دنیا بھی عارضی ہے مسکن بھی عارضی ہے
عمران عالم
دنیا بھی عارضی ہے مسکن بھی عارضی ہے
سانسوں کی انجمن میں گلشن بھی عارضی ہے
۔
کرتا ہوں عرض سن لو ارض و سما کے باسی
عارض کی عارضی بھی دھڑکن بھی عارضی ہے
۔
نکلے ہیں جب سفر میں چھانیں گے خاک صحرا
رہبر کی کیا ضرورت رہزن بھی عارضی ہے
۔
بے ساختہ لبوں سے کچھ پھول جھڑ گئے ہیں
معلوم تھا مجھے بھی سوزن بھی عارضی ہے
۔
شمعیں جلاؤ یا پھر قلب و جگر جلا دو
صورت ملے تو کیوں کر؟ درپن بھی عارضی ہے
۔
بادل کے درمیاں سے کرنیں جو آرہی ہیں
عالم سمجھ بھی جاؤ روزن بھی عارضی ہے
تبصرے بند ہیں۔