دعوۂ ایمان، عشق الٰہی اور جذبۂ قربانی

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

 جس طرح روشنی کے بغیر سورج، تاریکی کے بغیر رات، خوشبو کے بغیر پھول، حرارت کے بغیر آگ، برودت کے بغیر برف، سانس کے بغیر حیات ممکن نہیں اسی طرح ابتلا و آزائش کے بغیر ایمان کامل کا تصور کرنا بھی محال ہے چونکہ انسان کا قلب نور ایمانی سے اسی وقت روشن و منور ہوسکتا ہے جب اس کا کردار قوتِ برداشت،  تحمل، بلند اخلاقی اقدار اور روحانی تطہیر کا حامل ہو۔جب انسان ایمان کا دعوی کرتا ہے تو درحقیقت وہ عشق الٰہی کا دعوی کرتا ہے۔ چونکہ شجر ایمان کی افزائش اور تر و تازگی کا راست تعلق اس کی جڑ یعنی محبت و عشق سے ہے۔  جس طرح پانی کے بغیر درخت کا اگنا ممکن نہیں ہے اسی طرح عشق و محبت کے پانی کے بغیر شجرِ ایمان کا تناور ہونا اور یقین کا مضبوط ہونا محال ہے۔ کیونکہ یہی وہ عشق ہے جو مومن کے قول و عمل میں باہمی مطابقت و ہم آہنگی پیدا کرتا ہے، مومن کو مخلص، مطیع، محسن اور خلیق  بناتا ہے، مومن کی جلوت و خلوت کو پاکیزہ و مطہر بنادیتا ہے، مومن کو نفاق کے تمام اقسام اور ان کی نحوستوں سے دور رکھتا ہے اور مومن کو مکان کی اسیری سے چھٹکارا دلاکر لامکانی بنادیتا ہے۔

  قرآن مجید نے صاحب ایمان کا یہ خاص وصف بیان کیا ہے کہ وہ دنیا و ما فیھا کی نسبت اپنے پروردگار سے حقیقی، گہری اور شدید محبت کرتا ہے جسے عام زبان میں عشق کہتے ہیں۔ جو شخص عشق الٰہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہوتا ہے اور جب یہ غیر متزلزل اور سیل روان عشق اپنی انتہاء کو پہنچتا ہے تو انسان ایمان کی حقیقت اور حلاوت کو پاجاتا ہے پھر اس کے لیے ہر عزیز ترین شئی کو اپنے محبوب یعنی پالنہار کی رضا کے لیے قربان کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس میں قربانی کا جذبہ جس قدر زیادہ ہوگا اس میں عشق الٰہی کا جذبہ اسی قدر زیادہ موجزن ہوگا جو انسان کو دنیا پرستی، خطوات الشیاطین کی پیروی اور نفسانی خواہشات کی اسیری سے بچانے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ عشق انسان کو قلندر کردیتا ہے۔ لیکن بڑے افسوس کے ساتھ اس حقیقت کو سپرد قلم کرنا پڑرہا ہے کہ آج مسلمان جس کرب و الم اور مسائل و مشاکل سے گزر رہا ہے اس کا تعلق ہمارے ایمان کی آزمائش سے کم اور غلط فکر، غلط منصوبہ بندی، غلط اقدامات اور ہماری بد اعمالیوں سے زیادہ نظر آرہا ہے کیونکہ نہ ہمارے پاس ایمانی حرارت ہے، نہ مومنانہ روش و کردار ہے  اور نہ ہماری طبیعتیں عشق الٰہی کے سوز و گداز اور ذوق و وجدان سے مالامال ہیں۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے جو آزمائشیں آتی ہیں وہ درحقیقت اس کے لطف اور ربوبیت کے تقاضے ہوتے ہیںاور ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے جو پریشانیاں آتی ہیں وہ دراصل ہمارے لیے سزا ہوتی ہیں۔ ان دونوں میں فرق کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ورنہ ہم پر یہ شعر صد فیصد صادق آئے گا کہ خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

 اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا شمار بھی ان مبارک ہستیوں میں ہوجائے جن کے ایمان کو رب قدیر نے ابتلا و آزمائش کے وسائل سے آزمایا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ اللہ اور اس کے حبیبؐ کی رضا و خوشنودی پر اپنی تمام تر ترجیحات و خواہشات کو قربان کردیں تاکہ شریعت مطہرہ کے ہر حکم پر بلاچوں اور چرا، آمنا اور صدقنا کہہ کر عمل پیرا ہونا ہمارے لیے آسان ہوجائے علامہ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا۔ عشق ہی کی کارفرمائیوں سے انسان کے اندر قوت عمل اور خودی میں پختگی و توانائی آتی ہے۔ قربانی صرف جانور کے ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ رضائے الٰہی کے لیے ہر آن اپنی نفسانی خواہشات کو قربان کرنے کا نام ہے۔ قربانی کے حقیقی معنی و مفہوم کو سمجھنے کے لیے معمار کعبہ، عظیم پیغمبر حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہؑ کی سیرت کا مطالعہ کرنا اور اس کا باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ قرآن مجید نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابراہیمؑ نے رب کریم کے حضور عرض کی اے مولا تو مُردوں کو کیسے از سر نو زندہ کرتا ہے مجھے دکھادے رب ذو الجلال نے فرمایا کیا تم اس پر یقین نہیں رکھتے عرض کی ایمان تو ہے۔ یعنی آپ نے ایمان کا دعوی کیا اور یہیں سے آپ کی زندگی میں امتحانات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور آپ کو آپ کے رب نے معاشرہ کی مخالفت، آتش نمرود، وطن سے ہجرت، خشک اور بے آب و گیاہ ریگستان میں اپنی زوجہ اور فرزند کو چھوڑنے جہاں کوئی انسان نہ بستا تھا، ذبح اسماعیلؑ  وغیرہ جیسے سخت آزمائشوں اور امتحانات سے آزمایا تو آپ نے نہ صرف پر عزم آمادگی کا اظہار فرمایا بلکہ انہیں پورے طور پر بہترین طریقے سے بجالایا اور تمام گراں و مشکل مراحل کو ایمان و اطمینان کے ساتھ سر فرمایا۔ حضرت سیدنا ابراہیمؑ کی زندگی کے تاب ناک پہلوئوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قربانی دراصل تسلسل کے ساتھ نفسانی خواہشات اور ترجیحات کو رضا الٰہی پر قربان کردینے کا نام ہے۔ لیکن افسوس صد افسوسکہ آج ہم پورے جوش و خروش اور آب و تاب کے ساتھ عید الاضحی کے دن جانور کی قربانی تو ضرور دیتے ہیں لیکن زندگی کے دیگر امور اور معاملات میں شریعت مطہرہ کے احکامات کو اپنی نفسانی خواہشات اور دنیاوی لذات پر قربان کردیتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم رسماً قربانی کرتے ہیں۔

 بعض وقت یہ دیکھنے میں بھی آتا ہے کہ لوگ فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہم نے اتنے جانوروں کی قربانی دی ہے۔ یقیناً ہم نے جانور ذبح کردیے لیکن غرور و تکبر کو قربان نہ کرسکے اسی لیے جو لوگ قربانی دیتے ہیں ان کو چاہیے کہ قربانی کا جانور ذبح کرنے سے قبل اپنے اہل و عیال کو جمع کریں اور سب مل کراس بات کا عہد کریں کہ آج ہم رب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جانور ذبح کررہے ہیں اگر وقت پڑا تو ہم اسلام کی شان و شوکت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی جان، مال، عزیز و اقارب بلکہ ہر محبوب چیز قربان کردیں گے۔ تصور قربانی کے مفہوم کو جانور کے ذبح کرنے تک محدود رکھنے کی وجہ سے حضرت سیدنا ابراہیمؑ کے اسوہ حسنہ اور ہمارے طرز عمل میں بہت بڑا تفاوت نظر آتا ہے۔

