دورہ ٔ اسرائیل اور قادیانی نمائندہ سے ملاقات: لمحہ ٔ فکریہ!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

  ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے اسرائیل کا تین روزہ دور ہ مکمل کیا،اسرائیل کے اس سفر پر ماہرین وتجزیہ نگاروں نے مختلف زوایوں سے لکھا ہے ،اور بہت سے پہلو ؤں کو اجاگر کیا ہے ،اس سفر میں وزیر اعظم غیر معمولی پرجوش دکھائی دئیے اور خود اسرائیل کا وزیر اعظم نیتن یاہو بھی اپنے ہم منصب وہم فکر وہم مزاج دوست کا خیر مقد م کرنے بے چین نظر آیا۔ملک کے موجودہ نفرت انگیز ماحول میں اسرائیل کا دورہ بڑی معنویت رکھتا ہے ،اس دورہ میں وزیر اعظم کو ممکن ہے بہت ساری ہدایتیں دی گئی ہوں اور مختلف طریقوں پرکام کرنے اور مخصوص ایجنڈوں پر محنت کرنے کے گُر بتائے گئے ہوں گے۔ اس سفر کے دیگر پہلوؤں سے صرف ِ نظر کرتے ہوئے اس تحریر میں ایک پہلو پر کچھ عرض کیاجائے گا،اور وہ ہے اسرائیل میں وزیر اعظم کی قادیانی نمائندہ سے ملاقات کرنا۔

عام طور پر سربراہان ِ ممالک کی آمد پر ملک میں موجود فرقوں اور جماعتوں کا تعارف مہمان کو نہیں کروایا جاتا ،لیکن اسرائیل کے اس سفر کی خصوصیت ہے کہ اس میں وہاں موجود مختلف فرقوں کے نمائندوں سے ملاقات کروائی گئی اور خاص کر قادنیوں کے نمائندہ نے نہایت خوشی ومسرت اور جوش وجذبہ کے ساتھ وزیر اعظم ہند سے ملاقات کی اور کہا کہ ’’ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ ہندوستان میں ہماری کمیونٹی کا خیال رکھتے ہیں ‘‘اس پر وزیر اعظم نے کہاکہ’’ہاں قادیانی برادری سے ہمارے قریبی تعلقات ہیں ‘‘۔اس پر قادیانی نمائندہ محمد شریف نے کہا کہ ’’ہاں ہمیں اس کا علم ہے کہ آپ کے ہماری کمیونٹی سے تعلقات ہیں ۔‘‘اور جب آگے’’بہائی ‘‘ فرقے کے نمائندے سے ملاقات ہورہی تھی تو اس قادیانی نے دخل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایک پُرامن شہر ہے اور ہم یہاں مل کر رہتے ہیں ۔

اب قادیانی نمائندہ کی یہ بات کہ اسرائیل ایک پرُ امن ملک ہے نہایت حیرت انگیز ہے،اور غلامانہ ذہنیت کی عکاسی بھی ہے ،اپنے آقاؤں کو خوش کرنے اور ان کی چاپلوسی کاواضح ثبوت بھی ہے ،اور اسرائیل کا ’’پروردہ ‘‘ ہونے کی علامت بھی ہے ۔کیوں کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل ایک ظالم وجابر مملکت ہے ،جس کا وجود ہی غاصبانہ طور پر ہوا اور جو اپنے روزِ قیام سے فلسطینیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑرہی ہے اور ان کی زندگیوں کوبرباد کرکے ،ان کے شہروں کو ویران کرکے اور ان کے ہنستے کھیلتے گھروں کو اجاڑکر اپنا ناپاک تسلط قائم کئے ہوئے ہے ۔’’غزہ‘‘کو جس ظالم حکومت نے ایک جیل خانے کی شکل میں کرکے تقریبا بیس لاکھ افراد کو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم کر رکھا ہے۔ایسی ظالم مملکت کو اگر کوئی پرُ امن کہے تو اس صاف مطلب یہی ہوگا کہ وہ اس مملکت کا ’’آلہ ٔ کار‘‘ ہے اور اس کی حیثیت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگی کہ وہ اپنے آقا ؤں کے اشارے پر زبان سے وہی نکالے گاجو اسے سکھایا گیا ہے ،اوروہ اسی بات کی تبلیغ کرے گاجس کے لئے وہ تیار کیا گیا ہے۔

