دل سے نکلے گی نہ مرکر بھی وطن کی اُلفت!

محمد حسین ساحلؔ

ہندوستان کوطویل جدوجہدکے بعدآزادی کا ایک حسین ترین تحفہ حاصل ہوا، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کانذرانہ پیش کیا، تحریکیں چلائیں تختہٴ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرأت وحوصلہ اورکمال بہادری کے ساتھ گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے، آخرکار غیرملکی فرنگی ملک سے نکل جانے پرمجبورہوئے۔

ہمیں آزادی ملی، ہمیں آئین ملا، ہمیں ترنگا جھنڈا ملا،ہمیں قومی ترانہ ملا،ہمیں آئین کے مطابق اظہار خیال کی آزادی ملی،اپنے اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ملی، امن و امان سے رہنے کی آزادی ملی۔ مگر ہم موجودہ سیاسی منظر، پس منظر اور بدلتے ہوئے منظر پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمیں آزادی کے بعد ہندوستانی آئین نے سب کچھ دیا مگر ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ ہمیں بولنے سے روکا جارہا ہے، ہمیں عبادت سے روکا جارہاہے، اسلامی عقائد میں دخل اندازی کی جارہی ہے، ہمیں بھائی چارگی سے رہنے نہیں دیا جارہا ہے، ہماری ہانڈیوں کو ٹٹولا جارہاکہ ہم کیا کھا رہے ہیں۔ اُ س پر بھی نظر ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں، ہم کس سے گفتگو کررہے ہیں۔ دانشوران قوم پر جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ آج ہندوستان کا نہ صرف مسلمان بلکہ، سکھ، عیسائی اوردلتوں کو بھی پریشان کیا جارہا ہے، لوگوں کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔ مدارس جو ہمارے تہذیب اور قوم کا سرمایہ ہے، انھیں بند کرنے پر موجودہ حکومت آمادہ ہے۔ ملک میں انسانوں سے جانور بہتر نظر آنےلگے ہیں۔ ہم سے ہی حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ مانگا جارہا ہے۔

یوم آزادی اور یوم جمہوریت اب ایک رسم کے طور پر منائی جارہی ہے، ملک میں یوم آزادی کیا ہے، ہمارا آئین کیا ہے، یوم جمہوریت کیا ہے، سیکولرزم کسے کہتے ہیں، بھائی چارگی، امن وامان کیا ہے،اب یہ سمجھانے کے لئے ہمیں ورکشاپ منعقد کرنا ہوں گے، ہمیں کانفرنس اور سمینار کا انعقاد کرنا ہوگا،ہمارے اسکولوں میں اور مدارس میں اس کادرس دینا ہوگا۔ ورنہ یہ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ تہوار کے طور پر منائے جائیں گے، شہیدوں کی قربانیوں کو فراموش کیا جائے گا۔ جمہوریت کے خاتمے کا آثار نمودار ہورہے ہیں، سیکولرزم کا گلا گھونٹنے کی کوشش جاری ہے۔ مغلوں کے شاندار تاریخی باب کو نصابی کتابوں سے ہٹایا جارہا ہے۔ اب وہ مائیں بھی نہیں رہیں جو صلاح الد ین ایوبی اور خالد بن ولید جیسے جانباز لیڈروں کو جنم دے۔

آزاد ہندوستان، سیکولر ہندوستان میں مذہبی آزادی کو مجروح کیا جارہا ہے، گئو کشی کے نام پر لوگوں کو جان سے سے مارنے کے بیشمار واقعات کا سلسلۂ جاری ہےجو کہ سراسرغیر منطقی اور آئین کے خلاف ایک منظم تحریک چلائی جارہی ہے، مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی کیا کھا رہے ہیں اور انھیں کھانا چاہیے یہ ایک مخصوص گروپ کی سوچ ہندوستان کے کروڑوں لوگوں پر عائد کی جارہی ہے۔ دلت اورمسلم بڑے کا گوشت کھا رہا ہے، عیسائی خنزیرکھارہاہے، جین سبزی کھا رہا ہے، انھیں کھانے دیجئے، ان پر غیر ضروری فرضی قوانین بنا کر لادنے کا کام نہیںکیا کرنا چاہیے۔ اُسی طرح لوگوں کو نماز پڑھنے کی اور پوجا کرنے کی بھی پوری پوری اجازت دینی چاہیےجو گئو متر پینے والے ہیں کو شراب پینے کوزبردستی نہیں کرسکتے اور گنگا جل پینے والے پر آپ شراب پینے کا دبائو نہیں ڈال سکتے۔ زم زم پینے والے کو آپ گئومتر پینے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ آزاد ہندوستان کے ہم سب شہری ہیں، ہمیں آزادی کے ساتھ رہنے دیجئے۔

