عصمت کے افسانوں میں بیانیہ کے مسائل

شہناز رحمٰن

عصمت چغتائی، اپنے بے باک لب ولہجہ، طنز آمیز زبان و بیان اور سماج کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی کے باعث اردو افسانہ نگاروں میں ممتاز و منفر د حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں نسوانی آوازوں کی تلاش،عورت کی نفسیات، جنسی استحصال اور خاندانی زند گی کے نقوش وغیرہ کا ذکرتوچند مضامین میں کیا گیا ہے۔ لیکن ان کی افسانہ نگاری پر تحریر کردہ اکثرمضامین میں صرف جنسی رجحان کو غالب عنصر کے طو ر پر زیر بحث لا یا گیاہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت جب ایک صدی مکمل ہو چکی ہے اور عصمت کو ایک عہد ساز مصنفہ کے طور پرتسلیم کیا جارہا ہے تب بھی ہمارا قلم اسی ایک نقطہ یعنی جنسی رجحان پر گردش کر رہا ہے ان کے افسانوں کی تفہیم کاایک بڑا مسئلہ ہنوز جو ں کا توں ہے۔ اور وہ ہے بیا نیہ کا مسئلہ۔ عصمت کے سنجیدہ قارئین کو بارہا اس کشمکش سے دو چار ہونا پڑتا ہے اس کے باوجود چند ایک کو مستثنی کر کے کسی نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ لہٰذا  اس مضمون میں ’’ عصمت کے افسانوں میں بیانیہ کے مسائل ‘‘کو محوربنا کر افہام و تفہیم کی کوشش کی گئی ہے۔

  بیانیہ کیا ہے ؟اس کا ایک آسان سا جواب ہے واقعہ کا بیا ن بیا نیہ کہلاتا ہے۔ یہ بیا ن عام بول چال سے کس قدر مختلف ہے اور واقعہ میں افسانویت پیدا کرنے کے لیے کن فنی وسیلوں کی ضرورت ہوتی ہے ؟بیا نیہ کی تفہیم کے لیے ان تما م نکات سے واقفیت ضروری ہے۔ افسانے کے حوالے سے جب قصہ یا واقعہ زیر بحث آتا ہے تو اس میں زبان کی نوعیت اوربیان میں معروضیت کا خاص خیال رکھنا ہوتا ہے۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ افسانے میں بیان کنندہ کی مداخلت و ترجیحات اور ذاتی نقطہ نظر کا ہونا بھی معیوب سمجھا جاتاہے۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ عصمت کو بیانیہ پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ بیا نیہ کے تمام عناصر پر ان کی گرفت مضبوط ہے لیکن جہاں قصہ بیان کرنے والے کو دریافت کرنے کی بات آتی ہے وہیں پر تفہیم کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ کم و بیش عصمت کے تما م افسانے واحد متکلم کے صیغے میں بیا ن ہوئے ہیں۔ اسی لیے یہ غلط فہمی بھی عام ہو گئی تھی کہ عصمت نے اپنی زندگی کے واقعات کوا فسانے میں بیان کر دیا ہے۔ ان کے افسانوں میں واحد متکلم کی مستقل مداخلت کی وجہ سے افسانہ کی معروضیت اثر انداز ہوتی ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی کی رائے ملاحظہ ہو۔

’’اس بات سے اختلاف کی گنجائش بہت کم ہے کہ عصمت کا بیانیہ، ان کی زبان اوراسلوب بیان کی سحر کاری کے سبب بیانیہ کے دوسرے پہلووں کی طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا۔ تاہم یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ عصمت کے بیشتر افسانوں میں راوی کی حیثت واحد متکلم یا حاضر راوی کی ہوتی ہے۔ اور جہاں کہیں واحد متکلم، افسانہ کا راوی بن کر آتا ہے، وہاں بیانیہ کے قابل اعتبار ہونے کے ساتھ ساتھ کرداروں کی اپنی آزادی کے سلب ہونے کے امکانا ت بھی بڑھ جاتے ہیں۔ عصمت کے افسانے میں راوی کی موجودگی، بیان کردہ واقعات پر قاری کے اعتبار میں یقیناً اضافہ کرتی ہے۔ لیکن افسانہ نگار سے یہ توقع رکھنے میں بھی قاری حق بجانب نظر آتا ہے کہ وہ حاضر راوی کا فائدہ اٹھا کر دوسرے کرداروں کی شخصی اور انفرادی پہچان اور ارتقاء میں دخل انداز نہ ہو گا۔ ‘‘۱؎

