ جانا صرف تبدیلیِ سکونت نہیں تھا بلکہ یہ رشتہ اور تعلق کی تبدیلی تھی۔ ہجرت کا مطلب تھا اپنے قبیلہ کو چھوڑ کر امہ سے وابستہ ہونا۔ ذات، برادری ، قوم قبیلہ کی عصبیت کو اپنانا ’’جاہلیت‘‘ قرار پایا۔ رنگ، نسل، علاقہ جیسی عصبیتوں سے بالا تر ہوکر اسلام کے آفاقی، عالمی، دینی اور اخلاقی اصولوں کو اپنانا امت سے وابستگی اور اسلام کے متردف ہونا قرار پایا۔ مومنوں کی راہ سے ذرہ بھر انحراف معصیت سمجھا جاتا تھا اور اس کی پاداش سزائے جہنم تھی۔ امت کا یہ مفہوم اتنا واضح تھا کہ دشمنانِ اسلام فدیہ اور دیت کے معاملات میں پوری امت کو ایک قبیلہ تصور کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امہ کے سربراہ تھے۔ کسی شخص کے قبولِ اسلام میں اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی و سیاسی قیادت کو تسلیم کرنا شامل تھا۔ اسے قرآن میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے:
’’قل اطیعوا اللہ والرسول‘‘ (کہہ دو خدا اور رسول کی اطاعت کرو)
’’من یطع الرسول فقد اطاع اللہ‘‘ (جو رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ بلا شبہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے)
اُمّہ اپنے سربراہ سمیت وجود میں آچکی تھی مگر مکہ کی سماجی و سیاسی فضا امت اسلامیہ کے اعلیٰ تصورات کے نفاذ کیلئے سازگار نہ تھی۔ ان کی تنفیذ کیلئے ایک نئے سماجی و سیاسی ماحول کی ضرورت تھی۔
اپنی نبوت کے تقریباً تیرہ سال بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے مسلم سرداران اوس اور خزرج کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جنھوں نے آپ کو اپنے شہر آنے کی دعوت دی اور وعدہ کیا کہ وہ اسلامی احکامات کی پیروی کریں گے اور آپ کو دشمنوں خصوصاً قریش سے محفوظ رکھیں گے، جس کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لے گئے۔ یہاں آپؐ کو موقع اور فرصت میسر آئی کہ آپؐ نسبتاً سکون اور امن کے ساتھ حالات پر غور فرمائیں۔ آپؐ نے مسلمانوں، ہمدردوں اور اتحادیوں کو منظم کیا اور ایک ریاست کی بنیاد ڈالی جس کیلئے ایک دستور بنایا گیا۔ یہ بجا طور پر کہا گیا ہے کہ یہ ’’یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور‘‘ ہے۔ اس سے پہلے اس موضوع کی کتب کی نوعیت یا تو نصابی کتب کی تھی یا شہزادوں کیلئے ہدایت ناموں کی یا بعض علاقوں کی دستوری عمل داری کے تاریخی بیان کی ان میں سے کسی کو بھی کسی ریاست کے مختار دستور کی حیثیت حاصل نہ تھی جسے ایک ملک کے فرماں روا نے باقاعدہ طور پر جاری کیا ہو۔ ہمارا دستور اپنی نوعیت کا دنیا میں پہلا ہے۔
ابن ہشام نے دستور کا پورا متن محفوظ کر دیا ہے۔ ذیل میں دستور کا ترجمہ دیا جاتا ہے۔
دستورِ مدینہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے)۔