قادیانی جو خود کو ’’احمدی مسلم ‘‘ کہتے ہیں یہ اسلام کی نظر میں مسلمان نہیں کافر ہیں ۔اور اسلام و پیغمبر اسلام ﷺ کے بدترین دشمن ہیں ،تاجِ ختم ِ نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والے اورختم المرسلین ﷺ کی خاتمیت پر حملہ کرنے والے ملعون وشیطان ہیں ۔جو اپنے آپ کو ’’احمد ی مسلمان ‘‘ کہہ کر دنیا کو دھوکہ دیتے ہیں ۔اسرائیل کے اس سفر میں اس کے نمائندہ سے ملاقات کرنا ،اور اُس کا شکریہ اداکرنا اور آئندہ بھی اپنی کمیونٹی کا خیال رکھنے کی درخواست کرنا ،اور اِس پر وزیر اعظم کا حمایت کرنا یقینا مسلمان ِ ہند کے لئے لمحہ ٔ فکرہے۔

اسرائیل انسانیت کا دشمن ملک ہے ،اور جسے بسایا ہی گیا ہے ایک خاص پس ِ منظر میں ،ہزاروں فلسطینیوں کا خون ِ ناحق بہانے والا،اُن کی اپنی سرزمین پر ناجائز قبضہ کرکے خود فلسطینیوں کو اپنے علاقے میں محبوس کردینے والا ،بچوں ،بوڑھوں ،جوانوں ،مردوں اور عورتوں پر ظلم وستم ڈھانے والا اسرائیل اسلام دشمن فرقوں کی پشت پناہی بلکہ پرورش کررہا ہے۔تاکہ اسلام کے خلاف پورے عالم میں انہی استعمال کرسکے۔اسی لئے بطورِ خاص ہندوستا ن کے وزیر اعظم سے ملاقات کروائی تاکہ واپس ہندوستان آکر وہ ان کا بھر پور خیال رکھ سکے ،اور دی ہوئی ہدایات کے مطابق ان کی حمایت وتائید کرسکے اور انہی پھلنے ،پھولنے کی راہوں کو ہموار سکے۔اس وقت ہمارے ملک میں پہلے ہی ہندو سنگھی اور ہندو راشٹر کے دعویدار خاص رنگ میں ملک کو رنگنے کی کوشش میں لگے ہوئے ،اور مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور جان ومال کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں ،ایسے میں دورہ ٔ اسرائیل کے موقع پر قادیانیوں کی حمایت کی بات اور ان سے تعلقات کا اظہار مزید اسلام دشمنی کو پھیلانے کا ایک خفیہ منصوبہ بھی ہوسکتا ہے۔اور اسلام کے خلاف قادیانیوں کو فروغ دینے کا ذریعہ بھی ہوسکتا ہے۔

ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ’’قادیانی ‘‘ اسلام دشمنوں کا تیار کردہ ہتھیار ہے۔جسے علامہ اقبال ؒ  یہودیت کا چربہ ‘‘اور عطاء اللہ شاہ بخاریؒ  ’’ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا‘‘کہتے تھے۔اور یہ سچی حقیقت ہے کہ انگریزوں ہی نے مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کو اسلام کے خلاف استعمال کرنے کے لئے تیار کیا ۔اس سلسلہ میں شورش کاشمیری ؒ کا یہ اقتباس نہایت چشم کشا ہوگا کہ:’’انگلستان کی حکومت نے ہندوستان میں ایک وفد انگلستانی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں کا بھیجا۔وفد کا مقصد یہ تھا کہ وہ پتہ چلائے کہ ہندوستانی عوام میں وفاداری کیوں کر پیداکی جاسکتی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ ٔ جہاد کو سلب کرکے انہیں کس طرح رام کیا جاسکتا ہے؟اس وفد نے واپس جاکرجو رپورٹ مرتب کی وہ یہ ہے کہ:ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماؤں کی اندھادھندپیروکار ہے ،اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو اپاسٹالک پرَافٹ( حواری نبی)ہونے کا دعوی کرے ،تو اس شخص کی نبوت کوحکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھاکر برطابوی مفادات کے لئے مفید کام کیا جاسکتا ہے۔۔

برطانوی ہند کے سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لئے طلب کیا،ان میں سے مرزا نبوت کے لئے نامزد کیا گیا۔(تحریک ختم ِ نبوت:23)اور خود مرزا کا دعوی یہ تھاکہ:میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے ،اور میں نے ممانعت ِ جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکھٹی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہے۔میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب ،مصر،کابل اور روم تک پہنچایا ہے۔‘‘( تریاق القلوب :15 بحوالہ عطا ء اللہ شاہ بخاری :سوانح وافکار:336)