 عصمت کے افسانوں میں مصنف کی مداخلت کی دوصورتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک تو وہ افسانے جو صیغہ واحد متکلم میں بیان کیے گئے ہیں۔ جسے عموماًعصمت کی ذاتی زندگی کے عکس سے مماثل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس نوع کے بیانیہ میں یہ مسئلہ اس لیے پیش آیا کہ واحد متکلم والے بیشتر افسانوں کے راوی میں یکسانیت نظر آتی ہے۔ اور وہ ہے ایک ایسی لڑکی جو شوخ، گستاخ پھوہڑ، مغرور اور بعض دفعہ دھول دھبے میں اٹی ہوئی ہوتی ہے۔ مثلاً ’’ گیندا‘‘میں توایسا گمان ہوتاہے کہ ان کے شاہکار ناول ’’ٹیڑھی لکیر کی’’ شمن ‘‘اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ آموجود ہوئی ہو۔ اسی طرح ’’میں چپ رہا ‘‘کے راوی کی شوخی کا ایک منظر ملاحظہ ہو جس میں وہ دو خواتین سے محو گفتگوہے۔

 ’’بات یہ ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے صنعت بڑھ رہی ہے نئے نئے کارخانے لگ رہے ہیں فیکٹریاں چل رہی ہیں۔

  ارے تو اس کا مطلب ہے ملک کی مالی حالت سدھر رہی ہے کچھ سالوں میں ہندوستان بھی ماشاء اللہ ولایت اور امریکہ سے ٹکر لینے لگے گا۔ مجھ سے اب چپ نہ رہا گیا اور بول پڑی۔

تھوڑی دیر کے لیے دونوں سناٹے میں رہ گئیں، جیسے دخل دو معقولات سے چڑ گئیں۔

ٓآپ ہندو تو نہیں معلوم ہوتیں ؟انھوں نے بڑی ہی نرمی سے پوچھا۔

شکر خدا کا۔ مجھے اسی وقت چھنیک آگئی۔

عیسائی ہیں ؟پتہ نہیں میری چھینک سے عیسائیت کیوں کھنکتی نظر آئی۔

’’ایک گلاس پانی دیں گی۔ ‘‘میں نے نہایت چھوٹا سا کاغذکا کپ بڑھایا اور حضرت عیسیٰ کے دار پر لٹکے ہوئے خون چکان جسم کو اجاگر کرنے لگی۔ ‘‘۲؎

   اسی طرح افسانہ’’ خدمت گار ‘‘کے راوی کی باتوں سے بظاہر بہت ہی مغرور مگر حقیقتاایک نرم دل لڑکی کی تصویر سانے آتی ہے۔ جسے اپنے ڈرائیور سے بار بار الجھنے میں مزا آتا ہے۔ ایک طرف تو اس کے گندے کپڑوں، میلے ہاتھوں اور ان پڑھ ہونے کا طعنہ ہر وقت سناتی رہتی ہے اور دوسری طرف اس کی غربت اور معصومیت سے ہمدردی بھی رکھتی ہے۔ عصمت لکھتی ہیں :

’’میری عادت ہے کہ بہادر کی دلیوں سے خواہ کتنی ہی قائل ہو جاوں مگر اپنی ہی کہتی رہتی ہوں۔ میں نے بات ٹالنے کے لیے کہا ’’تم تو جاہل لٹھ تم سے کون مغز مارے۔ پڑھو لکھو تو دنیا میں قدر بڑھے۔ ‘‘

’’تو پھر آپ پڑھاتی کیوں نہیں ‘‘اس نے ضد کی ’’دیکھئے پھر میری بھی قدر بڑھ جائے گی۔ ‘‘