(1 یہ دستور محمد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (جاری ہوا) یہ قریش اور یثرب کے مومنوں اور مسلمانوں کے درمیان ہے اور جو ان کی ابتاع کریں ان کے ساتھ الحاق کریں اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔
(2 یہ تمام (گروہ) دوسرے لوگوں سے الگ امتِ واحدہ ہیں۔
(3 قریش کے مہاجرین اپنے موجودہ رواج کے مطابق باہم خون بہا ادا کریں گے اور اپنے قیدیوں کا فدیہ مومنوں کے عرف اور قسط کے مطابق ادا کریں گے۔
(4 بنو عوف، اپنے موجودہ رواج کے مطابق حسب سابق باہم خون بہا ادا کریں گے اور ہر ذیلی شاخ اپنے قیدیوں کا فدیہ مومنوں کے عرف اور قسط کے مطابق ادا کرے گی۔
(5 بنو ساعدہ اپنے موجودہ رواج کے مطابق حسب سابق باہم خون بہا ادا کریں گے اور ان کی ہر ذیلی شاخ اپنے قیدیوں کا فدیہ مومنوں کے عرف اور قسط کے مطابق ادا کرے گی۔
(6 بنو الحارث اپنے موجودہ رواج کے مطابق حسب سابق باہم خون بہا ادا کریں گے اور ان کی ہر ذیلی شاخ اپنے قیدیوں کا فدیہ مومنوں کے عرف اور قسط کے مطابق ادا کرے گی۔
(7 بنو جُشم اپنے موجودہ رواج کے مطابق حسب سابق باہم خون بہا ادا کریں گے اور ان کی ہر ذیلی شاخ اپنے قیدیوں کا فدیہ مومنوں کے عرف اور قسط کے مطابق ادا کرے گی۔
(8 بنو النجار اپنے موجودہ رواج کے مطابق حسب سابق باہم خون بہا ادا کریں گے اور ان کی ہر ذیلی شاخ اپنے قیدیوں کا فدیہ مومنوں کے عرف اور قسط کے مطابق ادا کرے گی۔
(9 بنو عمرو بن عوف اپنے موجودہ رواج کے مطابق حسب سابق باہم خون بہا ادا کریں گے اور ان کی ہر ذیلی شاخ اپنے قیدیوں کا فدیہ مومنوں کے عرف اور قسط کے مطابق ادا کرے گی۔
(10 بنو النبیت اپنے موجودہ رواج کے مطابق حسب سابق باہم خون بہا ادا کریں گے اور ان کی ہر ذیلی شاخ اپنے قیدیوں کا فدیہ مومنوں کے عرف اور قسط کے مطابق ادا کرے گی۔
(11 بنو الاوس اپنے موجودہ رواج کے مطابق حسب سابق باہم خون بہا ادا کریں گے اور ان کی ہر ذیلی شاخ اپنے قیدیوں کا فدیہ مومنوں کے عرف اور قسط کے مطابق ادا کرے گی۔
(12 مومن اپنے کسی زیر بار قرض دار کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑیں گے بلکہ عرف کے مطابق فدیہ اور دیت میں اس کی مدد کریں گے۔
(13 کوئی مومن کسی دوسرے مومن کے آزاد کردہ غلام کو اس کے خلاف اپنا حلیف نہیں بنائے گا۔
(14 مومنین متقین اپنے میں سے ہر اس شخص کے خلاف ہوں گے جو بغاوت کرے گا یا جو مومنین کے درمیان ظلم یا غداری یا عدوان یا عدوان یا فساد کا ارتکاب کرے گا ایسے شخص کے خلاف مومنین کے ہاتھ ایک ساتھ اٹھیں گے، خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
(15 کوئی مومن کسی دوسرے مومن کو کافر کے عوض قتل نہیں کرے گا اور نہ مومن کے خلاف وہ کسی کافر کی مدد کرے گا۔
(16 اللہ کا ذمہ ایک ہے؛ ادنیٰ ترین مسلمان بھی پناہ دے سکتا ہے ۔ مومنین دسروں کے مقابلہ میں ایک دوسرے کے مدد گار ہوں گے۔
