دعوت اسلام میں میڈیا کا مفید استعمال

الطاف الرحمن ابوالکلام سلفی

میڈیا ذرائع ابلاغ کا انگریزی نام ہے جس کے سہارے انسان اپنا فکروخیال دوسروں تک پہونچاتا ہے، عموما اسے دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے :
۱: پرنٹ میڈیا
۲: الکٹرونک میڈیا۔
یہ دونوں اقسام بڑی وسعت کے حامل ہیں۔
دعوت الی اللہ انبیا علیھم والسلام کا عظیم بلکہ بنیادی فریضہ تھا، جسے ان کے بعد ان کے متبعین کے ذمہ یہ فریضہ عائد ہوا، تاکہ رب العزت وجلال کے دین : دینِ اسلام کا حقیقی پیغام ہر زمان و مکان کے انسان کو تا قیامت پہونچتا رہے۔ فرمان ربانی ہے: ( قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اُدْعُو اِلٰی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ)۔ [یوسف: ۱۰۸] (اے نبی ! )آپ کہہ دیجئے کہ میری راہ یہی ہے، میں اور میرے پیروکار اللہ کی طرف پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ بلا رہے ہیں، اللہ پاک ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔
منزل من اللہ قرآن نے قوم بنی اسرائیل کو افضل العالمین سے یاد کیا تو ساتھ ہی ساتھ ہمیں بھی خیر امت کا الٰہی شہادۃ حرمِ نصیب ہوا۔ اس کا بنیادی سبب تبلیغ دین ہے، عمرفاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : جسے اس امت کا امتی ہونا پسند ہے تو وہ اللہ کی شرط کو پورا کرے!! لوگوں نے پوچھا امیرالمومنین اللہ کی شرط کیا ہے ؟ ارشاد ہوا : بھلائی کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا اس کے بعد یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی : (کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ) [آل عمران: ۱۱۰] تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی گئی ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اب اس عائد فریضہ سے عہدہ بر آ ہونے اور حقیقی خیر امت کا تمغہ حاصل کرنے کے لئے ہمیں اس راہ میں ہرجائز ممکن کوشش کرنا ہوگی۔

چونکہ یہ زمانہ میڈیائی زمانہ ہے، نئی ایجادات کا دور ہے، بلکہ اسے عصر حاضر کی وہ عظیم قوت کہا جائے جس کے سامنے پوری انسانیت زیر نگیں ہے ہو تو بے جا نا ہوگا۔ یہاں ان پڑھوں کی تعداد ہے، اہل علم بھی جلوہ افروز ہیں، دانشمندوں کا ہجوم ہے توسیاسی، مذہبی امور کے دلدادوں کا امبوہ ہے، مسلم اور غیر مسلم کا بھی رش ہے غرض ہر قسم اور فکر کے لوگ آپ کی احسن انداز میں چرب زبانی سے عبارت فکر کے حصول کے لئے ہمہ تن گوش ہیں، ایسے موقع پر ذرا ایک لمحہ کا وقفہ لے کر سوچیں کہ اگر اس عالم میں میڈیا کا استعمال صرف شیطانی قوتیں اپنے افکارو نظریات کو فروغ دینے میں کررہی ہو ں تو انسانیت کا کیا حشر ہوگا؟۔ ماتمی افسوس ہے کہ فی الواقع ایسا ہوبھی رہا ہے۔ فرمان باری ہے: (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَھُمْ مِنَ النُّوْرِ اِلٰی الظُّلُمٰتِ أُولٰٓکَ أَصْحَابُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ) [البقرۃ : 257] اور کافروں کے اولیاء شیطان ہیں، وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیرے کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔
درد مندان ملت !! ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ میڈائی قوت نعمت الٰہی ہے اور یہ نعمت کسی خاص طبقہ کی نامزد کی ہوئی جاگیر نہیں بلکہ اس میں ساری انسانیت کا آزادانہ حصہ ہے جو جنتا چاہے حاصل کرلے جس کی خواہش محروم ہونے کی ہو تو وہ محروم ہوجائے۔ لیکن چونکہ ہم نے مسلم ہونے اقرار کرلیا ہے، اسلام کے ہر مفروضہ امورپر آمنا وصدقنا کی توثیق دے دی ہے، لہذا ہمارافرض بنتا ہے کہ زہر ہلاہل پلائی جارہی انسانیت کو ساحل نجات بخشنے پر لائیں، دودھ وشہد سے بھرے جام پلانے کا جدید انداز اختیار کریں۔ فرمان رسول ہے: ’’ فَوَاللّٰہِ لَأَنْ یَّھْدِیَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلاً وَاحِداً خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَن یَکونَ لک حُمْرُ النَّعَمِ‘‘ [صحیح بخاری:4210، مسلم:2406 ] اللہ کی قسم ! اگر ایک آدمی بھی تمہارے ذریعہ راہ ہدایت پا جائے، یہ چیز تمہارے لئے سرخ اونٹ سے بہتر ہے۔