اس کے علاوہ موقع بہ موقع ڈرائیور کے لیے استعمال کیے جانے والے دوسرے جملے جیسے کہ :۔

’’تم نوکر ہو اور کرسی پر چڑھ کر بیٹھتے ہو۔ ‘‘

’’تو کیوں گدھا پن کرتے ہو تم۔ ‘‘

’’تم پھر اتنے گندے کیوں رہتے ہو۔ ذرا اپنے ہاتھ تو دیکھو جیسے ’’بیل کے کھر ‘‘۔ ۳؎

لیکن رفتہ رفتہ یہ اکڑ پن ملائمت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اس کی تمام تر غلطیوں کو نظر انداز کر کے ایک اچھا دوست تسلیم کرنے کو تیار ہو جاتی ہے۔ اور کہتی ہے۔

  ’’تمہیں رنجیدہ دیکھ کر میرا دل دکھتا ہے ’’بہادر ‘‘۔ میں نے اس کے سر کو سہارا دے کر کہا۔ ۴؎

 اس طرح چند افسانوں سے منتخب کیے گئے اقتباسات سے مکمل صور ت حال کا اندازہ لگا نا مشکل ہے لیکن ان کے ذریعہ بیانیہ میں راوی کی یکسانیت اور نوعیت کی توضیح ہو سکتی ہے۔

عصمت کے بیانیہ میں ان کی زندگی کا عکس نظر آنا کو ئی انہونی بات نہیں لیکن یہ فرض کر لینا کہ واحد متکلم یقینا عصمت ہی ہیں تو یہ گمان مسائل کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ پچھلے چند برسوں میں جب سے افسانہ کی قرات کے روایتی طریقے سے ہٹ کرافسانوی بیانیہ پر توجہ دی گئی ہے تب سے واحد متکلم کے سلسلے میں پیدا ہونے والی بد گما نیوں کا ازالہ ہو گیا ہے۔ علم بیانیات (Narratology)کے ماہرین نے بیانیہ کے اس پہلو پر کہ افسانہ بیان کرنے والا کون ہوتاہے، راوی سے کیا مرادہے ؟افسانے کے حقیقی اور غیر حقیقی کی تفریق کے کیا معنی ہیں وغیرہ جیسے مسائل کا حل فراہم کرنے کی سعی کی ہے۔ پروفیسرقاضی افضال حسین نے ان نظریات و مباحث سے استفادہ کر کے اپنے مضمون ’’راوی، بیانیہ اور قاری ‘‘میں بیانیہ کے مسائل کو واضح کرتے ہوئے راوی کی نوعیت اور اس کے اختیار کو بھی بتانے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں :۔

  ’’افسانہ نگار واقعہ تعمیر کرتے ہوئے، واقعہ بیا ن کرنے والا ایک راوی بھی تشکیل دیتا ہے، جو مصنف سے الگ اپنی شناخت رکھتا ہے اور بیا نیہ کے اوصاف و امتیازات اسی راوی کے نقطہ نظر اور اس کی ترجیحات سے براہ راست مر بوط ہوتے ہیں۔

 ’’دراصل واحد متکلم راوی متن کا کوئی کردار ہوتا ہے اور اس راوی کے نقطہ نظر سے بیانیہ کے اوصاف و امتیاز کا تعین ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہر نوع کے راوی اور اس کے بیانیہ میں ایک جدلیا تی رشتہ ہوتا ہے۔ راوی کا نقطہ نظر اس کے بیا نیہ کا تعین کرتا ہے اور بیانیہ خود راوی کے نقطہ نظر کی تشکیل کرتا ہے۔ یا ایک مخصوص نقطہ نظر کی توثیق کرتا ہے۔ ‘‘۵؎