(17 یہودیوں میں سے جو بھی ہماری اتباع کرے گا اسے مدد اور مساوات حاصل رہے گی جب تک اس سے مسلمانوں کو ضرر نہ پہنچے، نہ ہی وہ ان کے خلاف دوسروں کی مدد کرے گا۔
(18 مومنوں کی صلح ایک ہوگی اللہ کی راہ میں جنگ کے دوران کوئی مومن دوسرے مومن سے جدا گانہ صلح نہیں کرے گا۔ صلح صرف باہم مساوات اور عدل کے مطابق ہوگی۔
(19 جو دستہ ہمارے ساتھ شریکِ جنگ ہوگا ایک دوسرے کا پشت پناہ ہوگا۔
(20 (الف) مومنین ایک دوسرے کا بدلہ لیں گے جو اللہ کی راہ میں خون بہانے پر انھیں پہنچے گا۔ (ب) مومنین متقین احسن اور اقوم ہدایت پر ہیں۔
(21 کوئی مشرک قریش کو جان اور مال کی پناہ نہیں دے گا اور نہ کسی مومن کے خلاف ایسے کسی معاملہ میں دخل دے گا۔
(22 جو شخص کسی مومن کو ناحق قتل کرے گا شہادت موجود ہوگی تو اس سے قصاص لیا جائے گا، سوائے اس کے کہ مقتول کا ولی خون بہا پر راضی ہوجائے۔ مومنین کی پوری قوت قاتل کے خلاف ہوگی۔ ان کیلئے بجز قیام حد کے کچھ جائز نہ ہوگا۔
(23 کسی مومن کیلئے جو اس دستور کے مندرجات کا اقرار کر چکا ہو اور اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لاچکا ہو، جائز نہیں کہ وہ کسی فتنہ گر کی مدد گرے یا اسے پناہ دے گا تو وہ روزِ قیامت اللہ کی لعنت اور اس کے غضب کا مستوجب ٹھہرے گا اور اس سے کوئی فدیہ یا بدلہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
(24 جب کبھی تمہارے درمیان کسی معاملہ میں کوئی اختلاف پیدا ہو تو اس کا حوالہ اللہ عز و جل اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا ہوگا۔
(25 یہود مومنین کے ساتھ مل کر اخراجاتِ جنگ اٹھائیں گے جب تک وہ دونوں (دشمن کے خلاف) حالتِ جنگ میں رہیں گے۔
(26 بنو عوف کے یہود مومنین کے ساتھ ایک امت ہوں گے۔ یہود کیلئے اپنا دین ہوگا اور مسلمانوں کیلئے اپنا دین ہوگا۔ اس میں ان کے موالی اور وہ خود (شامل ہوں گے) البتہ جو ظلم اور غداری کا ارتکاب کرے گا وہ اپنے آپ اور اپنے خاندان کے سوا کسی کو ہلاکت میں نہیں ڈالے گا۔
(27 بنو النجار کے یہود کیلئے وہی شرائط ہوں گی جو بنو عوف کے یہود کیلئے ہیں۔
(28 بنو الحارث کے یہود کیلئے وہی شرائط ہوں گی جو بنو عوف کے یہود کیلئے ہیں۔
(29 بنو ساعدہ کے یہود کیلئے وہی شرائط ہوں گی جو بنو عوف کے یہود کیلئے ہیں۔
(30 بنو جُشم کے یہود کیلئے وہی شرائط ہوں گی جو بنو عوف کے یہود کیلئے ہیں۔
(31 بنو الاوس کے یہود کیلئے وہی شرائط ہوں گی جو بنو عوف کے یہود کیلئے ہیں۔
(32 بنو ثعلبہ کے یہود کیلئے وہی شرائط ہوں گی جو بنو عوف کے یہود کیلئے ہیں؛ البتہ جو ظلم اور غداری کا ارتکاب کرے گا وہ اپنے آپ اور اپنے خاندان کے سوا کسی کو ہلاکت میں نہیں ڈالے گا۔
(33 جفنہ، ثعلبہ کی شاخ ہیں وہ انہی کی حیثیت میں شمار ہوں گے۔
(34 (الف) بنو شطیبہ کیلئے وہی شرائط ہوں گی جو بنو عوف کے یہود کیلئے ہیں۔ (ب) وفا شعاری کو اپنایا جائے نہ کہ غداری کو۔
(35 ثعلبہ کے موالی انہی کی حیثیت میں شمار ہوں گے۔
