دلائی لامہ کا آدھا سچ

حفیظ نعمانی

تبت سے آئے ہوئے مہمان بودھ رہنما دلائی لامہ نے گوا مینجمنٹ کے ایک جلسہ میں کہا کہ مہاتما گاندھی نے محمد علی جناح کو متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم بنانے کا مشورہ دیا تھا لیکن پنڈت نہرو نے اسے نہیں مانا اگر وہ مان لیتے تو ہندوستان کی تقسیم نہیں ہوتی۔

ان کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے ہندوستان کے میڈیا نے دلائی لامہ کے بیان کو ان کا ذاتی خیال قرار دیا ہے۔ ایک بڑے اخبار نے اداریہ میں کہا ہے کہ ’حالانکہ ہندوستان کی تقسیم کا معاملہ پنڈت نہرو یا مسٹر جناح یا مہاتما گاندھی کے بس میں نہیں تھا۔ جناح اور نہرو کے وزیراعظم بننے کی بات تو صرف ایک بہانہ ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انگریز کبھی نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان متحد رہے۔ بلکہ 1857 ء میں آزادی کی سرگرم جنگ کے وقت سے ہی انگریزوں نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ وہ زیادہ دنوں تک ہندوستان میں حکومت نہیں کرسکتے۔ اس لئے انہوں نے 1857 ء سے 1947 ء تک ہندوستان میں مختلف فرقوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی۔

اداریہ میں ہندوستان میں ہونے والی فرقہ بندی مسلک کے اختلاف اور ذات برادری کی کشمکش کی ذمہ داری انگریزوں پر ڈالتے ہوئے دونوں ملکوں کی آزادی پر بات ختم کی ہے اور آخر میں دلائی لامہ کی معذرت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دلائی لامہ نے اپنا بیان واپس لے لیا ہے اور کہا ہے کہ اگر میرا بیان غلط تھا تو میں اس کے لئے معافی مانگتا ہوں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بیان پر ان کو کچھ زیادہ ہی کہا گیا جبکہ ان کا بیان پوری طرح غلط نہیں ہے۔ ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے کہیں پڑھا نہیں ہے بلکہ کسی سے سنا ہے یا ایسی کوئی کتاب پڑھی ہے جو کسی غیرذمہ دار مصنف نے لکھی ہے۔ ہوا یہ تھا کہ جناح صاحب پاکستان پر اَڑے ہوئے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ انگریز تقسیم کے اس لئے مخالف تھے کہ اس میں بہت وقت لگ جائے گا اور وہ جلد سے جلد ہندوستان سے بھاگنا چاہتے تھے۔ وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن تمام لیڈروں سے مذاکرات کررہے تھے۔ گاندھی جی سے گفتگو کے دوران جب یہ مسئلہ آیا تو گاندھی جی نے مائونٹ بیٹن سے کہا کہ ہندو مسلم مسئلہ کا سب سے اچھا حل یہ ہے کہ مسٹر جناح کی سربراہی میں عبوری حکومت کی تشکیل کردی جائے۔ مائونٹ بیٹن یہ سن کر ششدر رہ گئے اور انہوں نے گاندھی جی سے معلوم کیا کہ جناح اس کا کیا جواب دیں گے۔ گاندھی جی نے کہا کہ اگر آپ انہیں یہ بتائیں گے کہ یہ تجویز میں نے پیش کی ہے تو وہ کہیں گے کہ یہ گاندھی کی مکاری ہے۔ گاندھی جی نے کہا لیکن میں اپنی اس تجویز کے لئے پوری طرح مخلص ہوں۔ یہ بات مائونٹ بیٹن نے کہی تھی کہ جتنا میں نے مسٹر جناح کو پرکھا ہے وہ ہرگز ہندو اکثریت کی کٹھ پتلی بن کر رہنے پر تیار نہیں ہوں گے۔ دلائی لامہ نے جو نہرو کا نام لیا ہے وہ کہیں نہیں  ہے اور یہ بات اسی جگہ ختم ہوگئی تھی۔

