ملک کی آزادی ہمارے علماء کی مرہون منت ہے

محمد قاسم ٹانڈوی

جس وقت تک اخبار میں یہ تحریر شائع ہو کر قارئین کی نظروں کے آگے سے گزرے گی اس وقت تک 15/اگست یوم آزادی کی خوشی میں بہت سے لوگ ترنگا لہرا کر بھی فارغ ہو گئے ہوں گے نیز اس موقع پر یہ بھی دیکھا جائے گا کہ لوگ آزادی کی مناسبت سے تاریخی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بھرپور جوش و خروش کے ساتھ آزادی کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہوں گے، ماضی کی یادوں کا اعادہ اور اکابر کی قربانیوں کا تذکرہ کرکے وطن عزیز ہندوستان کی آزادی میں جو تعاون ہمارے بڑوں نے پیش کیا تھا اور ملک کی آزادی کی خاطر جو مصیبت و پریشانی اور رنج و تکالیف برداشت کی تھیں، ان کو دہرا کر عوام الناس اور نسل نو کو واقف کرایا جا رہا ہوگا۔ گاوں دیہات، شہر و قصبات میں جگہ جگہ سرکاری و نیم سرکاری اداروں اور ان کی بلند عمارتوں پر ترنگا پہرانے کا عمل بھی ہر سال کی طرح روایتا دہرا جائے گا۔ ساتھ ہی مدارس و مکاتب اور عصری تعلیم گاہوں اور رفاہ عامہ کےلئے وقف اداروں میں اہتمام کے ساتھ پرچم کشائی کی جائے گی اس دوران "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” نیز حب الوطنی پر مشتمل دیگر ہندی ترانے مکالمے اور ملک کی آزادی میں اہم رول نبھانے والے مجاہدین آزادی کی خدمات پر مشتمل رنگا رنگ تقاریر سے اپنے اپنے پروگراموں کو زینت بخشنے کا بھی عمل دہرایا جائے گا۔

اس موقع پر بہت مناسب اور بہت اچھا ہوگا اگر ہم موقع محل کی نزاکت اور ملک کی موجودہ صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے یہاں منعقد کئے جانے والے پروگرام میں برادران وطن اور سرکاری محکمہ کے اعلی زمےداران و محکمہ پولیس کے افسران کو میدان سیاست سے وابستہ افراد اور سماجی شخصیات کو بھی مدعو کیا جائے اور ان کے سامنے اس بات کو آشکار کیا جائے کہ اس ملک کی آزادی در ہمارے اکابر علماء اور بزرگوں کی مرہون منت ہے اس لئے کہ یہ ہمارے ہی علماء، بزرگان دین، نوجوان تھے جنہوں نے ہندو مسلم، سکھ عیسائ اور دیگر طبقات سے وابستہ لوگوں کو اپنے ساتھ لےکر بڑی سے بڑی قربانی  پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ بالخصوص آزادی کی پہلی صدا اور پہلی ندا جس کو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بلند کی تھی اور شاہ عبد العزیز نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا پہلا فتوی جاری کیا تھا، سید احمد شہید اور حضرت مولانا اسماعیل شہید نے بالاکوٹ کے میدان میں آزادی کی خاطر جام شہادت نوش فرمایا تھا۔ اسی طرح سراج الدولہ جنہوں نے 1857 کی جنگ میں بنگال کی سرزمین پر اپنے خون کا پہلا نذرانہ پیش کیا تھا اس سے بھِی واقف کرائیں نیز یہ بھی بتائیں کہ اس جنگ میں مسلمان ہی پیش پیش تھے، اور یہی وہ جنگ ہے جس میں 2/لاکھ کے قریب صرف مسلمان ہی شہید ہوئے تھے، جس میں سے اکیاون ہزار کے قریب تو علماء کرام کا طبقہ تھا۔

یاد رکھئے آج عوام کا ایک طبقہ جس کی تعداد مٹھی بھر بھی نہیں ہے وہ اپنی اوقات فراموش کئے ہوئے ہیں، جو لوگ ابھی تک انگریزوں کے مخبر بنے سماج میں جینے کے قابل اور منھ دکھانے کے قابل نہیں سمجھے جاتے تھے آج وہی لوگ ہم سے محب وطن ہونے کا سرٹیفیکٹ طلب کرتے نظر آ رہے ہیں، کل تک جنہوں نے اپنے دفاتر اور آفس کی عمارتوں پر کبھی ترنگا جھنڈا تک نہیں لہرایا تھا اور انہیں ایک قسم کا ترنگے سے خدا واسطے کا بیر تھا آج وہ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر پرچم کشائی کا نہ صرف فرمان جاری کرتے ہیں بلکہ اپنی اوقات سے باہر ہو کر مدارس و مکاتب کی سنہری تاریخ سے ناواقفیت کا ثبوت دینے سے بھی نہیں چوکتے اور مدارس و مکاتب میں لہرائے جانے والے ترنگے اور ان دنوں میں منعقد ہونے والے پروگرام کی ویڈیو گرافی کرانے کا حکم بھی جاری کرتے ہیں۔ ارے انہیں کوئی باخبر کرے اد بات سے کہ وطن عزیز سے محبت ہمارے دین و ایمان کا حصہ اور علامت و نشانی ہے، وطن عزیز کی محبت اور اس کی بقاء و سلامتی کی خاطر ہم نے کیا نہیں کیا؟ ہم نے کل بھی اس ملک کی فکر کی تھی ہم آج بھی اس ملک کی خاطر جان کی بازی لگانے کو ہمہ وقت تیار ہیں ہم وہ نہیں جو ڈھکے چھپے ملک کاا سودا کریں اور حکومت کے مناصب پر بیٹھ کر خفیہ طور پر دشمنوں کو اندرونی حالات سے واقف کرائیں۔ ہم نے اس ملک پر کم و بیش آٹھ سو سال حکومت کی ہے اور بڑے طمطراق اور شان و شوکت والی حکومت کی ہے اس دوران حکومت ہمارے اس ملک کو پوری دنیا سونے کی چڑیا سے یاد کرتی تھی اور ہر ایک کی زبان پر یہی گیت ہوتا تھا کہ:

سارے جہاں سے اچھاہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

ہاں مگر یہ حقیقیت ہے کہ ملک چونکہ ہمارے ہاتھوں سے چھینا گیاتھا، بےگھر ہمیں کیا گیا تھا اس لئے آزادی کی جد وجہد میں بھی ہم مسلمان بالخصوص ہمارے اکابر علماء کرام ہی سب سے ا ٓگے سب سے نمایاں کردار نبھانے والے اور سب سے زیادہ پرجوش طریقہ پر حصہ لینے والے تھے، اسی وجہ سے انگریزوں نے انہیں ہی سب سے زیادہ مشق ستم بنایا، لہذا ہمارے اکابر نے ہی سب سے زیادہ اپنے سینوں پر ان کی گولیاں کھائیں، ان کے ناروا ظلم سہے، تمام تر اذیتیں برداشت کیں مگر اپنے مقاصد سے تن من پیچھے نہیں ہٹے، الغرض ان کے مظالم کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا، تب جاکر آزادی کی صبح نمودار ہوئ اور اس ملک میں آباد لوگوں کو آزادی نصیب ہوئی۔

تبصرے بند ہیں۔