اگر خدا موجود ہے تو نظر کیوں نہیں آتا؟ 

 ڈاکٹر احید حسن

خدا ظاہر ہوکر ایمان کا مطالبہ کیوں نہیں کرتا ؟ وہ کیوں سات آسمانوں میں چھپ کر خود تک پہنچنے کا مطالبہ کرتا ہے؟ وہ کیوں براہ راست کلام نہیں کرتا اور پیغمبروں پر کتابیں نازل کرکے انسانوں سے بات چیت کرتا ہے؟ وہ کیوں انسان سے مخلوق دیکھ کر خالق تک پہنچنے کا تقاضا کرتا ہے؟ اس کی سب سے پہلی وجہ تو  یہ  ہے کہ اگر خدا سامنے ظاہر ہوجاتا اور براہ راست کلام کرتا تو آزمائش یا امتحان کا عمل ممکن نہ ہوپاتا۔کس کی مجال ہوتی کہ خدا کو دیکھ کر اس کا انکار کرے، اس کے حکم کو براہ راست سن کراس کی سرتابی کی جرت کرے؟ اور اگر خدا لوگوں کو آزادانہ اختیار دے کر انہیں حکم عدولی کرنے دیتا تو یہ خدا کے رتبے کی توہین ہوتی ۔ ایسا کرنے کی صورت میں خدا کو اپنا اختیار اور طاقت غیب میں رکھنی پڑتی۔ آزمائش ممکن بنانے کے لیے دوسری صورت یہ ہوتی کہ خدا بھیس بدل کر مخلوق کی نگاہوں کے سامنے بھی ہوتا اور اوجھل بھی۔ اس صورت میں بھی خدا ایک اعتبار سے غیب ہی میں چلا جاتا۔

اگر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نظر آتا تو پھر کسی امتحان کی گنجائش موجود نہ رہتی۔ کون ایسا ہوتا جو اللہ تعالیٰ کو دیکھنے اور اس سے گفتگو کرنے کے بعد اس کی نافرمانی کا سوچتا۔ لہٰذا خدا کے غیب میں رہنے کی پہلی وجہ یہی ہے کہ یہ امتحان کا نظام قائم ہو جس میں امیدواروں کواپنی مرضی چلانے کااختیار ہو۔جو لوگ اس میں کامیاب ہوں گے، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں اپنا دیدار کروائے گا اور اپنی جنت میں انہیں شرف ملاقات بھی بخشے گا لیکن اس کے لئے ہمیں یہ چند سالہ زندگی اپنے رب کے سچے بندے بن کر گزارنا ہو گی۔ اور اگر خدا سامنے ظاہر ہوتا انسان کو قیدی کی طرح رکھتا تو پھر انسان کو عمل اور ارادے  کی وہ آزادی( Free will)  کس طرح ملتی جو اسے اس کے اشرف المخلوقات ہونے کا تقاضا ہے. پھر انسان کس طرح اشرف المخلوقات کہلاتا.امتحان کا سوالی پرچہ ہمیشہ چھپا کر رکھا جاتا ہے. اگر ایسا نہ ہو تو پھر امتحان کا فائدہ. خدا بھی تو ایک امتحان ہے. اگر وہ خود ہی سامنے ہو تو پھر اس سارے امتحان کا فائدہ.

خدا اس لیے نظر نہیں آتا کہ انسان اسے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا۔ موسی علیہ السلام کا واقعہ اس کی دلیل ہے۔جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس کا ہر وقت پیچھا نہیں کیا جاتا نہ ہی اسے ہر وقت نظروں کے سامنے رکھا جاتا ہے اور نہ ہی اس پہ کوئی داروغہ مقرر کیا جاتا ہے بلکہ اس کی عقل و فہم و فراست پہ اعتماد کرکے خود کو اوجھل رکھا جاتا ہے اور اس سے اس کی عقل اور آزادی کا امتحان لیا جاتا ہے. خدا چاہتا ہے کہ ہم اپنی محبت، عقل، تلاش اور جستجو سے اسے خود پائیں نہ کہ یہ کہ وہ بن بلائے مہمان کی طرح پاس ہو.اس لیے وہ خود سامنے نہیں آیا لیکن اس کائنات میں اپنی بیشمار نشانیاں پھیلا دی ہیں. کبھی آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کرکے، کبھی حوا کو آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا کرکے ، کبھی قوم نوح کو غرق کرکے ،کبھی ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں زندہ رکھ کر، کبھی عیسی علیہ السلام کو بن باپ کے پیدا کرکے تو کبھی تین سو تیرہ کو ایک ہزار پہ فتحیاب کرکے.

