دشتِ بے عافیت

اسد محمد خاں

سیدہ خالدہ کاقافلہ عصرکے وقت تک حصارشہرمیں داخل ہوکر حاکم بنارس کے مہمان خانے میں ٹھہرچکاتھا۔ شہرکے غربی دروازے ہی پرخالدہ کوبتادیا گیا تھاکہ سلطان عادل شیرشاہ دوڈھائی پہرگزرے بنارس پہنچ چکے ہیں۔ بعد نماز مغرب سیدہ خالدہ کو سلطان کی روبکاری میں پیش کیاجائے گا۔ بس اتنا ہی وقت تھا کہ غسل کے بعد لباس تبدیل کرلیا جائے۔

خالدہ نے مغرب کی نماز ایوان کے پائیں باغ میں حاکم بنارس کے گھر کی عورتوں کے ساتھ پڑھی، دعاکے بعد وہ اٹھی اور سیاہ چادر لپیٹ کر فریاد کا محضر ہاتھ میں لیے حاکم کی رشتے دارعورتوں کے ساتھ ایوان میں داخل ہوگئی۔

ایوان کے ایک دالان کو جالی کاپردہ کھینچ کر باقی دربار گاہ سے الگ کردیاگیا تھا۔ خالدہ اور دوسری عورتیں اسی پردے دارحصے میں داخل ہوئی تھیں۔ دربارگاہ میں لوگ آنا شروع ہوگئے تھے۔ سلطان ابھی نماز میں مصروف تھے۔ تھوڑی دیر میں دربارگاہ عمائد وحکام اورعام رعیت سے بھرگئی۔ اچانک حاکم بنارس نے سروقدکھڑے ہوکر ایک باربلند آواز سے کہا ’’نگہ داراں، ادب داشت!سلطان عادل تشریف لاتے ہیں۔‘‘

پورادربارسروقد کھراہوگیا۔ پردے کے پیچھے سیدہ خالدہ اورمیزبان خواتین بھی باادب کھڑی تھیں۔

ململ کے سادہ پیراہن میں ملبوس شانوں پرسیاہ دباڈالے، سیاعمامہ باندھے، ایک ہاتھ میں تسبیح ہزاردانہ دوسرے میں نیام کی ہوئی شمشیر لیے سلطان شیرشاہ سوری آہستہ آہستہ چلتے ہوئے تشریف لائے۔ صدرمیں قالین پربچھی لکڑی کی بھاری سیاہ کرسی پرمتمکن ہوئے۔ کرسی کے عقب میں شناورخان غزلئی آکھڑاہوا۔ کسی تمہید یاشاہی خدم وحشم کودرمیان میں لائے بغیر سلطان شیرشاہ نے ایک بارقدرے بلند آواز میں کہا۔ ’’بسم اللہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ۔‘‘

ایوان میں بادشاہ کی اداس، مگرگونجتی ہوئی آواز سے سناٹاگہرا ہوگیا۔

حاکم بنارس نے پردہ کھنچے ہوئے دالان کی طرف رخ کیا، بلندآواز میں کہا،’’سیدہ خالدہ بنت سیدجمال الدین شاہ۔ یہ علم میں آیاہے کہ تمھیں خلیفہ زماں حضرت سلطان عادل بادشاہ اقلیم ہند کی روبکاری میں فریادگزارنی ہے، سویہ وقت ہے فریاد گزارو، حضرت معدلت گسترسلطان عادل شیرشاہ سوری بادشاہ اقلیم ہند تخت عدالت پر متکمن ہیں اورگوش برآواز ہیں۔ ‘‘

