تجارت کے چند اہم اسلامی اصول (قسط چہارم)

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

۸۔ خریدار کو صحیح مشورہ دینا : تجارت میں بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ گاہک اپنی کم علمی یا ناتجربہ کاری کی وجہ سے کسی چیز کی نوعیت یا خاصیت کو از خود سمجھ نہیں پاتا اور دکاندار یا تاجر سے ہی مشورہ طلب کرتا ہے، ایسی صورت میں تاجر کو چاہیے کہ اس کو مناسب مشورہ دے کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’ اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ ‘‘یعنی ’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الادب، باب اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ، رقم ۳۷۴۵، بروایت ابوہریرہؓ)۔ یعنی اسے امانت داری کالحاظ کرتے ہوئے صحیح اور مفید مشورہ دینا چاہیے اور جس طرح امانت میں خیانت جائز نہیں، اسی طرح کسی کو غلط مشورہ دینا بھی جائز نہیں کیوں کہ یہ بھی دھوکا دہی کی ہی ایک صورت ہے کہ ایک شخص نے آپ پر بھروسہ کیا اور آپ نے اسے گمراہ کردیا۔ اس لئے تاجر کو چاہیے کہ محض ذاتی فوائد کے پیش نظر خریدار کو غلط مشورے نہ دے، اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر بھروسہ رکھے، جو رزق اس کے مقدر میں ہوگا وہ ضرور مل کر رہے گا اور اس کے اس عمل سے خریدار کا اس پر اعتماد قائم ہوجائے گا جو انجام کار اس کے لئے ہی مفید ثابت ہوگا۔

۹۔ قیمت متعین کرنا اور اسے مجہول نہ رکھنا: بیع کے منعقد ہونے کی بنیادی شرائط میں سے یہ ہے کہ مبیع یعنی فروخت ہونے والی چیز اور ثمن یعنی قیمت دونوں معلوم اور معیّن ہوں نیز فریقین باہمی رضامندی سے ان کے تبادلے پر راضی ہوں۔ مجہول اور غیر معین ثمن کے ساتھ بیع صحیح نہیں ہوتی کیوں کہ فقہاء نے بیع کی تعریف ہی یہی کی ہے کہ یہ باہمی رضامندی کے ساتھ مال کے عوض مال کا تبادلہ ہے یا ملکیت کی منتقلی ہے۔ شارح بخاری حافظ ابن حجر العسقلانیؒ (۱۳۷۲ – ۱۴۴۹ء) نے بیع کی تعریف یوں کی ہے: ’’والبیعُ نقلُ مِلکٍ إِلی الغیر بثمنٍ‘‘۔ یعنی ’’بیع (کا مطلب ) قیمت کے عوض کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا ہے‘‘۔ (فتح الباری للحافظ ابن حجر العسقلانیؒ، دار الرسالۃ العالمیۃ، دمشق، ۲۰۱۳ ؁ء، جلد ۷، صفحہ ۵)۔

        گزشتہ صدی کے مشہور و معروف فقیہ السید سابق مصریؒ (۱۹۱۵ – ۲۰۰۰ء) اپنی مایہ ناز تصنیف فقہ السنۃ، جس کی تألیف پر انہیں سنہ ۱۹۹۴ ؁ء میں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا، میں بیع کی تعریف میں یوں رقمطراز ہیں : ’’و یراد بالبیع شرعًا؛ مبادلۃ مال بمال علٰی سبیل التراضي، أو نقل ملک بعوض علی الوجہ المأذون فیہ‘‘ یعنی ’’شرعًا بیع سے مراد باہمی رضامندی کے راستے سے مال کا مال کے عوض تبادلہ یا ماذون (جس کی شریعت نے اجازت دی ہے) طریقے پر کسی عوض کے بدلے مِلک کا دوسرے کے نام انتقال ہے‘‘۔ (فقہ السنۃ، تألیف السید سابق، دارالحدیث، القاہرہ، ۲۰۰۴ ؁ء، صفحہ ۸۹۸)۔

