بعد از قربانی: اہل ایمان سے قربانی کے مطالبے

حکیم نازش احتشام اعظمی

بقرعید آئی اور گزر گئی، قربان کرنے والوں نے قربانی کے جانوروں کو چھری تلے لِٹا کر ذبح بھی کیا اور ’’صاحبِ استطاعت‘‘ ہونے پر ’’اطاعت‘‘ کا اظہار بھی اسی عمل سے کردکھایا، قربانی گزرتے ہی کئی سوال ہیں جو ہمارے ذہن و فکر کو مسلسل متزلزل کئے ہوئے ہیں۔ سوال کوئی مشکل بھی نہیں ہے اورخاص قربانی سے متعلق بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے قربانی کے اس عرفانی تقاضہ کو پورا کیا ہے یا نہیں جس کا مطالبہ رب دوعالم ہم سے کررہا ہے۔ کیا یہ قربانی ہم سے فقط جانوروں کا لہو بہانے کا مطالبہ کرتی ہے یا اورکچھ بھی اس کے تقاضے ہیں، جسے پورا کرکے ہم مومن کامل کا سرٹیفکیٹ اور سربلندی حاصل کرسکتے ہیں۔ کیا ہم جانور کی قربانی کے ساتھ اپنے اس جذ بہ کو زندہ وپائندہ کرسکے ہیں جس کی تعلیم ہمیں دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جس طرح احکام خداوندی کی تابعداری میں ہم جانور کے حلقوم پر چھری چلانے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں، اسی طرح ہمیں یہ بھی خیال رکھنا ہے کہ’بیشک ہماری نماز، ہماری قربانی اورہماری زندگی اورموت سب اللہ رب العزت کیلئے ہے۔ اگر قربانی کے بعد حکم الہی پر فداکاری کا یہ زریں جذبہ ہمیں میسر آ گیا ہے تو بڑے ہی فخر کیساتھ ہمیں یہ کہنے کا حق حاصل ہوگا کہ ’ہم نے اطاعت خداوندی کا فریضہ انجام دے دیا ہے۔

کیا ہم نے جانور کی طرح ہی اپنی اناکا خون بھی بہادیا ہے؟کیا اب ہم نے اپنے اندر وہ جرأ ت رندانہ پیدا کرلی ہے جو خالق و مخلوق کے درمیان حائل تمام رکاوٹوں کو عزم محکم کی چھری سے کاٹ کر انسان کوخالص رحمان کا بندہ بنا دیتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کے جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنے کے ساتھ ہم نے وہی استحضار اپنے اندر پیدا کرنا تھا جس کی تعلیم محسن انسانیت ﷺ نے نماز کے سلسلے میں ہمیں دی تھی، پیغمبراسلام نے فرمایا تھاکہ’اپنے رب کی عبادت یوں کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو‘(بخاری)۔ یعنی ہمیں زندگی کے تمام نشیب و فراز میں ہمیشہ اور پیہم یقین ہوجا ناچا ہئے تھا کہ ہمارارب ہمیں ہر جگہ، ہر گھڑی اور ہر حالت میں دیکھ رہا ہے۔ ہمیں ہمارا خالق و مالک عبادت کرتے ہوئے بھی دیکھ رہا ہے، تو وہی ہمیں اس کی نافرمانی اورمعصیت میں لت پت ہوتے وقت بھی دیکھ رہا ہے۔ احادیث مبارکہ کی اصطلاح میں یہی منصب احسان ہے، جسے صو فیاء نے معرفت سے تعبیر کیا  ہے اور اہل فقہ اسے ہی استحضار قرار دیتے ہیں۔ اگر ہم نے جانور کے ساتھ اپنے ذہن و فکر پر حاوی نفسانیت، اناپرستی اورغرورو تمکنت کو ہلاک کردینے میں کامیابی پالی تو یقین مانئے کہ ہم نے قربانی کے تقاضے کو پورا کرلیا ہے۔ مگر وائے افسوس کہ ’’نفرت‘‘ اب بھی ذبح نہیں ہوسکی، دلوں میں بغض و عناد کے پلے پلائے جانور آج بھی ایسی تیز دھار کے منتظر ہیں جو اْنہیں ہمیشہ کیلئے کاٹ ڈالیں۔ جب تک نفرت و عداوت کے یہ جانورہمارے سینوں میں زندہ ہیں اس وقت تک ہم نہ کامل انسان قراردیے جاسکتے ہیں اور نہ ہمیں کامل اورسچامومن کہا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم نے خالص مومن کی علامت کچھ یوں بیان فرمائی ہے۔

’بے شک سچے مسلمان تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ ‘(القرآن)