خالدہ کادل ایک بارزورسے دھڑکا، یہ وہ لمحہ تھا، جس تک زندہ پہنچنے کے لیے خالدہ نے تلواروں کے زخم کھائے تھے۔ بھوک، خوف، بے چارگی اورذلت کاسامناکیا تھا، اس کاگھوڑا خوداس کی باندھی زین تلے بے جان ہواتھا۔ خالدہ نے اپنے ہاتھ سے کم سے کم ایک دشمن کوجہنم کی راہ بھیجا تھا۔ ایک سے زیادہ کوزخمی کیاتھا، یہاں تک پہنچنے کے لیے ہی اس نے سب دعائیں مانگی تھیں، یہ وہ مجلس تھی جس کے انتظا میں خالدہ کتنی راتوں سے جاگ رہی تھی۔

سلطان اس کی آوازسننے کوہمہ تن گوش تھے۔ ایک سچ بننے والی سماعت صدف کی طرح اس کے نیساں لفظوں کی منتظر تھی۔

اس نے گہراسانس لیا، زیرلب درود پڑھااورجالی کے پاردیکھتے ہوئے سلطان شیرشاہ کی پیشانی پرنظریں جماکر اس نے بلند آواز میں کہاں، ’’باسمہ سبحانہ!‘‘

بادشاہ اقلیم ہندکی پیشانی جس پرسجدوں کانشان چمکتاتھا۔ خالدہ کو اپنے باپ سیدجمال کی پیشانی لگی، سواس نے غصے میں بھری باادب بیٹی کی طرح اپنے نرم خوباپ کومخاطب کیا۔

’’سلطان ذوالعدل !یہ جو میں بیان کرنے والی ہوں، اتناجانتی ہوں کہ یہ واقعہ شیرشاہی قلم روکے باہرہوا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جس شقی نے یہ ظلم توڑا، وہ تخت آگرہ کاباج گزار ہے یانہیں۔ ۔ ۔ نہیں معلوم کہ وہ مملکت کاحلیف ودوست ہے یادشمن۔ ۔ ۔ ۔ یامحض ایک بے تعلق ہمسایہ ہے۔ میں شاہوں کے اختیار اوران کی مجبوریوں سے واقف ہوں، شاید اس لیے کہ میرے باپ نے مجھے علم تواریخ سے بہرہ مند ہونے دیا۔ میں ادب کے ساتھ استدعاکرتی ہوں کہ اگررائے سین کا حکمراں چندیری کانگراں حاکم ’پورن مل‘ پسرراجا سلہدی پوربیاتخت آگرے کادوست اورحلیف ہے توازراہ غریب پروری مجھے بے نواکومعاف کردیا جائے۔ کیونکہ شایدمیں ایک دوست کی شکایت لے کرآئی ہوں۔ ‘‘

خالدہ لمحے بھرکو خاموش ہوگئی۔ شیرشاہ نے سراٹھایا، پردے کی سمت نظرکی اور اسی طرح گہری اداس آواز میں کہا۔

’’ماشاء اللہ! میں ہرمسلمان زادی کواتناہی بے خوف دیکھنا چاہتا ہوں۔ آگے کہو۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ بھول جائو کہ کون کس کا دوست یادشمن ہے۔ میں دس بیٹوں کاباپ اورچالیس چہیتے سالاروں کا سرخیل ہوں، جنھیں اپنے بیٹوں کی طرح عزیز رکھتا ہوں، لیکن اگران میں سے کسی ایک کے بھی ظلم وزیادتی کی خبرمیرے کانوں تک پہنچی توواللہ العظیم اپنی اس تلوار سے عدل نافذ کروں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آگے کہو۔ ‘‘

’’حضرت سلطان عادل’’خالدہ نے کہا، مگراب اس کی آواز میں وسختی نہ تھی۔ سلطان کے شفیق اورمضبوط لہجے نے اسے نرم کردیاتھا۔ ’’ہند گانِ عالی!میں ناچیز یہ اصول جانتی ہوں کہ سلاطین عالم اپنی سرحدوں کے بیچ اٹھنے والے قضیوں ہی کے مقدمات سماعت کرتے ہیں، پھربھی میں ناچیزاپنے سلطان کوا یسے جرم کی خبردے رہی ہوں جوقلم روسے باہرسرزد ہوا ہے، وہ اس لیے کہ میں خاکساردل کی سچائی کے ساتھ یقین رکھتی ہوں کہ سلطان ذی جاہ کالقب’’خلیفۂ زماں ‘‘ کوئی آرائشی لقب نہیں۔ حضرت شیرشاہ سوری فی الاصل زمان موجود میں مسلمانوں کے خلیفہ ہیں، وہ ملت پرگزرنے والی ہرابتلا کاحال سنیں گے خواہ وہ مصیب روے زمین پرکہیں بھی ٹوٹی ہو، حضور دادرسی فرمائیں گے، انشاء اللہ!‘‘