جس اخبار کے اداریہ کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کے بارے میں یہ اور عرض کرنا ہے کہ اداریہ نگار نے جو یہ لکھا ہے کہ انگریزوں کو 1857 ء سے ہی محسوس ہوگیا تھا کہ وہ اب زیادہ دنوں تک ہندوستان پر حکومت نہیں کرسکتے۔ جبکہ 1857 ء میں تو انہوں نے ہندوستان میں حکومت کی ابتدا کی تھی اور اپنے سخت برتائو اور دور اندیشی کے بل پر انتہائی مضبوط حکومت قائم کرلی تھی اگر دوسری جنگ عظیم میں وہ بری طرح ٹوٹ نہ گئے ہوتے تو آج بھی ان کی ہی حکومت ہوتی۔ ہمارے ملک کے لیڈر جس جنگ آزادی کا فخر سے ذکر کرتے ہیں وہ ایسی جنگ تھی جس میں جو مرے ہیں ان کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ برطانیہ نے جون 1948 ء میں ہندوستان سے جانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن حکومت برطانیہ کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے جو وہ اپنے آدمیوں کو تنخواہ دے سکے تب لارڈ مائونٹ بیٹن پر دبائو ڈالا کہ جلدی کرو اور انہوں نے 14  مہینے پہلے 15  اگست 1947 ء کو ہندوستان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا۔ اصلی جنگ آزادی جو ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ وائسرائے کا دربار لگا رہتا تھا اور گاندھی جی، جناح صاحب، پنڈت نہرو، سردار پٹیل، مولانا آزاد، بلدیو سنگھ، ماسٹر تارا سنگھ سب باری باری آرہے تھے اور اپنی اپنی بولی بول کر جارہے تھے۔ کیا اسے جنگ کہا جاسکتا ہے؟

ملک کی آزادی کہیں یا تقسیم یہ انگریزوں کی پتلی حالت کی وجہ سے عجلت میں ہوئی ورنہ یاد کیجئے کہ برما کو جب ہندوستان سے الگ کیا ہے تو اس میں تین برس لگے تھے اُڑیسہ کو بہار سے الگ کرنے میں دو برس لگے لیکن ملک کی دو جگہ سے تقسیم اور پنجاب اور بنگال کی تقسیم میں صرف تین مہینے لگے اور اسی کا نتیجہ لاکھوں انسانوں کی موت ہے۔ اگر یہ کام رفتہ رفتہ منصوبہ کے ساتھ ہوتا تو وہی ہوتا جو برما کی علیحدگی میں ہوا کہ جانے والے چلے گئے رہنے والے رہ گئے۔

ہم خدا نہ کرے انگریزوں کے فیض یافتہ نہیں ہیں۔ لیکن اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہیں کہ ہندوستانیوں نے انگریزوں سے لڑکر آزادی حاصل کی ہے ہماری آزادی کے دو سال کے بعد چین نے آزادی حاصل کی ایک ایک انچ کے لئے خون بہایا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج وہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مائوزی تنگ اور چورین لائی چیانگ کائی شک کے دربار میں صبح شام حاضری دیتے تھے اور انہوں نے انہیں حکومت دے دی۔

ہندوستان میں عبوری حکومت بنوائی جس میں بارہ کانگریسی چھ مسلم لیگی ایک سکھ یہ سب انگریزوں نے کیا۔ صوبوں کی تقسیم مائونٹ بیٹن نے صرف اس لئے سامنے رکھی کہ جناح صاحب کرم خوردہ کٹے پھٹے پاکستان کو قبول نہیں کریں گے اور جو صوبے تقسیم ہوں گے ان کے مسلمان جناح صاحب کے خلاف ہوجائیں گے لیکن مائونٹ بیٹن کا سوچا ہوا اُلٹا ہوگیا کہ جناح صاحب تو ہچکچائے لیکن انہوں نے جو 1940 ء سے کہنا شروع کیا تھا کہ ’ہمارے نام ہماری قدریں، ہمارے قانونی ضابطے، ہمارے رسم و رواج، ہمارے احساسات، ہماری امنگیں، ہندوقوم سے بالکل الگ اور جداگانہ ہیں اور ہم ایک الگ قوم ہیں۔‘ ان نعروں نے مسلمانوں کو پاکستان کے لئے پاگل بنا دیا تھا وہ چاہے جیسا ہو؟ اور جناح صاحب ڈر گئے کہ مسلمان انہیں ختم کردیں گے۔ یہ بات کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے پاکستان کے لئے قربانی دی کیونکہ جو قربان ہوئے وہ تبادلہ آبادی اور جلد بازی کی وجہ سے ہوئے۔ لاکھوں مرنے والوں میںمسلمانوں کے ساتھ ہندو اور سکھ بھی تھے انہیں دربدری کے علاوہ کیا ملنے والا تھا؟ یہ آنے والے ہندوئوں اور سکھوں کی محنت ہے کہ وہ ملک پر چھا گئے اور پاکستان جانے والے مسلمان اس غرور میں مارے گئے کہ ہم نے تو پاکستان بنایا ہے۔ جس کے جواب میں کہا گیا کہ ہم نے تو نہیں کہا تھا کہ پاکستان بنائو اب آئے ہو تو بھیک مانگو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