        اس لئے یہ ضروری ہے کہ فروخت ہونے والی چیز کی قیمت متعین کی جائے جو فریقین کے علم میں بھی آجائے خواہ وہ معاملہ نقد ہو یا ادھار کا اور سامان کی قیمت متعین کئے بغیر کوئی بھی تجارتی معاملہ نہ کیا جائے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپسی تعلقات کی وجہ سے سامان فروخت کرنے والا خریدنے والے سے یہ کہتا ہے کہ آپ یہ سامان لے جائیں اور بازار میں جو قیمت رائج ہے یا جس قیمت پر لوگ اسے فروخت کر رہے ہیں، وہ مجھے آپ ادا کردیں گے جب کہ بازار میں رائج قیمت کا فریقین کو علم نہیں ہوتا۔ اس صورت میں قیمت کے مجہول (Indeterminate)  رہنے کی وجہ سے بیع درست نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں کہ جو قیمت آپ کو پسند ہو وہ دے دینا کیوں کہ یہ عین ممکن ہے جو قیمت خریدار اپنی پسند سے دے وہ فروخت کرنے والے کی توقع سے کم ہوجو اس کی دل شکنی کا باعث بنے اور باہمی نزاع کی کوئی صورت پیدا کردے۔ اس لئے ہر حال میں سامان کی قیمت طے کرکے ہی خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کرنا چاہیے اور اس حکم کے پیچھے حکمت یہی ہے کہ آگے چل کر آپس میں جھگڑے کا کوئی اندیشہ اور امکان باقی نہ رہے۔ ہاں یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ قیمت مروجہ کرنسی میں ہی طے ہو بلکہ ہروہ چیز جو شریعت کی نظر میں جائز ہو اور معاشرے میں اس کا بطور معاوضہ قبول کیا جانا رائج ہو، قیمت بننے کی اہل ہے۔

۱۰۔ ادھار معاملات کو ضبط تحریر  میں لانا: یہ بھی اسلامی اصول میں سے ہے کہ خرید و فروخت کا معاملہ اگر ادھار پر مبنی ہوتو اسے ضبط تحریر میں لانا چاہیے۔ ایسی صورت میں قیمت کے ساتھ ادائیگی کی مدت اور اس کی صورت و ترکیب کا بھی طے کیا جانا ضروری ہے، مثلاً یہ کہ ادائیگی یکمشت ہوگی یا قسطوں میں اور اگر قسطوں میں ہوگی تو کتنی قسطوں میں ہوگی وغیرہ۔ ان سب باتوں کو تحریر کے تحت لانا چاہیے تاکہ آگے چل کر کسی بھی فریق کی بھول چوک جس کا وقت گزرنے کے ساتھ امکان رہتا ہے سے کسی قسم کی غلط فہمی اور اختلاف کی راہ نہ ہموار ہو۔ یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے کلام میں اس کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد باری ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰٓی اَجَلٍ مُسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ}۔ (ترجمہ): ’’ اے ایمان والو! جب تم معین میعاد کے لئے ادھار کا کوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو‘‘۔ (البقرۃ: ۲۸۲)۔ آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَلَا تَسْئَمُوْٓا اَنْ تَکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا اِلٰٓی اَجَلِہِ ذَالِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّھَادَۃِ وَ اَدْنٰٓی اَلَّا تَرْتَابُوْٓا}۔ (ترجمہ): ’’ اور جو معاملہ اپنی میعاد سے وابستہ ہو، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے لکھنے میں کاہلی نہ کرو، یہ بات اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے اور گواہی کو درست رکھنے کا بہتر ذریعہ ہے، اور اس بات کی قریبی ضمانت ہے کہ تم آئندہ شک میں نہیں پڑوگے ‘‘۔ (البقرۃ: ۲۸۲)۔

        اس لئے اس طرح کے معاملات کو ضرور دستاویزی شکل دینی چاہیے۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ فریقین میں سے اگر کسی کا بھی انتقال ہوجائے تو ان کے ورثا کے لئے حق کی ادائیگی یا وصولی دونوں ہی میں یہ دستاویز معاون ثابت ہوگا۔ ہمارے دیار میں عام طور پر لوگ اس طرح کی تحریر کو باہمی اعتماد اور تعلقات کی نزاکتوں کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں کوتاہی برتتے ہیں جو بسا اوقات آگے چل کر نسیان یا غلط فہمی کے باعث باہمی نزاع کا سبب بن جاتاہے جس کے نتیجے میں اعتماد بھی مجروح ہوجاتا ہے اور تعلقات بھی خراب ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو کیس اور مقدمے بازی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی حکمت کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور سماجی اقدار کے خود ساختہ میعار قائم کر کے اس سلسلے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔ ساتھ ہی فریقین کو چاہیے کہ وہ معاہدہ بیع کی پابندی کریں، فروخت کنندہ میعاد معین سے پہلے ادائیگی کا مطالبہ نہ کرے اور خریدار اس سے تاخیر نہ کرے اور نہ ہی ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرے بلکہ حسن ادائیگی کی صورت اختیار کرے۔ قرض کی ادائیگی پر قادر ہوتے ہوئے بھی ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرنا ظلم ہے، اس لئے اس سے بچنا ضروری ہے اور اگر کسی معقول وجہ سے خریدار وقت پر ادھار کی رقم ادا نہ کرسکے تو تاجر کو خریدار سے نرمی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، اسے مہلت دینی چاہیے اور جرمانہ وصول نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ یہ سود کے زمرے میں داخل ہے۔