شیرشاہ نے نرمی سے کہا۔ ’’تائید خداوندی سے ایساہی ہوگا۔ سیدزادی، آگے کہو۔ ‘‘

اس بارسلطان آہون کے لہجے میں وہ نرمی اورگداز تھا جورات پچھلے پہرکی کسی دعامیں ہوتاہے۔ یہاں پھر خالدہ چکرا کررہ گئی، اگرشفقت کی یہ کھنک سیدجمال کے لہجے سے نہیں آئی، توپھر کہاں سے آئی ہے؟یہ سامنے سیاہ کرسی پرسیاہ عمامے اورعبامیں شمشیر کے سبزمخملیں نیام پر پنجہ جمائے، تسبیح پھیرتاہوابزرگ روہیلہ میرابادشاہ ہے۔ یہ ترکمانی سیدزادہ جمال الدین شاہ نہیں ہے، میراباپ نہیں ہے یہ پھرکیوں ؟ میرادل کیوں چاہتا ہے کہ میں کسی ڈری ہوئی بچی کی طرح اپنے خوف، اپنی سب تکلیفیں یک لخت بیان کردوں اوربڑھا چڑھا کر بیان کروں، تاکہ جواب میں شفقت ومہربانی اورتسلی بھی اسی نسبت سے بڑھ چڑھ کر وصول ہو۔

لڑکی دیرتک خاموش رہی توشیر شاہ سوری نے مہربانی کے ساتھ اسے حوصلہ دیا، فرمایا،’’بولو دخترمن!اپنی بات کہو۔ ‘‘

گریے نے خالدہ کو جیسے گلے سے پکڑلیا۔ سلطان عادل نے اسے ’’دخترمن‘‘کہا،یعنی میری بیٹی۔ سلطان شیرشاہ نے اس بے نوایتیم لڑکی کوبیٹی کہہ کر کیاپکارا۔ سمجھو اس کے ہزارزخموں پر مرہم رکھ دیا۔ خالدہ نے گہراسانس لیا، مٹّھیاں بھینچ لیں۔ تن کر کھڑی رہی۔ آہستہ سے کھنکار کرگلا صاف کیا، حالانکہ یہ آداب دربارکے خلاف تھا، پھررکتی ہوئی، کبھی پرعزم، کبھی ٹوٹتی آوازمیں بولی، ’’معدلت گستر! میں بدنصیب اپنی پھوپھی، پھوپھااور ان کے نوعمر بچوں کے ساتھ چندیری کے علاقے سے گزررہی تھی کہ یہ واقعہ پیش آیا۔ پھوپھا اورپھوپھی چونکہ میرے لیے ماں باپ کی جگہ تھے۔ انھوں نے مجھے ڈھائی سال کی عمر سے پالاتھا۔ دن میں دوپہرکے وقت ہماری سواری کی بیل گاڑیاں کھول دی گئیں۔ باربرداری کے جانور اورمحافظ آرام کرتے تھے۔ میں خاکسار اس خیال سے کہ کارندے سائے میں پڑے سوتے ہیں، مناسب وقت ہے اپنے گھوڑے کو مشقت دے لی جائے، پڑائوسے کچھ دورمیدان میں گھوڑا پھرانے لگی۔ بزرگ عالی مرتبت! مجھے میدان میں پہنچے کچھ دیر ہوئی تھی کہ میں نے ایک تیز رفتارجنگی رتھ جس پر کوئی بااختیار راج پوت سوار تھا، میدان میں آتے دیکھا۔ میں نے راسیں کھینچ لیں اورپڑائو کی طرف چلی۔ رتھ بان نے مجھے دیکھ کراشارہ کیا، اس بااختیار سے کچھ کہااور اس سے قبل کہ میں پڑائو کارستاپکڑتی، رتھ والوں نے میراراستا روک دیا۔ ایک پیش قبض کے سوامیرے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا۔ میں نے پکارکراپنے گھر والوں، محافظوں کوخبردار کیا۔ مگررتھ والوں کے آدمی آپہنچے تھے۔ ایک معمولی آویزش بڑھ کر لڑائی کی صورت اختیار کرگئی۔ میں زخمی ہوئی، اس بااختیار کو زخمی کیا۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ عالی جاہ !میری پھوپھی، پھوپھا، ان کانوعمرلڑکا کم سن بیٹیا، ہمارے محافظ، سب مارے گئے۔ پتا چلااس بااختیار نے راجاپورن مل نے، ایک پورے جیش کے ساتھ ہم مسافروں پرحملہ کیا تھا۔ مجھے اورمیری پھوپھی زادکو جس کی عمرصرف بارہ سال تھی۔ گاڑی میں بندھواکر چندیری سے رائے سین پہنچوادیا گیا اورسلطان عادل! رائے سین میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