 حضرت سیدنا ابراہیمؑ رب کا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لیے لوگوں کی اذیتیں گوارا کرتے ہیں، عزیز و اقارب اور وطن کو ترک کرتے ہیں اور ہم خوشحالی زندگی گزارنے اور رشتہ داروں کی نگاہ میں معظم و مکرم بنے رہنے کے لیے تعلیمات اسلامی سے مصلحت کے نام دوری اختیار کرتے ہیں، حضرت سیدنا ابراہیمؑ اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے آتش کدہ نمردو میں بلا خوف و خطر کھودپڑتے ہیں اور ہم دنیا کی لعن طعن اور ملامت کے خوف سے حق کے ساتھ ٹہرنے سے بھی گھبراتے ہیں، حضرت سیدنا ابراہیمؑ نے خواب دیکھنے کی بناء پر اپنے لخت جگر حضرت سیدنا اسماعیلؑ کے حلقوم مبارک پر چھری چلوادی اور ہم اپنی اولاد کو نماز فجر کی ادائیگی کے لیے اس لیے نہیں جگاتے کہ ان کے آرام میں خلل واقع نہ ہوجائے، حضرت سیدنا ابراہیمؑ رب کریم کی خوشنودی کے لیے اپنی اہلیہ اور فرزند دلبند کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آتے ہیں اور ہم  اپنے اہل خانہ کو معیاری زندگی کے تمام وسائل مہیا کروانے کے لیے حلال و حرام کی تمیز کو مٹادیتے ہیں۔

 المختصر حضرت سیدنا ابراہیمؑ کی زندگی قربانیوں سے عبارت نظر آتی ہے اور ہماری عملی زندگی قربانیوں سے خالی نظر آتی ہے۔ جب بندہ مومن حضرت سیدنا ابراہیمؑ کی طرح زندگی کے ہر لمحہ میں قربانی پیش کرتا چلا جائے گا تو وہ رب کے قرب خاص کا حقدار بن جاتا ہے اور اللہ تعالی امامت و سیادت کا تاج اس کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ حسب ذیل روایت میں اسی طرف اشارہ ہے۔ حضرت حسن بصریؒ سے مروی ہے اللہ تعالی نے حضرت سیدنا دائود ؑ سے فرمایا : اے دائود ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے، پس اگر تم اپنی چاہت کو میری چاہت کے تابع کردو (یعنی اپنی چاہتوں کو میری چاہتوں پر قربان کردو) تو میں تمہاری چاہت کے لیے بھی کافی ہوجائوں گااور بہرحال ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا اور اگر تمہاری چاہت میری مرضی کے خلاف ہو تو میں تمہیں تمہاری چاہت میں تھکادوںگا اور ہوگا تو پھر بھی وہی جو میری چاہت ہے۔لہٰذا ہمیں جانور کی قربانی دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کا عہد بھی کرنا ہوگا کہ ہم اسلام اور اسلامی تعلیمات کی حفاظت کے لیے اپنی جان، اہل و عیال، مال، وطن بلکہ سب کچھ قربان کردیں گے کیونکہ جو قوم جانور کی رسمی قربانی دینے پر اکتفا کرتی ہے اور زندگی کے تمام مراحل میں قربانی دینے سے گریز کرتے ہیں وہ قوم مٹ جاتی ہے۔

 اگر ہمیں زندہ قوم کی طرح دنیا میں رہنا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ حضرت سیدنا ابراہیمؑ کے اسوہ حسنہ کی مطابعت میں ہر وقت قربانی کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ قرآن مجید نے صراحتاً بیان فرمادیا کہ اللہ تعالی کو نہ ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی اس کا خون بلکہ انسان کا خلوص و تقوی اس تک پہنچتا ہے اور جو شخص متقی ہوتا ہے وہ اللہ تعالی کے ہر حکم پر اپنی نفسانی خواہشات کو قربان کردیتا ہے۔اسلامی معاشرہ اسی وقت تشکیل پائے گاجب ہم اپنی بری عادات و اطوار کو اسلامی تعلیمات پر قربان کرنا شروع کردیں اور یہی عید قربان کا حقیقی پیغام ہے جس کی طرف عملی طور پر توجہ دینا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔

تبصرے بند ہیں۔