دنیا نے جو پڑھا ہے محبت کے باب میں

شازیب شہاب

دنیا نے جو پڑھا ہے محبت کے باب میں
لکھا وہی ہے آپ نے دل کی کتاب میں

چہرہ گلاب ہونٹ کنول زلف موگرا
کیسے حسیں لگیں نہ وہ عہدِ شباب میں

دھوکا نظر کا ہے کہ طلسمِ خیال ہے
وہ دکھ رہے ہیں صاف مجھے ماہ تاب میں

فصل بہار آئی ہے کیا روپ دھار کر
رنگت اداسیوں کی ہے ہنستے گلاب میں

حدّت سے روح تک مری پل میں جھلس گئی
کیسی ہے نرم دھوپ مرے آفتاب میں

پامال ہو کبھی بھی نہ حرمت شباب کی
گر جلوہ گر ہو حسن حیا کے حجاب میں

ہے کیا مجال جسم  ہو آمادۂ گناہ
جب روح بھی شریک  ہو کارِ ثواب میں

میں اپنی ضد کی دھوپ کو اوڑھے ہوئے شہابؔ
بے حال ہوں تعاقبِ حسنِ سراب میں

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اکثر انسان جس سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے اللہ تعالی اسے اسی کے ہاتھوں سے توڑتا ہے،
    جی ہاں،،،
    پہلے ٹوٹتا ہی ہے،بکھرتا ہی ہے،پہلے پہل کوئی بھی انسان شاید ہی ایک لمحے میں اسے آزمائش تسلیم کر کے اپنا آپ رب تعالی کے سپرد کر دے۔

    مگر نہیں،
    جب محبت کی ضرب روح پر لگتی ہے تو انسان کرچی کرچی ہو جاتا ہے،وہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا کہ یہ کیا ہوا؟
    کیوں ہوا؟
    اور اسی کے ساتھ کیوں ہوا؟
    جواب نہ پا کر وہ ہر پل،سب کچھ ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے،

    بعض اوقات اس کا ذہن اور دل ایسی جنگ لڑتے ہیں کہ زندگی کے تمام رشتوں سے الجھنا شروع کر دیتے ہیں،دھیرے دھیرے جب وہ اپنے سبھی ہاتھ پاؤں مار لیتا ہے،ہار مان لیتا ہے،

    جو پہلے خود پر،اپنی عقل پر،اپنی قسمت پر بے پناہ یقین کرنے والا شخص اب عاجزی میں جھکنے لگتا ہے،اسے یقین ہونے لگتا ہے اب مجھ سے کچھ نہیں ہو سکتا سوائے اس کے حکم کی بجاآوری کے،

    جب وہ رجوع کرتا ہے ذات پاک سے،جب وہ اپنے آپ کو اس کے سپرد کرتا ہے،تب اس میں عاجزی پیدا ہوتی ہے،پھر اسے آزمائش اور سزا کے بیچ کے راستے پر ڈال دیا جاتا ہے،اگر وہ ناامیدی کو امید میں بدلنا شروع کر دے،ٹوٹے وجود سمیٹنا شروع کر دے،یقین کے دھکوں سے اپنے زخم سی لے تو وہ آزمائش کے راستے پر چل پڑتا ہے اور آزمائش اسے رب تعالی کے قریب کرتی جاتی ہے،منزل مشکل مگر خوبصورت ہوتی جاتی ہے

    اور اگر وہ نہ جھکے،
    اس ٹوٹنے کے عمل کو برداشت نہ کر پائے،بہک جائے،نافرمان ہو جائے،اس سے ضد لگا لے کہ میں نہیں مانتا تو پھر وہ سزا کے رستے پر چل نکلتا ہے،جو راستہ بظاہر آسان ہے مگر منزل اسے رب سے دور کر دیتی ہے،کبھی سب کچھ عطاء کر کے،کبھی اسے دونوں جہانوں میں زندگی،موت کا بدصورت چہرہ دکھا کر۔

    اس لیے آزمائش ہو یا سزا،ٹوٹنا برحق ہے،دنیا کی محبت اور خواہشات سے بھرا یہ جسم و روح پہلے ٹوٹے گا،پھر نئے سرے سے صاف شفاف بنے گا،تب ہی تو اللہ تعالی کی محبت اس میں گھر کر سکے گی،
    وہ نور ہے،نور روح میں اترتا ہے،اور اس کے لیے ٹوٹنا لازم ہے۔

تبصرے بند ہیں۔