یہاں خالدہ کی آواز نے ساتھ چھوڑ دیا، وہ چاہتی تھی کہ درباعادل میں خودپر قابورکھے، اس ضبط واحتیاط سے وہ لرزنے لگی۔ پاس کھڑی خاتون نے جوحاکم بنارس کی حرم تھی، پشت پر ہاتھ رکھ کر خالدہ کوحوصلہ دیا۔ خالدہ نے پھر کھنکارکر گلا صاف کیا اور پھرخجل ہوگئی کہ یہ بے ادبی اس سے پہلے بھی سرزدہوچکی تھی۔ سلطان ذی چشم جانتے تھے کہ یہ باتمیز لڑکی خود سے جنگ کررہی ہے، ڈرتی ہے کہ بھردربارمیں کہیں رونہ پڑے۔

اورتب سلطان شیرشاہ نے ’’یاحفیظ یاقادر‘‘ بلندآواز سے اس طرح کہا جیسے کسی نوعمر بچے کویادکراتے ہیں۔ خالدہ نے دل ہی دل میں دہرایا،’’یاحفیظ یاقادر‘‘ اورایک ٹھنڈک سی صبروتوانائی سی اس کے سراپا میں دوڑگئی۔ خالدہ جیسے پھرسے دربار عدل میں آگئی۔

اس نے عرض کیا،’’رائے سین میں عالی جاہ!ہماری اسیری کی پہلی شب جب میری پھوپھی زادکوکسی بہانے سے میرے پاس سے ہٹالیاگیااور۔ ۔ ۔ ۔ اورراجہ کی خواب گاہ کی طرف لے جایاگیا تو اس معصوم نے اس نوعمری میں بھی کسی پیش بینی سے آگاہ ہوکراٹاری سے نیچے کھڈمیں چھلانگ لگادی، میں نے۔ ۔ ۔ ۔ عالی جاہ!میں نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

دربارعدل میں سناٹاگرج رہاتھا۔ خادمِ خاص شناورخان غلزئی نے کان لگاکرسنا، سلطان شیرشاہ سوری تسلسل کے ساتھ انا للہ واناالیہ راجعون پڑھ رہے تھے۔ شناورنے اپنے سلطان کی تقلید کی، پھراس نے زیرلب اس معصوم کے لیے فاتحہ پڑھی۔ ’’یاحفیظ یاقادر۔ یاحفیظ یاقادر‘‘ خالدہ نے دل ہی دل میں کئی بار دہرایا اورحوصلے کے ساتھ اپنا بیان جاری رکھا۔ ’’ عالی جاہ میں نے خود کواس دوران اتنازخمی کرلیاتھا کہ پورن مل پوربیانے مجھے عورتوں کے ایک خاص بندی خانے میں ڈلوادیا۔ وہاں پہنچایاجاناایک بدنصیبی تھی، لیکن اے معدلت گستر! میں اسے اپنی کم نصیبی نہیں سمجھتی کہ بندی خانے لے جائی گئی اوروہاں کے معاملات سے آگاہ ہوئی۔