دوسری صورت وہ ہے جس میں بظاہر تو کہانی کا آغاز غائب راوی سے ہوتا ہے۔ لیکن صرف ’’ میں ‘‘کی صورت میں ایک ایسا کردار سامنے آتا ہے جس کا افسانے کے نمائندہ کرداروں سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اور پھر وہی ’’میں ‘‘دوسرے کرداروں کا تعارف اور ان سے وابستہ واقعات کواپنے طریقہ سے بیا ن کرتا ہے۔ بعض دفعہ مداخلت کیے بغیر صرف افسانہ کے کرداروں سے اپنار شتہ واضح کر کے چند طنزیہ فقروں اور محاوروں کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ تاہم اس کے تمام تر حرکات و عوامل سے راوی  ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ لیکن معاملہ اس سے مختلف ہوتا ہے وہ راوی نہیں بلکہ افسانہ میں بحیثیت ایک کردار کے ہوتا ہے۔ مثلاًافسانہ ’’امر بیل ‘‘میں شجاعت ماموں کے شادی کے مسئلہ سے افسانہ کا آغاز ہوتا ہے، پھر درمیان میں آنے والے سارے کرداروں سے بیان کنندہ کا کوئی نہ کوئی رشتہ ضرورسامنے آتا ہے۔ اس لیے افسانہ میں وہ تائثر پیدا نہیں ہوتا جو غائب راوی (ہمہ داں )والے افسا نہ میں ہونا چاہیے۔ بھابھی، عشق عشق عشق، بڑے شرم کی بات ہے وغیرہ اسی قبیل کے افسانے ہیں۔ ان افسانوں سے چند سطریں ملاحظہ ہوں جن میں راوی بحیثیت کردار موجود ہے۔

 ’’سمجھ میں نہیں آتا کہانی کہاں سے شروع کروں ‘‘             (اپنا خون )

 ’’میں نے سجے سجائے کمرے پرایک ناقدانہ نظر ڈالی اور ذرا پرے ہٹ کر ایک چوکی پر بیٹھ گئی جسے میں نے چادر منڈھ کر نہایت فیشن ایبل دیوان میں تبدیل کر دیا تھا۔ ‘‘                   (اف یہ بچے )

  ’’بہن خدا کا واسطہ بتائیے کیا کروں ‘‘؟ سکینہ بہن نے آنکھوں میں آنسو بھر کے کہا۔

 ’’بھئی میری تو یہی رائے ہے کہ فرحت کو طلاق دلوا دیں۔ ‘‘   (اللہ کا فضل )

  کیا دل پر وحشت تھی اب بھی سوچتی ہوں تو پھریرا سی آنے لگتی ہے۔ انور کو کن مصیبتوں سے سنبھالا ہے کہ بس میں ہی جانتی ہوں اس گناہ میں میری مدد بھی شامل تھی۔ ‘‘                        (اللہ کافضل )

  ابو الکلام قاسمی نے اپنے مضمون میں (جس کا ذکر پہلے آچکا ہے ) بیانیہ کے ایک اہم پہلو کردار نگاری پربحث  ہے جو کہ کئی معنوں میں بصیرت افروز ہے کیوں کہ اس مضمون میں انھوں نے ’’ راوی بحیثیت کردار‘‘ والے افسانوں کے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ـ:

  ’’خود نوشت کا یہ انداز عصمت کے زیادہ تر افسانوں کو اس حد تک واقعاتی بنا دیتا ہے کہ ان کے افسانے پڑھتے ہوئے بسا اوقات ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم کوئی افسانہ پڑھ رہے ہیں۔ یہاں عصمت کے فن کے بارے میں ایک بہت اہم مسئلہ سامنے آتا ہے کہ عصمت اپنے افسانوں میں حقیقت کا کوئی التباس پیدا کرنا چاہتی ہیں کہ حقائق یا واقعات، بجائے خود ان کے افسانوں کا مترادف بن کر سامنے آتے ہیں۔ ۔ ۔ تاہم اس بیان سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ عصمت کی پوری افسانہ نگاری پر یہ بات صادق آتی ہے۔ ‘‘   ۶؎

  مندرجہ بالا اقتباس میں جس مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ صرف عصمت کے یہا ں ہی نہیں بلکہ کم و بیش ہر افسانہ نگار کے یہاں واحد متکلم راوی کے ذریعہ بیان کیے گئے افسانہ میں ہوتا ہے۔ کرشن چند، بیدی، منٹووغیرہ کے یہاں بھی واحد متکلم راوی والے افسانوں میں ایسی صورتیں سامنے آتی ہیں۔ کرشن چند کے افسانے ’’گرجن کی ایک شام ‘‘سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