جب موسی علیہ السلام نے خدا کو دیکھنے کی استدعا کی تو اللہ نے یہ فرمایا کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ چنانچہ جب اللہ نے اپنی ایک تجلی پہاڑ پر ڈالی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا ۔ بتانا یہی مقصود تھا کہ انسان میں ابھی تو اتنی بھی صلاحیت نہیں کہ وہ سورج کو چند فٹ کے فاصلے سے دیکھ سکے چہ جائکہ سورج کے خالق کو براہ راست دیکھے۔ جو انسان خالق کی ایک عام تخلیق سورج کو دیکھنے کی سکت نہیں رکھتا وہ کیسے خالق کو دیکھنے کی سکت کا دعوی کر سکتا ہے.

اور انسان ایک عام افسر کا نافرمان ہوکر اس سے نہیں مل سکتا یا خاص بندہ ہوئے بغیر اس سے نہیں مل سکتا تو خدا کا نافرمان خدا سے کس طرح مل سکتا اور دیکھ سکتا ہے لیکن جن لوگوں نے اس سے عشق کیا ان لوگوں نے خدا سے بات کی اور اللہ نے ان کو اپنا دیدار بھی کرایا. انسان اپنی بدعملی اور کوتاہی اور رب کی بغاوت کی اس سزا کا ذمہ دار خدا کو کیسے ٹھہرا سکتا ہے.

خدا کے دکھائی نہ دینے کی ایک اور وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ خدا اگر اس کائنات میں کسی مقام پر موجود ہوکر خود کو ظاہر کردے تو وہ زمان و مکان میں مقید اور محدود ہوجائے گا جبکہ خدا تو زمان و مکان سے ماورا ہے۔ وہ اس زمان و مکان کا خالق ہے اور وہ کس طرح اس زمان و مکان کا پابند ہوسکتا ہے جس کو اس نے خود پیدا کیا.

۴۔ انسانوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو خدا کو قابل دید سمجھتا اور اسے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ لوگ صوفی، سینٹ، سادھو، مونکس اور دیگر ناموں سے جانے جاتے ہیں ۔ ان کے نزدیک خدا کو ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا البتہ اگر من کی آنکھیں کھول لی جائیں تو تصور کی دنیا میں خدا کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس گروہ کے دعووں کو تسلیم کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ معروضی مشاہدات نہیں جو سب کو نظر آتے ہوں۔ یہ موضوعی مشاہدات ہیں جن کا تعلق وجدان اور ذاتی تجربے سے ہے اور کسی کا ذاتی تجربہ اس وقت تک حجت نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ عقل یا نقل سے ثابت نہ کردیا جائے۔

اور انسان ایک محدو د ڈائمنشن والی مخلوق ہے جو انہی چیزوں کو دیکھ سکتی ہے جو اس کی ڈائمنشن کے احاطے میں آتے ہوں۔ فرشتے اور جنات کی ڈائمنشن مختلف ہے اس لیے انہیں دیکھا نہیں جاسکتا ۔ چنانچہ خدا کا معاملہ تو بعید از قیاس ہے۔

اگر ہم ان مخلوقات کو دیکھیں جو خدا کی حضوری میں جی رہے ہوتے ہیں تو ان کے پاس غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ چنانچہ فرشتے اول تو کوئی حکم عدولی کر ہی نہیں سکتے اور اگر کر بھی لیں تو فورا ان پر سزا کا نفاذ ہوجاتا ہے۔ خدا کے ظاہر ہونے کے بعد کسی بھی معمولی حکم عدولی پر سزا کا نفاذ ہونا لازمی ہے۔اسی طرح سورہ انعام میں بیان ہوا ہے کہ اگر ہم ان کے مطالبے پر پیغمبر کی جگہ کوئی فرشتہ اصل شکل میں بھیجتے تو پھر تو قصہ تمام کردیا جاتا اور اور ان کو مہلت ہی نہ ملتی۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو خدا کے غیب میں رہنے کی ایک بڑی وجہ جزا و سزا کے نظام کو موخر کرنا اور انسانوں کو مہلت دینا ہے تاکہ وہ اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لیں اور رجوع کرلیں۔

