دلہن کا پیر بھاری ہوگیا: ہم گزرے کل کو بھول گئے ہیں

گل بخشالوی

گزرے وقتوں میں شادی کے بعد جب دلہن کو اپنے وجود میں کوئی تبدیلی محسوس ہوتی تو شرماتے ہوئے اپنے شوہر سے تبدیلی کا اظہار کرتیں اور شوہر خوشی سے بھنگڑا ڈالتے ماں کے پاس حاضر ہوتا کہتا ماں جی !مبارک ہو آپ کا خواب پورا ہونے والا ہے آپ دادی بننے والی ہیں۔ ساس دلہن کے پاس پہنچتی دعائیں مانگتیں، دلہن پر قربان ہونے لگتیں گھر کے ہر فرد کے چہرے پر مسکراہت کھیلنے لگتی، دلہن کی ماں کو خبر ہوتی وہ دوڑتی ہوئی آتیں میاں بیوی کی مائیں اُن کی سہیلیاں بڑی بوڑھیاں آتیں۔ دلہن کو مشورہ دیتیں، چارپائی سے نہ لگ جانا، گھر کے کام کاج میں خود کو پہلے سے زیادہ مصروف رکھنا، اپنی صحت کا خیال رکھنا، روغنی غذاؤں سے پرہیز کرنا، نماز پڑھنا اللہ کو سجدے میں اپنے بچے کے خوبصورت مستقبل کیلئے دعائیں مانگنا اور دلہن اچھا ماں جی کہہ کر نہ صرف گھر کے کام کاج بلکہ زمیندار طبقہ کی دلہن کو کھیتوں میں کام کرتی نظر آتی۔ کچے گھروں کی چھت دیواروں، رسوئی اور صحن گوبر ملے مٹی سے لیپتے نظر آتی۔ دردِ زِہ محسوس کرتی تو محلے کی دائی اماں کو بلایا جاتا اور بخیروعافیت اولاد کی دولت سے سرفراز ہوجایا کر تی تھی۔ کبھی کسی نے نہیں سنا تھا کہ کسی خاتون کا چھوٹا یا بڑا آپریشن ہو اہو ایک کے بعد ایک اولاد ہوتی، مجال ہے اُن کی جسامت میں کوئی تبدیلی آتی چاک وچوبند رہتی۔

لیکن آج وہ دور گزرا تو واقعی گزر گیا ہم لوگوں نے اپنے بڑوں کے عمل اور کردار کو نظر اندا کر دیا۔ زندگی کے طور طریقے بدل دئیے گھروں کا خاندانی ماحول تبدیل ہوگیا۔ آج جب دلہن کو اپنے وجود میں کوئی تبدیلی محسوس ہوتی ہے تو اہل خانہ اس کی تصدیق کیلئے قریبی ہسپتال کی لیڈی ڈاکٹر اگر لیڈی نہ ہوتو مرد ڈاکٹر کے پاس لے کرپہنچ جاتی ہیں ڈاکٹر چیک اپ کے بعد خوشخبری دیتی ہے مبارک ہو دلہن کا پاؤں بھاری ہوگیا ہے۔ رشتوں کے چہرے کھل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کی لاٹری نکل آتی ہے دلہن کو وٹامن کی ادویات سے شاپنگ بیگ بھر کر دیتے ہوئے کہتی ہیں دس پندرہ دن بعد دلہن کو ہسپتال لے آیا کرو تاکہ چیک اپ ہوتا رہے۔