نئی نسل تک ہمیں یہ پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں نے ۷۰۰سالوں تک اس ملک پر حکومت کئی ہے، مگر ایک بھی بادشاہ نے کبھی ہندو۔ مسلمان میں تفریق پیدا کرنے کی بات نہیں کی۔ ہم سب کو ان غیر ضروری اور خلاف آئین باتوںمیں الجھاکر رکھنے کے بجائےہمیںملک کی ترقی اور خوشحالی پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیم، صنعت وحرفت پر توجہ دینی کی ضرورت ہے۔ ورنہ ڈیجیٹل ورلڈ میںلوگ کو اپنے لیپ ٹاپ پر جلتے مکانات، گرتی لاشیں، روتے بلکتے بچے اور مائوں کی خبریں اور تصاویر دیکھنے کے سوا اور کچھ نہیں بچے گا۔ ایک بات ذمہ داری کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ جمہوریت کی ساخت قومی یکجہتی کے ستونوں پر قائم ہے، اگر ان ستونوں کو ہلانے کی یا گرانے کی کوشش کی گئی تو جمہوریت کا سیکولرزم کا جنازہ نکل جائے گا۔

انگریزوں کی قیدوبندکے مصائب جھیلنے اورانکی گولیوں کانشانہ بننے والوں کی تعدادتوشمارسے باہرہے۔ عام مسلمانوں کے علاوہ شہیدعلماء کی تعدادپچاس ہزارتک بتائی جاتی ہے؛ان اہم لیڈروں اوران اہم واقعات کے بغیر تاریخ آزادی ادھوری ہے،جن میں سرفہرست بہادرشاہ ظفر،بیگم محل،نواب مظفرالدولہ،امام بخش صہبائی، مولانابرکت الله بھوپالی، مولاناحسرت موہانی، مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی،ڈاکٹرسیف الدین کچلو، مولانا مظہرالحق، ڈاکٹرسیدمحموداورفضل حق خیرآبادی، صرف جنگ غدر میں 27ہزار مسلمان شہید ہوئے، مگر جب بھی ملک کی آزادی کا ذکرکیا جاتا ہے، اس میں مسلمانوں کاتذکرہ کیوں نہیں کیا جاتا۔ اُ س وقت ہر سیاسی اور غیر سیاسی لیڈر اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ یہ آزادی عدم تشدد کی بناپر حاصل ہوئی ہے۔ جو ایک گمرہ کن بیان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ان کے علاوہ بھی مسلمانوںکی ایک بڑی تعداد کاذکرتاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے؛جس کی یاد دلوں میں تازہ اورتاریخ کی نئی کتابوں میں محفوظ رہنی چاہیے؛ہماری نسل نو کو اس سے واقف کرانا چاہیے۔ غرض ہرطرح ہرموقع پرمسلمان جنگِ آزادی میں برابرشریک رہے ہیں، اُن کوآج فراموش کیاجارہاہے۔

ہمار ے پاس محمد ﷺ جیسا قائد موجود ہے، ہمارے پاس راہ ہدایت کی کتاب قرآن کی صورت میں موجود ہے،ہمارے پاس حضرت فاروقؓ، حضرت عمرؓ، صلاح الدین ایوبی کےسبق آموز کارنامے ہماری اسلامی تاریخ میں محفوظ ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہےمگر افسوس ہمارے اعمال ندارت ہیں۔

کہاں ہے ہمارے علماء کہا ںہے ہمارےسیاسی لیڈران! کیوں مسلمان کے مسائل حل نہیں ہوتے، کیوں مسلمان متحد نہیں ہوتے، اگر آج بھی مسلمان متحد نہیں ہوںگے تو پھر کب متحد ہوںگے۔ کیا علماء کی تقاریر میں اب وہ پہلی سی حرارت نہیں رہی، کیا علماء سیاسی اور ذاتی مفاد میں الجھ گئے ہیں۔ کچھ علماء تو الیکشن کے دنوں میں سیاسی اسٹیج پر ٹوپی اور عمامہ باندھ کر جلوہ افروز نظر آتے ہیں۔ مگر اپنی تقریر میں وہی باتیں پیش کرنا چاہیے، جس کا حکم اللہ اور رسولﷺ نے دیا ہے۔ اپنے مفاد کو قوم کے مستقبل پر ترجیح نہ دو۔ ہم مسلمانوں کو سنجیدگی سے یہ سوچنے کی ضرورت ہے، کہ ہم شیعہ، سنی، دیوبندی اور بریلوی کے خانوں سے باہر آئے اورسب مسلمان کے خانہ میں آجائے۔

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتارکا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

ہمیں سنجیدگی سے یہ یہ سوچنے کی ضرورت ہےکہ ہم کسمپرسی کے حالت میں کیوں ہے۔ ہم مغلوب کیوں ہے۔ سچے مومن بنو، کیونکہ تم ہی غالب رہونگے اگر تم مومن ہو۔

بقر عید بھی یوم آزادی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالےہماری سمت خراماں خراماں آرہی ہے۔ اسی عید کو اسلام میں عیدالاکبر یعنی سب سے بڑی خوشی کا موقع، اس نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، اس خوشی کو کبھی مجروح نہ کیا جائے، خوشی کو غمگین نہ ہونے دیں۔

حکومت کو چاہیے کہ عید الاضحی پر خصوصی اجازت نامہ جاری کرکے مسلمانوں کو محفوظ طریقے سے قربانی کی اجازت دی جائےاور مذہبی جذبات کا احترام کیا جائے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دلت، مسلم اور عیسائی یہ سب بھی ہندوستان کے شہری ہیں اور سب کو اپنے اپنے مذہبی آزادی اور اپنے عقیدے پر عمل کرنے کا آئینی حق ہے۔

دل سے نکلے گی نہ مرکر بھی وطن کی اُلفت

میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی

تبصرے بند ہیں۔