۱۱۔ کم منافع پر اکتفا کرنا:  مسلمان تاجروں کو چاہیے کہ وہ کم منافع پر اکتفا کریں اور اپنی تجارت میں جذبۂ احسان کو پیش نظر رکھیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ۔ ۔ الآیہ، النحل: ۹۰} یعنی ’’بے شک اللہ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے‘‘ اور فرمایا: {اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ؛ الاعراف: ۵۶}یعنی ’’بے شک اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے‘‘۔ اس لئے ضرورت مند خریدار اگر اپنی ضرورت کے تحت زیادہ نفع دینے پر بھی تیار ہو تو بھی جذبہ احسان کا تقاضہ یہ ہے کہ زیادہ نفع نہ لے۔ کم نفع لے کرزیادہ مال فروخت کرنا ایک ایسی پالیسی ہے جس سے تجارت کافی اوپر اٹھ جاتی ہے۔ سلف صالحین کی عادت مبارکہ بھی یہی تھی کہ کم نفع پر زیادہ مال فروخت کرنے کوزیادہ نفع حاصل کرنے کے انتظار سے زیادہ مبارک سمجھتے تھے۔ حضرت علی ؓ کوفہ کے بازار میں چکر لگاتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے لوگو! تھوڑے نفع کو نہ ٹھکراؤکہ زیادہ نفع سے بھی محروم ہوجاؤگے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ سے جن کا ذکر اوپر گزرا، ایک بار لوگوں نے پوچھاکہ آپ کس طرح اتنے دولت مند ہوگئے؟ تو انھوں نے فرمایاکہ میں نے تھوڑے نفع کو بھی کبھی رد نہیں کیا۔ جس نے بھی مجھ سے کویٔ جانور خریدنا چاہا میں نے اسے روک کر نہ رکھا بلکہ فروخت کردیا۔ ایک دن ایک ہزار اونٹ اصل قیمت خرید پرفروخت کردئے اور بجز ہزار رسیوں کے کچھ نفع حاصل نہ کیا۔ پھر ہر ایک رسّی ایک ایک درم سے فروخت کی اور اونٹوں کے اس دن کے چارہ کی قیمت ایک ہزار درہم میرے ذمے سے ساقط ہوگئی، اس طرح دو ہزار درم کا مجھے منافع حاصل ہوا۔ (کیمیای سعادت، صفحہ ۲۸۰)۔

        یہ ہے تجارت میں ترقی کا راز! لیکن اس سلسلے میں ہمارے یہاں بڑی بے صبری پایٔ جاتی ہے۔ ہم چند دنوں میں ہی لاکھ پتی اور کروڑ پتی بن جانا چاہتے ہیں جس کا نقصان سامنے آکر رہتا ہے جبکہ بعض دوسری قوموں نے اس پالیسی کو اپنا لیاہے اور وہ اس کا خوب پھل کھارہے ہیں۔

        یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ گو تاجر کو اپنی چیزوں کا نرخ (Rate)  مقرر کرنے کا حق ہے اور فطری اصول و ضوابط کے تحت قیمتوں میں اضافہ کرنا بھی درست ہے لیکن اتنا اضافہ جو غیرمعمولی، غیر فطری، غیر مناسب اور غیرمنصفانہ ہو اور جس سے صارفین کے استحصال کی صورت پیدا ہوتی ہو درست نہیں۔ ایسی صورت میں حکومت وقت کو اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے اور عوام کو تاجروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ رقمطراز ہیں : ’’فَاِن رُؤِی منھم جورٌ ظاھر، لَا یَشُکُّ فیہ النّاس، جاز تغییرُہ، فاِنہ من الاِفساد في الأرض‘‘۔ (ترجمہ): ’’اگر ان (تاجروں ) کی طرف سے (قیمتوں کے تعین میں ) کھلا ظلم دکھائی دے جس میں لوگ شک نہ کریں تو ان (قیمتوں ) میں تبدیلی (یعنی کنٹرول) جائز ہے کیوں کہ یہ (غیر مناسب بھاؤ بڑھا دینا) فساد فی الارض ہے‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغہ، دار احیاء العلوم، بیروت، ۱۹۹۰؁ء، جلد ۲، صفحہ ۳۰۱)۔

        مذکورہ عبارت کی تشریح میں مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری لکھتے ہیں : ’’اگر تاجروں کی طرف سے عام صارفین پر زیادتی ہورہی ہو، اور زیادتی ایسی واضح ہو کہ اس میں کوئی شک نہ ہو، تو قیمتوں پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ایسے وقت بھی تاجروں کو ظالمانہ نفع اندوزی کی چھوٹ دینا اللہ کی مخلوق کو تباہ کرنا ہے‘‘۔ (رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغہ،  مکتبہ حجاز، دیوبند، ۲۰۰۳ ؁ء، جلد ۴، صفحہ ۵۹۸)۔

        اس لئے تاجروں کو چاہیے کہ وہ قیمتوں کے تعلق سے بازار میں ایسی نامناسب صورتحال پیدا نہ کریں جو عوام کے لئے پریشانی کا باعث ہو اور حکومت وقت کے لئے مداخلت کا جواز فراہم کرے۔ (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