دلہن کو چارپائی سے لگا دیا جاتا ہے گھر کے سبھی افراد اُس کے ملازم ہوجاتے ہیں دلہن کو دوقدم چلنے کی اجازت تک نہیں ملتی، دلہن چارپائی پر بیٹھ کر کھاتی ہے وٹامن کی ادویات لیتی ہیں گھر کے سبھی افراد خوشی سے پھولے نہیں سماتے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ایک ماہ بعد جب دلہن کو لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے تو چیک اپ کے بعد خوشخبری دیتا ہے۔ ماشاء اللہ بچہ بہت صحتمند ہے۔ بس آپ لوگوں کو اختیاط کی ضرورت ہے دلہن چلتے پھرتے اگر گرگئی تو نقصان کا اندیشہ ہے دن اور مہینے گزرتے ہیں۔ ساتویں آٹھویں مہینے ڈاکٹر کہتی ہے بچہ ضرورت سے زیادہ صحتمند ہے نارمل ڈلیوتی ممکن نہیں ہوگی اس لیے کہ دلہن یا بچے کو کچھ بھی ہوسکتا ہے اس لیے میجر آپریشن کرنا پڑے گا۔ دلہن اور اُس کے چاہنے والوں کو اس قدر خوفزدہ کر دیا جاتا ہے کہ وہ آپریشن کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ڈلیوری کے ایام میں ڈاکٹر کہتی ہے ہماری کوشش ہوگی کہ آپریشن کامیاب ہولیکن بچہ چونکہ بہت صحتمند ہے دونوں میں ایک کی زندگی کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے تو دلہن کے چاہنے والے گھبراہٹ میں کہہ دیتے ہیں بچہ خدا پھردے دے گا دلہن کو بچانے کی کوشش کرو اور خود پرست دکھی انسانیت کی خدمت کے دعویدار ذاتی مفادات کیلئے نوجوان دلہن کا میجر آپریشن کرکے اُس کی زندگی برباد کر دیا کرتے ہیں۔ آپریشن تھیٹر سے نکل کر بے چین چاہنے والوں کو خوشخبری دیتے ہیں زچہ بچہ خیریت سے ہیں بہت مشکل آپریشن تھا ہم نے جان ماردی اور دونوں کو بچالیا ہے فیس کیساتھ انعام کا حق تو ہمارا بنتا ہے۔ زچہ بچہ ہسپتال سے گھر لائے جاتے ہیں گھر میں خوشیاں کھیل رہی ہوتی ہیں لیکن ایک جوانی چارپائی پر پڑی زخموں پر مرہم رکھ رہی ہوتی ہیں کسی قدر بدبختی ہے۔ دکھی انسانیت کے علمبردار ڈاکٹرز کی، ذاتی مفادات کیلئے جو انسال خاتون کا میجر آپریشن کرکے اُس کی زندگی کا حسن اُس سے چھین لیا کرتے ہیں جیسے جیسے بچہ بڑھا ہوتا ہے اُس کی ماں کا وجود پھولتا رہتا ہے وہ بیچاری پھول پھول کر غبارہ ہو جاتی ہے۔

یہ ہے ہمارے آج کے معاشرے میں ڈاکٹرز کا انتہائی انسانیت سوزکردار !لیکن اگر سوچیں تو قصور ڈاکٹرز کا بھی نہیں، قصور تو ہم چاہنے والوں کا ہے قصور تو ہونے والی دادی ماں کا ہے قصور تو ہونے والے شوہر کا ہے جوشانِ قدرت میں نارمل ڈلیوری کو نظرانداز کرکے ڈاکٹرز کے پاس جاتے ہیں۔ ڈاکٹرز گھروں سے تو ایسے مریض اُٹھا کر نہیں لے جاتے دراصل خدا پر ہمار ایقین کمزور ہوگیا ہے بھول گئے ہیں کہ زندگی لینے اور دینے والا وہ خدا ہے جو ہمارا سب کچھ ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اپنی بہن، بیٹی کی خوبصورت زندگی سے اُس کے وجود کی خوبصورتی چھین لینے کے مجرم نہ صرف ہم بلکہ وہ خاتون بھی ہے جو چاہنے والوں پر احسان کا سوچتی ہے۔ وہ بھول گئی ہے کہ جب وہ پیدا ہونے لگی تھی تو اُس کی ماں اور ماں کی ماں کا عمل کیا تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. صدام حسین کہتے ہیں

    ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ تحریر فرمائی ہے آپ نے ۔اور یہ سچ ہے کہ اس کے ذمہ دار ایک ڈاکٹر سے زیادہ اس کے گھر کے اہل و عیال اور وہ عورت خود ہوتی ہے ۔ آج کل ایک بات لوگوں کے ذہنوں میں ڈال دیا گیا ہے کہ ایک حاملہ عورت کو صرف آرام کرنا چاہیے ورنہ جچہ بچہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔جبکہ معاملہ ہمیشہ اس کے خلاف ہوتا ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