اپنے خالق کے تعلق سے ہمیں یہ یقین ہو کہ وہی ایک اکیلا مالک ہے انسانیت کا، وہی خالق ہے وہی آقا، اسی نے کائنات کو پیدا کیا، وہی زندگی اور موت پر قادر ہے، اسی کو نفع اور نقصان کا اختیار ہے۔ اسی کی رضا سے سب کچھ ہوگا وہ ناراض ہو جائے تو کسی کی خوشی کام نہیں آسکتی۔ وہی اکیلا تمام مخلوقات کا داتا، دستگیر، مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔ معزز سے معزز فرشتہ اور بلند سے بلند رتبہ والا ولی اس کا غلام اس کا محتاج ہے۔ اس کی ذات ہر کمزوری سے پاک، زندہ و جاوید ہے، اس کی بادشاہی ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ وہی اس لائق ہے کہ اس کا حکم مانا جائے۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ اس کے آگے سجدہ ریزی کی جائے، براہ راست اسی سے دعا کی جائے اور بجز اس کے اسماء حسنیٰ کے کسی اور کو واسطہ اور وسیلہ نہ بنایا جائے، جن کے ایمان کا یہ معیار اور اللہ کے ساتھ یہ تعلق ہو جائے تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے غیر اللہ کی الوہیت کا انکار کریں اور اللہ کے اقرار پر ان کا یقین جم جائے۔ مالک فرماتا ہے کہ صحیح معنوں میں مومن یہ ہیں اور ان کا ایمان اللہ کے یہاں معتبر ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہ صرف صلوٰۃ کی پابندی وقت کے ساتھ فرض کی ہے، بلکہ ان کو صلوٰۃ کی محافظت کا بھی سختی سے حکم دیا ہے۔ اور صلوٰۃ کی ادائیگی میں سستی اور غفلت برتنے والوں کو سخت عذاب اور خسارے کی وعید سنائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں جو سراسر ہدایت و رہنمائی ہے اس سے ہدایت حاصل کرنے والوں کی صفت یہ بتائی کہ وہ صلوٰۃ قائم کرتے ہیں۔ سورۃالنمل میں فرمایا:ترجمہ: ’’طٰسم۔ یہ آیات ہیں قرآن اور کتاب مبین کی ہدایت و بشارت ہیں ان ایمان لانے والوں کے لیے جو صلوٰۃ قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور یہ لوگ آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں ‘‘۔ (سورۃ النمل آیت۔ ۱ تا ۳ )

یعنی قرآن مجید کی آیات سے رہنمائی اور ہدایت صرف انہی لوگوں کو حاصل ہوسکتی ہے جو منجملہ دیگر ارکان کے صلوٰۃ قائم کرتے ہیں اور آخرت کی کامیابیوں کی خوشخبری بھی انہیں لوگوں کے لیے ہے۔ اور جو لوگ صرف مان کر بیٹھ جانے والے ہوں، وہ قرآن سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے جب تک کہ وہ ایمان لانے کے فوراً بعد ہی عملی اطاعت کے لیے آمادہ نہ ہو جائیں اور عملی اطاعت کا اولین مظہر ‘‘صلوٰۃ ’’ ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ ہم نے اللہ کے حکم کی تابعداری میں جانور توذبح کردیے۔ کیا ہم اس حکم پر پابند عمل ہیں جس کا تقاضہ ہم سے مالک کائنات نے ایک بار نہیں، بلکہ اپنی کتاب مقدس میں سیکڑوں بار کیا ہے۔ اسی طرح بندوں کے حقوق کا معا ملہ ہے، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، مساکین اور فقراء سے ہمدردی اورکمزوروں سے شفقت کا  معاملہ اطاعت خداوندی کا اہم ترین باب ہے۔ جب تک بندۂ مومن اپنے ذہن و دل میں رحمت و رأفت کو آراستہ نہیں کرلیتا، ا س وقت تک یہ ممکن ہی نہیں کہ ہمارے اندرموجود نفرت وعداوت اورکینہ وبغض کا اژدہا ہلاک ہوجائے۔ قربانی صرف جانوروں کے خون بہانے کا نام نہیں تھا، بلکہ جانور کی طرح اپنے اندرکے جانوراورنفس کو تہ تیغ کردینے کا نام قربانی تھا۔ اب جبکہ ایام تشریق مکمل ہوچکے ہیں تو ہم پرلازم ہے کہ اپنے اندر کا جا ئزہ لیا جائے اور خود سے پوچھاجائے کہ ہم قربانی کے تقاضہ کو پوراکرنے کیلئے اللہ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح عزم وارادے کو اللہ کے تابع کرچکے ہیں یا نہیں۔

1 تبصرہ
  1. دانش اسد کہتے ہیں

    بہت عمدہ ۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