(36 یہود کے گہرے دوست انہی کی حیثیت میں شمار ہوں گےْ
(37 (الف) ان میں سے کوئی بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اجازت کے بغیر جنگ کیلئے نہیں نکلے گا۔ (ب) کسی کو زخم کا بدلہ لینے سے نہیں روکا جائے گا۔
(38 (الف) اگر کوئی شخص کسی کی لاعلمی میں خوں ریزی کرے گا تو وہ اپنے آپ اور اپنے خاندان کو ہلاکت میں ڈالے گا بجز اس کے جس پر ظلم ہوا۔ (ب) اللہ اس (دستور) کے صحیح ترین مشمولات کا محافظ ہے۔
(39 (الف) یہود اپنے اخراجات برداشت کریں گے اور مسلمان اپنے اخراجات۔ (ب) اس دستور والوں سے جو کوئی جنگ کرے گا وہ اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ (ج) وہ ایک دوسرے کی خیر خواہی اور باہم مشاورت کریں گے۔ (د) وفا شعاری کو اپنایا جائے گا نہ کہ غداری کو۔ (ہ)کوئی شخص اپنے حلیف سے غداری نہیں کرے گا۔ (و) مظلوم کی بہر حال مدد کی جائے گی۔
(40 یہود مومنین کے ساتھ مل کر اخراجاتِ جنگ اٹھائیں گے جب تک دونوں (دشمن کے خلاف)حالتِ جنگ میں رہیں گے۔
(41 وادیِ یثرب اس صحیفہ والوں کیلئے حرم پاک قرار پائے گی۔
(42 پناہ گزین، پناہ دہندہ کی مانند ہوگا نہ کوئی اسے ضرر پہنچائے گا اور نہ وہ غداری کرے گا۔
(43 کسی عورت کو اس کے خاندان کی اجازت کے بغیر پناہ نہیں دی جائے گی۔
(44 (الف) جب کبھی اس صحیفہ والوں کے درمیان کوئی حادثہ پیش آئے یا کوئی تنازعہ اٹھ کھڑا ہو جس سے فساد برپا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کا حوالہ اللہ عز و جل کی طرف اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا ہوگا۔ (ب) اللہ اس صحیفہ کے مشمولات کا محافظ و ضامن ہے۔
(45 نہ قریش کو پناہ دی جائے گی اور نہ ان کو جو قریش کی مدد کریں گے۔
(46 یثرب پر حملہ آوروں کے خلاف وہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
(47 جب انھیں کسی صلح نامہ میں شرکت یا اس کی پابندی کیلئے پکارا جائے گا تو وہ اس میں شرکت کریں گے اور اس کی پابندی کریں گے اور جب وہ ایسے ہی کام کیلئے بلائیں گے تو یہ پابندی مومنین پر بھی ویسے ہی لازم ہوگی بجز اس شخص کے جو دین کی خاطر جنگ کرے گا۔
(48 ہر گروہ اپنے حصے کا ذمہ دار ہوگا جو اس کی جانب ہوگا۔
(49 (الف) الاوس کے یہود، ان کے موالی اور خود ان کیلئے وہی شرائط ہوں گی جو اس صحیفہ والوں کیلئے ہیں مع اس صحیفہ والوں کے ساتھ مکمل وفا شعاری کے۔ (ب) وفا شعاری کو اپنایا جائے گا نہ کہ غداری کو۔ (ج) کمانے والا جو کماتا ہے وہ اپنی کمائی کا ذمہ داری ہے۔ (د) اللہ تعالیٰ اس صحیفہ کے صحیح ترین مشمولات کا محافظ ہے۔
(50 (الف) یہ دستور کسی ظالم اور غدار کے آڑے نہ آئے گا جو کوئی باہر نکلے گا امن کا مستحق ہوگا بجز اس کے جو ظلم کرے گا یا غداری کرے گا۔ (ب)اللہ ان کا محافظ ہے جو وفا شعار اور پرہیز گار ہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم)
(جاری)

تبصرے بند ہیں۔