’’میں چل رہا تھا اور سوچ رہا تھاکہ جگدیش نہ تو لارڈ بائرن کی طرح لنگڑا ہے اور نہ ڈان جوان کی طرح حسین پھر بھی یہ کمبخت عورتیں کیو ں اس پر اتنی جلدی فدا ہو جاتی ہیں۔ کیا ا س دنیا میں ہم ہی مہاتما گاندھی رہ گئے ہیں۔ آخر ہمارے پہلو میں بھی ایک حساس دل ہے۔ سوز، تڑپ، شعریت سب کچھ ہے۔ مگر اس پر بھی سب ہمیں ایک گھن چکر سمجھتے ہیں۔ آخر یہ تفاوت کیوں ؟جگدیش میں ایسے کون سے لعل لگے ہیں۔ ۔ ‘‘۷؎

 کرشن چند کے اس افسانہ میں واحد متکلم کے علاوہ دوسرے کرداروں میں جگدیش، ریوا اور ذی شی بھی ہیں۔ سب کے بارے میں وہ قاری کو آگاہ کرتا ہے۔ افسانہ میں واحد متکلم کے احوال پڑھتے ہوئے بار بار ذہن مصنف کی طرف جانے لگتا ہے۔ اسی لیے راوی اپنی ہر بات پر اعتمادی سے کہنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے مختلف طریقے بھی اختیار کرتا ہے۔ کیوں کہ متکلم راوی کو خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے کسی خیا ل یا بیانیہ پر قاری یقین نہ کرے۔ کیوں کہ متکلم راوی پر عائد ہونے والی پابندیوں میں سے ایک پابندی یہ بھی ہے کہ وہ صرف اپنے ذاتی مشاہدے و تجربے کو بیان کرسکتا ہے۔ کسی کردار کے محسوسات وجذبات اور داخلی خواہشات کو بیان کرنا اس کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ یہ حد بندی راوی کے لیے بڑی مشکل پیدا کرتی ہے، بہت ہی احتیاط و چابکدستی سے کام لینا ہوتا ہے تب جا کر وہ کسی حد تک اس میں کامیاب ہوتا ہے ۔ لیکن اس معاملہ میں عصمت کے بیانیہ کا امتیاز یہ ہے کہ ان کے افسانوں کا راوی وفور جذبات میں کبھی یہ حد پار نہیں کرتا اوروہ خود بھی بڑی محتاط ثابت ہوئی ہیں۔ مثال کے لیے ان کے افسانے’’ ایک بات، امر بیل، بھابی، عشق عشق عشق، گیندا، اللہ کا فضل، اندھا یگ، ایک شوہر کی خاطر، بچھو پھوپھی، بہو بیٹیاں وغیرہ کا بغور مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ افسانوں میں کرداروں کے اعمال و افعال کے تما م حوالے خارجی اور مشاہداتی ہیں۔ نادر تشبیہا ت، رمز و کنائے کے ذریعہ ان میں رنگ آ میزی کی گئی ہے۔

 نقطہ نظر افسانے کے تشکیلی عناصر کا ایک اہم جزء ہے اس کے تحت مصنف کے لیے مداخلت کی گنجائش نکل آتی ہے، اسے کرداراور واقعہ پر تبصرہ کرنے کی کھلی آزادی مل جاتی ہے۔ وہ موقع بہ موقع اپنے نظریاتی یا فکری موقف کا اظہاربھی کر سکتا ہے۔ لیکن اس آزادی کا بے محا با اظہار بیانیہ کے حسن اور خود مرکزیت کو مجروح بھی کر سکتا ہے۔ چنانچہ عصمت کے یہاں بعض جگہوں پرمصنف کا تداخل ضررورت سے زیادہ ہو جانے کی وجہ سے بیا نیہ ذاتی فکر کی تبلیغ معلو م ہو نے لگتا ہے۔ لیکن زبان کی برجستگی، محا وروں کی لطافت، جہالت کے پر طنز، اور سب سے اہم چیز راوی کی فکر ی گہرائی قاری کی توجہ کشید کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس قسم کی بہترین مثال افسانہ’ ’ آدھی عورت آدھا خواب‘‘سے دی جا سکتی ہے۔