کہتے ہیں ایک کافر نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ خدا جب نظر نہیں آتا تو پھر تم لوگ اشہد کہہ کر اس کی گواہی کیوں دیتے ہو۔ اور جب ہر کام اللہ ہی کرتا ہے تو پھر بندہ مجرم کیوں ہے ؟ اور شیطان جب آگ سے بنا ہوا ہے تو پھر اسے دوزخ میں ڈالنے سے اس کو کیا تکلیف ہوگی۔ آگ آگ کو کیسے تکلیف دے سکتی ہے؟ بزرگ نے ان تینوں سوالات کے جواب میں ایک مٹی کا ڈھیلا اٹھایا اور کھینچ کر اس کافر کے سر پر دے مارا۔ کافر کا سر پھٹ گیا اور وہ سیدھا عدالت میں پہنچا اور بزرگ پر مقدمہ دائر کر دیا۔ بزرگ  عدالت میں بلائے گئے۔ قاضی صاحب نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے اسے ڈھیلا کیوں مارا۔ سائیں صاحب بولے کہ ان کے تینوں سوالات کا ایک ہی جامع جواب دیا ہے۔ قاضی صاحب نے کہا مگر یہ جواب کیسے ہوا؟ تو وہ بولے کہ اس کافر سے پوچھیے کہ ڈھیلا لگنے سے اسے تکلیف ہوئی؟وہ غیرمسلم بولا۔ یقینا ہوئی۔ بزرگ بولے مگر وہ تکلیف تمہیں نظر بھی آئی۔ کافر نے کہا نظر تو نہیں آئی مگر محسوس تو ہوئی۔ بزرگ صاحب نے کہا بس یہ تمہارے پہلے سوال کا جواب ہے کہ خدا نظر تو نہیں آتا مگر معلوم تو ہے۔ دوسرے سوال کا جواب اس طرح ہے کہ جو کرتا ہے خدا کرتا ہے۔ پھر تم نے دعویٰ مجھ پر کیوں کیا؟ ڈھیلا بھی اُسی نے مارا ہے اس سے پوچھو۔ تیسرے سوال کاجواب اس طرح ہے کہ وہ غیر مسلم بھی مٹی کا بنا ہوا ہے اور ڈھیلا بھی مٹی ہی کا تھا۔ تو جس طرح مٹی نے مٹی کو تکلیف پہنچائی اسی طرح آگ بھی آگ کوتکلیف دے سکے گی۔ وہ غیر مسلم جھٹ بول اٹھا کہ تینوں مسئلے میری سمجھ میں آگئے۔ میں اپنا دعویٰ واپس لیتا ہوں۔

ماہرین طبیعیات نے دریافت کیا ہے کہ مادے کے جوہروں یا ایٹم کی ساخت یا قوت میں ذرا برابر تبدیلی زندگی کو زمین پہ ختم کردے گی۔ مثلا اگر ایٹم یا جوہر میں موجود مثبت ذرے یعنی پروٹون صرف 2٪ بھی زیادہ بڑے ہو جائیں یا اگر اچانک منفی ذرے یا الیکٹرون کی جسامت یعنی سائز دوگنا کر دیا جائے تو ایٹم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور زندگی جو ان جواہر پہ مشتمل ہے تباہ و برباد ہو جائے گی۔اگر زمین اپنی موجودہ جسامت سے تھوڑی بھی چھوٹی ہوتی تو یہ مریخ کی طرح زندگی کے لیے بالکل نامناسب ہوتی۔ اگر زمین کے مرکز میں پگھلا مرکزہ یا Molten core نہ ہوتا تو زمین کے گرد موجود حفاظتی مقناطیسی میدان تباہ ہوجاتا۔ اگر ہمارا چاند نہ ہوتا تو ہماری زمین کا موسم اتنا سخت ہوتا کہ اس پہ زندگی کا وجود ناممکن ہوتا۔ہماری زمین پہ پانی اور خشکی کی مناسب مقدار موجود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی سیارے پہ زندگی کے وجود کے لیے 322 سائنسی پیمانوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ان پیمانوں میں سے سب کیا صرف ایک  کا بھی  بغیر کسی خالق کے خود بخود وجود میں آنا سائنس ناممکن ثابت کرچکی ہے۔  یہ سب سائنسی حقائق ایک عظیم اور ذہین خالق کے وجود کی دلیل اور ذہین تخلیق یا Intelligent design کا ثبوت ہیں کہ خالق نے کس طرح زندگی کے لیے زمین کو ہر طرح مناسب بنا دیا۔

سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ کائنات میں موجود ایک دافع قوت یا Repelling force یعنی تاریک توانائی یا Dark matter اتنی کافی ہے کہ یہ کائنات کے پھیلاؤ کو نہ تو زیادہ ہونے دیتی ہے کہ کائنات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو  اور نہ ہی کم۔اگر اس توانائی کا اثر زیادہ ہوتا تو یہ کشش ثقل یا Gravity پہ قابو پالیتی جو کہ کائنات کی بقا کے لیے لازمی ہے۔ایک ملحد ماہر علم کائنات یا Cosmologist فریڈ ہوائل کے مطابق ” حقائق کا ایک عام فہم مشاہدہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایک مافوق الفطرتی دانش یا Super intellect نے فزکس ،کیمسٹری اور بیالوجی کے حیرت انگیز کمالات کا مظاہرہ کیا ہے۔” یہ مافوق الفطرتی دانش خدا نہیں تو اور کیا ہے۔ ماہرین علم الکائنات یا Cosmology کے مطابق ایک ایسی کائنات کے خود بخود وجود میں آنے کا امکان 1010^23 میں ایک سے بھی کم ہے جو زندگی کو سہارا دے سکے یعنی 10000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000 میں سے ایک بھی نہیں یعنی کہ ناممکن۔2012 ء میں WMAP کے مطابق کائنات کی عمر 13.772 بلین یعنی تیرہ ارب سال سے زیادہ ہے جس کا مطلب ہے کہ کائنات میں کسی ارتقائی عمل سے خود بخود زندگی کا وجود میں آنے کا امکان اتنا کم ہے جو کائنات کی اس تمام عمر میں بلکہ اس سے بھی لمبی عمر میں نہیں ہوسکتا تھا۔اس کا واضح مطلب ہے یہ کائنات اور زندگی خود بخود وجود میں نہیں آئی بلکہ اسے ایک خالق نے تخلیق کیا۔

اگر روح نظر نہیں آتی عقل نظر نہیں آتی تو اس میں کیا عجب!!!جو خدا بھی نظر نہیں آتا ؟؟ یہ دور کی بات ہے !!!یہ تو شے ہیں جو نظر نہیں آتی تو یہ کونسی اچنبھے والی بات کہ ان کا بنانے والا نظر نہ آئے !