’’بندگانِ عالی‘‘ وہ عقوبت گاہ جہنم کانقشہ ہوگی۔ میں نے وہاں سیکڑوں ہزاروں بدنصیب عورتیں دیکھیں جوہرمذہب وملت سے تعلق رکھتی تھیں اورمجھے عالی جاہ دوہزارمسلمان زادیوں کے بارے میں معلوما ت حاصل ہوئی، جنھیں عالم پناہ راہ کے دربارمیں رقص کرنے پرمجبور کیاجاتا ہے۔ ‘‘

ایسالگاکہ دربارعدل نہیں، کوئی کھلیا ہے، جہاں سے سیکڑوں چڑیاں بھرامارکراڑی ہیں۔ ایک لمحے رک کر دربارکے سناٹے میں سیدہ خالدہ نے کہا،’’عالم پناہ! میں نے سنا، راجہ کی شرمناک محفلوں میں انھیں حجاب سے محروم کیاجاتا ہے اور ناچنے پر مجبورکیاجاتا ہے اورعالم پناہ !وہ بدنصیب میری خواہر کی طرح کہں سے کود کرمربھی نہیں سکتیں۔ ‘‘

اوراب احتیاط وضبط کادامن اس نوعمر باہمت لڑکی کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ہچکیاں نکل گئیں، مگراس نے اپنا ہاتھ منہ پر مضبوطی سے جمالیا۔ وہ بے آواز رورہی تھی۔ سلطان شیرشاہ نے پردے سے نظریں ہٹاکر فرش پرمرکوز کردیں۔ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے فرمایا۔

’’سیدانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صبرکرو۔ خداکی ایک صفت جلیل ’’قہار‘‘ بھی ہے۔ ۔ ۔ ۔ حکم ربی سے ان معصوموں کاانتقام لیاجائے گا، صبر کرو۔ ‘‘

سیدہ خالدہ، جوصبر کی عادی تھی، بالآخرخاموش ہوگئی۔

سلطان ذوالعدل شیرشاہ سوری نے فرمایا،’’مجھے بتایاگیاہے عزیزو،کہ تم نے فریاد کا محضر تحریر کیا ہے؟ پیش کرو، میں سب حال تفصیل سے بھی جاننا چاہوں گا۔ ‘‘

خالدہ نے مضبوطی سے تھاما ہوامحضر حاکم بنارس کی رشتے دارخاتون کے حوالے کیا، اس نے بڑھ کر پردے کے متصل کھڑی مسلح جشن کے سپردکیا جوپردے کے باہر کسی خادم کودے آئی اور اس طرح دست بہ دست یہ محضرت سلطان عادل کے ہاتھوں میں پہنچا۔

سلطان محضر کھول کرملاحظہ کیا۔ پاکیزہ فارسی خط میں بہت سالکھاتھا اوراس لکھت پر جا بہ جا پانی کی بوندیں پڑنے سے روشنا ئی پھیل گئی تھی۔

لکھنے ولای نے یہ محضر آنسوئوں سے لکھا ہے!سلطان نے پردے کی طرف دیکھااورایک باریا حفیظ یاقادرپڑھ کر پھونک دیا۔

یعنی یہ گلہ بان اپنے گلے کو دعائوں کی عافیت میں دے رہاتھا، پھراس کاہاتھ شمشیر کے قبضے کی طرف بڑھا۔ وہ جانتا تھا کہ دشت کے شغال دعائوں بددعائوں سے نہیں ضربت شمشیرسے قابوآتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