 ’’خواتین نے فورا تاڑ لیا ہو گا کہ فرمانے والے صاحب مرد ہیں اور انھوں نے جو کچھ لکھا ہے، سنی سنائی ہے۔ یقینا انھوں نے خود کبھی کسی بچے کو دودھ نہیں پلایا۔ اور نہیں جانتے کہ بچہ پہلی بار دودھ پیتا ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ ماں جو لال پڑ کر کانپی ہو گی وہ قطعی محبت اور راحت کی لرزش نہیں ہوگی۔ کرب سے رنگ بدل گیا ہو گا۔ ‘‘۸؎

راوی کی یکسانیت اور مداخلت کے باوجود عصمت کابیانیہ پر کشش اور پر لطف ہے۔ ان کا واحد متکلم راوی کبھی اپنی حدسے تجاوز نہیں کرتا،سوائے خارجی مشاہدات و تجربا ت کے، کرداروں کے جذبا ت و احساسات کو اپنی زبانی بیا ن نہیں کرتا۔ اور دوسری اہم بات یہ کہ واحد متکلم راوی کی بہ نسبت غائب راوی والے افسانے زیادہ کامیا ب اور مشہور ہیں۔ ان کے بیا نیہ کا غائب راوی کبھی مصنف کی شخصیت سے مرعوب نہیں ہوتا بلکہ تما م تر جزئیات کا خیال رکھتے ہوئے اپنے فرائض پورے کرتا ہے۔ وہ ایسے بیان کنندہ کے ذریعہ بیان کراتی ہیں جو قصے کی جزیات کو نفسیاتی بصیرت کے ساتھ پیش کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ لہٰذا جب یہ بات طے ہو چکی کہ راوی کے بغیر بیانیہ کا کوئی وجود نہیں ہر افسانہ میں راوی ضرور ہوتا ہے خواہ وہ متکلم ہو یا غائب۔ اور افسانہ کی تفہیم میں بھی دشواری وہیں پیدا ہوتی ہے جب بیان کرنے والے میں افسانہ نگار کا عکس تلاش کیا جانے لگے۔ تو ایسی صورت میں عصمت کے بیانیہ میں بیان کرنے والے  کو مصنف کا نمائندہ گردانتے رہنا بیانیہ کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عصمت کے تخلیقی رویے کی انفرادیت کو سمجھنے کے لیے راوی کو مصنف کی شخصیت سے الگ کر کے دیکھا جائے۔

 حواشی و حوالے:

۱۔  عصمت کے افسانوں میں کردار نگاری، ابو الکلام قاسمی، مشمولہ عصمت نقد کی کسوٹی پر، مرتب جمیل اختر، انٹر نیشنل اردو فاونڈیشن، ۲۰۰۱،ص:۵۵۱

۲۔    کلیات عصمت، عصمت چغتائی، کتابی دنیا نئی دہلی ۲۰۰۱، ص ۱۴۳

۳۔ خدمت گار، ص:۵۶

۴۔ خدمت گار،ص: ۶۷

۵۔ شش ماہی تنقید ۲۰۱۱، قاضی افضال حسین، ص:۲۰۴

۶۔ ایضاً،ص:۵۵۴

۷۔ کرشن چند اور ان کے افسانے، مرتب اطہر پرویز، ایجوکیشنل بک ہاوس، علی گڑھ۔ ۲۰۰۶۔ ص:۲۵۶

۸۔ کلیات عصمت جلد اول،عصمت چغتائی، کتابی دنیا، ۲۰۰۱،ص:۱۸

(کلیات عصمت جلد اول،عصمت چغتائی، کتابی دنیا، ۲۰۰۱،ص:۱۸)

تبصرے بند ہیں۔