کئی دہائیوں سے سٹرنگ تھیوری کو تیار کیا گیا ہے، جس کا مقصد ہر چیز کا نظریہ بننے( Theory of everything) کا ہے، جس کا مقصد کائنات کی تمام چار بنیادی قوتوں  یعنی کشش ثقل، برقی مقناطیسیت ، طاقتور اور کمزور جوہری قوتوں کو متحد کرنا ہے. اس نظریے کی ایک انقلابی دریافت یہ ہے کہ پورے کائنات کے مکان یعنی سپیس کے تین طول و عرض یا بعد یا Dimensions (لمبائی، چوڑائی اور اونچائی) کے بجائے  دس بعد یا Dimensions ہونے چاہئے  لیکن پھرہم صرف تین طول و عرض کیوں دیکھتے ہیں؟  سٹرنگ نظریہ کے پہلے تصور میں یہ فرض کیا گیا تھا کہ یہ اضافی بعد یا Dimensions دیکھنے کے لئے بہت چھوٹے  ہیں اس لیے نظر نہیں آتے.  ,اس طرح پوری کائنات بنیادی طور پر 3D دنیا کے طور پر ہی ہے.  لیکن 2000ء سے چند سال پہلے محققین نے محسوس کیا کہ یہ اضافی طول و عرض یا Dimensions عام تین طول و عرض کی طرح بڑے ہوسکتے ہیں.  ہم یہ اضافی طول و عرض اس لیے نہیں دیکھ سکتے ہیں کیونکہ ہماری 3D دنیا Brane نامی ذیلی کائنات ہے،جو ہمارے تمام معاملات اور برقی مقناطیسی لہروں کو محدود کردیتی ہے.وہ فوٹان جن سے ہم اشیاء کو دیکھتے ہیں وہ اس تھری ڈی Brane سے باہر نہیں جا سکتے لہذا ہم اس تھری ڈی Brane سے باہر کچھ نہیں دیکھ سکتے  ,برقی مقناطیسی یا الیکٹرومیگنیٹک شعاعیں (ریڈیو لہریں یا ریڈیو ویوز، مرئی روشنی یا Visible light، الٹراوائلٹ یا بالائے بنفشی شعاعیں ، اور ایکس رے) وہ بڑے وسائل ہیں جو ہم پوری کائنات کی چیزوں کو دیکھنے یا معلوم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں.چونکہ یہ برقی مقناطیسی لہریں یا الیکٹرومیگنیٹک شعاعیں ہماری تھری ڈی Brane میں محدود ہیں، یہ فوری طور پر اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ ہم کیوں خدا کا پتہ نہیں لگا  سکتے جو اس زمان و مکان کا خالق لیکن ان تین  بنیادی بعد یا Dimensions سے باہر رہتا ہے ,ہمارے 3D Brane اور پوری کائنات جو کہ 10Dہے، کے درمیان تعلق ہمارے گھر میں موجود ہموار یعنی فلیٹ ٹی وی سکرین (2D) کی طرح ہے جو دو ڈی ہے.فرض کریں کہ ٹی وی اسکرین پر کسی قسم کی مخلوق موجود ہیں اور وہ جس روشنی سے دیکھتی ہیں  وہ بھی ٹی وی اسکرین تک محدود ہیں، اس صورت میں وہ ہمیں نہیں دیکھ سکتے ہیں یہاں تک کہ اگر ہم صرف ٹی وی اسکرین سے چند سینٹی میٹر تک دور رہیں.۔

اسی طرح  خدا ہماری تھری ڈی Brane  سے باہر رہتا ہے تو ہم اس کو نہیں دیکھ سکتے ہیں یہاں تک کہ اگر وہ صرف ایک سینٹی میٹر ہمارے ہم سے دور ہے.اور یہی بات قرآن کرتا ہے کہ ہم اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں اور قرآن ایک خدا کو ماننے کی دعوت دیتا ہے۔ جو لوگ خدا کو نہیں مانتے ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ خدا اگر ہے تو ہم کو دکھائی کیوں نہیں دیتا۔ مگر ہماری معلوم کائنات بتاتی ہے کہ کسی چیز کا دکھائی نہ دینا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اس کا کوئی وجود بھی نہیں۔ اس کی ایک مثال قوت کشش ہے۔ خلا میں بے شمار الگ الگ ستارے اور سیارے ہیں۔ انسانی علم کہتا ہے کہ ان اجرام سماوی کے درمیان ایک غیر مرئی قوت کشش ہے جو وسیع خلا میں ان کو سنبھالے ہوئے ہے۔ پھر انسان جب غیر مرئی ہونے کے باوجود قوت کشش کی موجودگی، بلیک ہولز، الیکٹران، ڈارک مادے اور ڈارک توانائی کا اقرار کر رہا ہے تو غیر مرئی ہونے کی وجہ سے خدا کے وجود کا انکار کرنے میں وہ کیوں کر حق بجانب ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب. الحمدللہ

حوالہ جات:

خدا نظر کیوں نہیں آتا؟ | پروفیسر عقیل …

https://aqilkhans.wordpress.com › …
http://www.mubashirnazir.org/ER/Q0019-Visibility%20of%20God.htm
https://
www.com/amp/s/airdawah.wordpress.com/2016/09/26/%D8%A7%D9%86-%D8%AF%DB%8C%DA%A9%DA%BE%DB%8C-%D8%B1%D9%88%D8%AD-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D9%84%D8%AD%D8%AF/amp/?espv=1
http://m.dunya.com.pk/index.php/special-feature/2014-02-26/8188
http://myonlinequran.com/tafseer.php?page=1&ipp=8&tid=13&urtrans_id=4&tafseer_id=11
http://www.web-books.com/GoodPost/Articles/SeeGod.htm

تبصرے بند ہیں۔