دورجدید کا انسان کیاکیا بھول چکا ہے؟ 

شہباز رشید بہورو

اسکولوں میں میٹینگ، کالجوں میں سیمپوزیم، یونیورسٹیوں میں سیمینار، ملکی اور عالمی سطح پر کانفرنسز سب کچھ بیکار دکھائی دے رہا ہے۔علوم کے مختلف شعبہ جات میں دن بہ دن نت نئے مواد اور انکشافات کی بھر مار آخر دنیا والوں کو کیا سبق دے رہا ہے؟ سب کچھ سمجھ سے باہر۔جنگ و جدال برقرار، فریب کا جال پھیلا ہوا، نفرتیں عروج پر، ظلم کی بٹھی گرم، مسائل اپنی جگہ، وسائل پر جنگ لگاتار  اور آج کا انسان ترقی و خوشحالی کا دعویدار سب کچھ سمجھنے سے قاصر، آخر یہ انسان بغیرسوچے سمجھے کہاں کی طرف جا رہا ہے۔اس چھوٹے سے کرہ ارض پر یہ چھوٹا سا انسان اور اس کی یہ خالق کے خلاف باغیانہ حرکات نہ ہنسانے کا رکھتا ہے اور نہ رلانے کا۔حکمرانوں کی اکڑ اور محکوموں کی بے غیرتی مجھے حیرت زدہ کر چکی ہے۔سیاست کا پلاو آگ کا الاو ہے جس میں ہر چھوٹے بڑے کو جھونکا جا رہا ہے۔ آج کی سیاست تو ظلم کی تحریک ہے اور اس تحریک نے پوری عوام کو عقل سے بے عقل کر دیا۔

اس potentially observeable کائنات میں ایک اندازے کے مطابق اتنے ہی ستارے ہیں جتنے اس زمین پر ریت کے ذرات ہیں اور اس کائنات میں ایک انسان کی حیثیت اس کے حجم کے اعتبار سے اتنی ہے کہ اگر ایک ریت کے ذرّے کو اتنے ہی حصوں میں تقسیم کیا جائے جتنے کہ اس زمین پر ریت کے ذرّات ہیں تو اس ایک ذرے کے برابر انسان ہے۔یہ تقابل ایک اندازہ ہے ایسا بھی ہو سکتا ہے انسان اس کائنات کے مقابلے میں اس سے بھی کئی ہزار گنا کم وجود رکھتا ہو۔اس وسیع و عریض قابلِ مشاہدہ کائنات کا قطر diameter آج کے موجودہ تخمینہ کے مطابق93بیلین شمسی سال ہے۔ ایک انسان کائنات کی ان اتہا وسعتوں کے سینے میں چھوٹے سے کرہ پر رہتے ہوئے اپنے خالق کی نافرمانی کرنے پر تلا ہے یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے۔یہی ہے وہ انسان جس نے اپنی تاریخ میں خدائی کا دعویٰ بھی کیا، اپنے خالق کے ساتھ دوسروں کو شریک بھی کیا، ان لوگوں کا قتل کیا جنہوں نے اپنے خالق کو پہنچانا  اور اسی کی عبادت کی طرف بلایا تھا یا بلاتے ہیں جیسے سورۃ آلعمران کی آیت نمبر 21 میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ۙ  وَّ یَقۡتُلُوۡنَ الَّذِیۡنَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡقِسۡطِ مِنَ النَّاسِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ  بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۲۱﴾

جو لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں اور ناحق نبیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں اور جو لوگ عدل و انصاف کی بات کہیں انہیں بھی قتل کر ڈالتے ہیں  تو اے نبی! انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے۔

غافل دنیا ہے کہ خبر نہیں اسے اپنی اس بے خبری کے کتنے خطرناک عواقب ہیں۔ قیامت کا سایہ پوری کائنات پر منڈلا رہا ہے اور موت کا مونسٹر ہر انسان کے ساتھ ساتھ ہے لیکن حالت یہ ہے:

” لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا  پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں”.

کتنے رسول و انبیاء آئے لیکن پھر بھی نافرمانیوں کا ریلا تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ان کے بعد ہر دور میں اللہ والوں نے عالم انسانیت کو ڈرایا، حساب و کتاب سے باخبر کیا اور حشر و نشر کی وضاحت کی لیکن پھر بھی انسان بغاوت کی کشتی پر سوار ہو کر نہ رکنے اور نہ ہی اترنے کا نام لیتا ہے، برابر چلتا جارہا ہے شاید یہاں تک کہ بغاوت کی ناو عذاب کی لپیٹ میں آجائے۔آخر انسان نما درندے جنہوں نے انسانیت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی سب خاک کا حصہ بن گئے اور انسان کی عظمت پر بلندی و رفعت کا تاج سجانے والی عبقری شخصیات بھی لوگوں کے دلوں میں اپنی عقیدت مندی کے بیج بو کر دوسری زندگی کے کے صحن میں داخل ہو چکے ہیں۔ انسان کی اپنی لکھی ہوئی تاریخ میں اس آنے جانے کا عمل محفوظ ہےلیکن غفلت کی خصلت نے اکثریت کو اس دنیا میں ہی گم کر دیا ہے۔ کتابوں میں پیدا ہونے اور مر جانے کے واقعات قلمبند ہیں لیکن قرطاسِ ذہن پر یہیں رہنے کی شدید تمنا مرقوم ہے، دنیا یاد ہے لیکن خالق کو بھول چکے ہیں، دنیا کے لیڈر یاد ہیں لیکن پیغمبر اعظم کو بھول چکے ہیں، سیکولرازم اور دیگر ازم یاد ہیں لیکن اسلام کو بھول چکے ہیں، حرام ذرائع یاد ہیں لیکن حلال ذرائع کو بھول چکے ہیں، جھوٹ یاد ہے لیکن سچ بھول چکے ہیں، ظلم یاد ہے لیکن عدل بھول چکے ہیں، خیانت یاد ہے لیکن دیانت بھول چکے ہیں، فحاشیت یاد ہے لیکن پاکدامنی بھول چکے ہیں، ظاہر یاد ہے لیکن باطن بھول چکے ہیں، تکبر یاد ہے لیکن عاجزی بھول چکے ہیں اور المختصر برائی یاد ہے لیکن اچھائی بھول چکے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