دل کی پشت پہ کچھ لکھا تھا

ناصر کاظمی کی زمین میں

افتخار راغبؔ

دل کی پشت پہ کچھ لکھا تھا

شاید اُس نے دیکھ لیا تھا

.

آنکھ کھلی تو حیرت جاگی

کس کے پیچھے بھاگ رہا تھا

.

سب تھے تخت نشین کہیں کے

سب کے ہاتھ میں اک کاسہ تھا

.

وہ بھی تھوڑی ضدّی سی تھی

میں بھی تھوڑا پاگل سا تھا

.

جانے کس دن سمجھ میں آئے

میں نے کس حد تک سمجھا تھا

.

دل کی ڈال سے اڑ گئی چڑیا

دشتِ جاں میں ہنگامہ تھا

.

اندر چیخ رہا تھا کوئی

باہر کتنا سنّاٹا تھا

.

بیچ میں تھا اک اجلا رستہ

دونوں جانب اک چشمہ تھا

.

باہر تھیں دیواریں سالم

اندر سب کچھ ٹوٹ چکا تھا

.

اندھے بھی دیکھیں گے اک دن

اچھے دن کا خواب برا تھا

.

سوندھی خوش بو پھوٹی غزل سے

پہلی بارش کا چھینٹا تھا

.

سب کے ذہن میں تھا کچھ راغبؔ

ہر کوئی کھویا کھویا تھا

تبصرے بند ہیں۔