جب جب بھی انسانیت اس طرح کی سسکیان لینے پر مجبور ہوئی اللہ رب العلمین نے اپنی نعمت خاص سے انہیں کشتی نوح عطا فرمائی۔ آئے اس سلسلہ کی چند آیات سے محظوظ ہوتے ہیں : (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَسُوْلاً أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ) [النحل: 36] ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا تاکہ لوگو ! تم اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ وقال :(ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِي الْأُمَّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِنْھُمْ یَتْلُوْ عَلِیْھُمْ اٰیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ )[الجمعۃ: ۲]وہی (اللہ) ہے جس نے امیوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا، انہیں پاک کرتا، اور کتاب وحکمت کی باتیں سکھاتاہے، یقیناًیہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ حتی کہ ہر قوم کی ہدایت کے لئے ایک راہنما بھیجا فرمایا:(وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٌ) [الرعد: 7] اور ہر قوم کے پاس ایک ہدایت دینے والا بھیجا۔
قابل توجہ بات یہ ہے اللہ جل شأنہ نے انہیں یوں ہی وسائل سے محروم مطلق طور پر نہیں بھیجا بلکہ انہیں اس دور کی مروج بااثر قوت سے مسلح کرکے مبعوث فرمایا، دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس دور کی میڈیائی قوت کے ساتھ مبعو ث فرمایا۔ جس پہ انہیں ناز تھا، جس کے ذریعہ اکثریت کو اپنے زیر نگیں کرنے کا غرور تھا، جس کو بروئے کار لاکر غلط افکار سے انسانیت کو مسحور کیاجارہا تھا، بنفسہٖ وہی قوت رب العزت نے مبعوث پیغمبرکو بدرجۂ اتم صورت میں عطا فرمائی۔ تاکہ ان کے مسلوکہ راستے سے انہیں عاجز کرکے ہدایت سے سرفراز کیا جاسکے۔ جسے ہم معجزہ کے نام سے جانتے ہیں۔ (فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ) [البقرۃ : ۲۵۸] پس کافر بھوچکا رہ گیا۔
جب ہم نبیﷺ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مبعوث کرنے کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو بذات خود میڈیائی قوت کا حامل تھا، ایسی قوت کہ ساری انسانیت کے دل اس کی طرف فطری میلان رکھتے ہیں، ابر اھیم علیہ السلام کی مقبول دعا کا تذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:(فَاجْعَلْ أَفْءِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِمْ )[ابراھیم: 37]’’اے اللہ تو لوگوں کے دل ان (اہل مکہ ) کی طرف مائل کردے ‘‘۔ یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں سے ابرھیم علیہ السلام نے ایک آواز لگائی تو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ہر کونے میں وہ آواز پہونچا دی۔ فرمان باری ہے: (وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوْکَ رِجَالاً وَعَلیٰ کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ)[الحج: 27] (اے ابراہیم ! ) تو لوگوں میں حج کی منادی کردے، لوگ تیرے پاس دور دراز سے پیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی۔ آپﷺ نے دعوت دین کی خاطر اس وقت کی مروج ساری میڈیائی قوتوں کا استعمال کیا۔ کبھی عاجز کردینے والی آیات کا سہارا لیتے ہیں۔ تو کبھی جاہلیت میں ’’أُنْصُرْ أَخَاکَ ظَالِماً أَوْمَظْلُوْماً‘‘( اپنے بھائی ہر حال میں مدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم) میں استعمال ہورہی صفا پہاڑی پر چڑھ جاتے، اور انہیں ہمہ تن گوش ہو کر حاضر کردینے والی میڈیائی آواز ’’ یَا صَبَاہَاہ‘‘(لوگو صبح کی پکار سنو!!) کے ذریعہ تبلیغ اسلام کی کوشش کرتے۔ تو کبھی دور داز سے آئے ہوئے حجاج کرام کے خیموں میں جا جاکر اسلام کا پیغام پہونچاتے۔ کبھی بازارِ عکاظ کے اژدہام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فریضۂ رسالت کے لئے جان کی بازی لگا دیتے، دوسری قوم کے مقبولینِ اسلام کو واپس ان کی قوم کے پاس بھیج دیتے تاکہ اسلام کی دعوت پیش کرنے میں معاون بنیں۔ گو کوئی بھی انفرادی یا اجتماعی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ یہی سبب تھا کہ چند ہی ایام گزرنے پائے تھے کہ پورا خطہ عرب آپﷺ کے لائے ہوئے دین سے پوری طرح واقف تھا، اور جب ۲۳ سال کا معمولی عرصہ گذرا تو عرب وعجم دین اسلام کی روشنی محسوس کررہے تھے، پورا خطہ عرب آپ کا مطیع و فرما بردار تھا آپ کے ادنیٰ اشارے پر جان ومال فدا کرنے کے لئے بے تاب تھا۔
یہ تھا سیرت انبیاء کا اجمالی ذکر جس سے بدیہی طور پر یہ مستفاد ہوتا ہے کہ دعوت دین میں گزرتے زمانے کی ہر بڑی قوت کا جائزاستعمال وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
آج جب کہ غلط مکتبۂ فکر کی حامل تنظیمیں، پوری قوت کے ساتھ باطل کی ترویج میں میڈیا کا استعمال کررہی ہیں، لوگوں کی اکثریت کو اپنی ظلمت بھرے نظریات سے روشناس کرارہی ہیں، لہذا ہمیں پوری استعداد کے ساتھ اس میدان میں اترنا ہوگا، عاجز کردینے والے کارنامے پیش کرنے ہوں گے۔ انہیں مسحور کرنے کے لئے، ہمارے خلاف بنائے گئے انہیں کے ہتھار کو صحیح رخ دینا ہوگا۔ اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ دنیا کے سامنے اپنا لوہا منوالیں، گھر گھر اسلام کے چراغ کا تیل تقسیم کیا جائے۔ الکٹرونک میڈیا نے تو یہ کام بہت حد تک آسان کردیا ہے۔ دنیا ہماری مٹھی میں ہے، وہ باطلانہ عقائد سے اکتا چکی ہے۔ ٹھوس دلائل پر مبنی راہ حق کی متلاشی ہے۔ اٹھو!! قطرۂ نجات کا بند وبست کریں، دینی پیغام نشر کرنے کے لئے ریڈیو اسٹوڈیوز ہماری انتظار میں ہیں۔ ترویج اسلام کی خاطر اخبار ومجلات آپ کا استقبال کررہے ہیں، حقانیت سے پر ثقافتی پروگرام دنیا کے کونے کونے تک پہونچانے کے لئے ٹی وی چینلز آپ کی تلاش میں ہیں۔ اس سے بھی آسان، لیکن بااثر آلۂ دعوت : انٹر نٹ کے جملہ اقسام(شوسل میڈیا) آپ کے ادنیٰ اشارے کے منتظر ہیں۔ آؤ!! خواب غفلت سے اٹھیں !! ٹھوس علم حاصل کرنے کے بعد اس وسیع میدان میں مہارت حاصل کریں، تبلیغ اسلام کا حق ادا کرنے کے لئے اسے زیر استعمال لائیں۔ اس طرح پوری دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجا دیں۔ دینی ویب سائٹس کی تشکیل دیں، اسلامک پیج بنائیں، فیس بک، ٹیوٹر جیسی دنیا کی سب سے بڑی کانفرنس سے بلا تھکان مخاطب ہوں۔ موصولہ شک وشبہات کا ازالہ کریں، بوقت ضرورت انہیں کی بولی بولیں، واٹشاپ وچیٹینگ کے ذریعہ انفردی واجتماعی دعوت کے ذریعہ اسلام کے محاسن اجاگرکریں۔ اسلامی گروپ بنائیں، قرآن وسنت کے خزینہ کو محتاجوں اور حق داروں میں انصاف کے ساتھ تقسیم کریں۔
لیکن اہل علم کے کے وضع کردہ اس قاعدہ کا ہمیشہ خیال رہے : ’’اِنَّ الْوَسَاءِلَ بِحَسْبِ الْمَقَاصِدِ‘‘وسائل کا استعمال مقاصد کے حصول تک ہی جائز ہے کیونکہ : ’’ اِنَّ الْوَسِیْلَۃَ لَھَا أَحْکَامُ الْمَقْصَدِ‘‘ وسیلہ کا وہی حکم ہے جو مقصد کا ہے۔
تب جاکر کے ہم میڈیا کا کچھ حق ادا کرسکتے ہیں، تبھی اِس نعمت سے عہدہ بر آ ہونے کا پروانہ ملنے کا امکان ہے۔ اُسی وقت دعوت اسلام کے سب سے بڑے لا محدود پلیٹ فارم کا صحیح اور مفید استعمال کئے جانے کا دعویٰ ممکن ہے۔

تبصرے بند ہیں۔