    اس حقیقت کو جاننے کے بعد کہ قادیانی مذہب کی بنیاد انگریزوں نے رکھی اورپیغمبر ِاسلام کے خلاف جھوٹے نبوت کے دعویدار کو تیارکیا ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ اسرائیل کے تعلقات قادیانیت سے بہت گہرے اور خاص ہیں ،اسرائیل دراصل اس وقت یہودیوں کا ایک مرکزی ملک ہے جہاں اسلام کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں ،اور مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں ،جس کا واضح ثبوت فلسطین کے بے قصور مسلمان ہیں جو اس ظالم مملکت کاتختہ ٔ مشق بنے ہوئے ہیں ۔اسرائیل اور قادیانیت کے تعلقات پر آج سے بہت پہلے آغا شورش کاشمیری ؒ نے جس فکر کا احساس کیا تھا اسے بھی ملاحظہ کیجیے:اسرائیل عربوں کے قلب میں ناسور ہے،تقریبا تمام مسلمان ریاستوں نے اس کا مقاطعہ کر رکھا ہے۔پاکستانی مشن وہاں نہیں ،لیکن قادیانی مشن وہاں ہے۔سوال یہ ہے کہ وہ کس پر تبلیغ کرتا ہے؟مسلمانوں پر یایہودیوں پر؟آج چند مسلمان اسرائیل میں رہ گئے ہیں وہ قادیانی مشن کے استحصال کی زد میں ہیں ،غور کیجیے جس اسرائیل میں عیسائی مشن قائم نہیں ہوسکتا ،وہاں اسلام کے لئے قادیانی مشن لطیفہ نہیں تو کیاہے؟اس مشن سے جو کام لئے جارہے ہیں وہ ڈھکے چھپے نہیں ۔۔۔اس مشن کے ذریعہ عرب ریاستوں کی جاسوسی جاتی ہے۔اس مشن کی معرفت اسرائیل میں بچے کچھے مسلمان عربوں کو عرب ریاستوں کی جاسوسی کے لئے تیار کیاجاتا ہے۔(عجمی اسرائیل:129)

بہر حال اگر آج دشمنان ِ اسلام اسلام کے خلاف فرقوں کی پشت پناہی کررہے ہیں اور انہیں اسلام کے خلاف استعمال کرنے کے لئے تیارکررہے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ان فتنوں اور فرقوں کی بیخ کنی کے لئے ایمانی جذبات اور محبت ِ رسول ﷺ کے احساسات کے ساتھ کمربستہ ہوجائیں ۔قادیانی فتنہ کی جڑوں کو کاٹنے اور اس کے وجود کو مٹانے کی فکروں کو بیدار کریں ۔الحمدللہ اس امت میں روزِ اول سے ایسے جیالے او ر بے لوث جاں باز گزرے ہیں جنہوں نے اپنی عمروں کو محمد رسول اللہ ﷺ کی عظمت کو بچانے اور تاجِ ختم ِنبوت کی حفاظت کرنے کے لئے قربان کردیا۔

عظیم محدث علامہ انور شا ہ کشمیری ؒ کے بارے میں مولانا یوسف بنوری ؒ فرماتے ہیں :میں اپنی زندگی میں کسی بزرگ اور عالم کو اس فتنہ پر اتنا دردمند نہیں دیکھاجتنا امام العصر کو۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دل میں ایک زخم ہوگیا ہے ،جس سے ہر وقت خون ٹپکتا رہتا ہے ۔جب مرزا کا نام لیتے تو فرماتے تھے:’’لعین ابن لعین لعین قادیان‘‘اور آواز میں ایک عجیب درد کی کیفیت محسوس ہوتی ۔فرماتے تھے کہ : لوگ کہیں گے یہ گالیاں دیتا ہے،فرمایاکہ ہم اپنی نسل کے سامنے اپنے دردِ دل کا اظہار کیسے کریں ،ہم اس طرح قلبی نفرت اور غیظ وغضب کے اظہار پر مجبور ہیں ورنہ محض تردید وتنقید سے لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ تو علمی اختلاف ہیں جو پہلے سے چلے آتے ہیں ۔( انوار السوانح:378)عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ فرمایاکرتے تھے کہ:مرزائیت اسی اساس ِ دین ،روح ِ قرآن اور جان ِ اسلام پر مرتدانہ ضرب ہے ،میں اس کے استیصال کو ہر مسلمان پر فرض نہیں اَفرض جانتا ہوں ، میں عقیدہ ٔختم نبوت کے تحفظ کے لئے اپنی زندگی کی آخری بازی لگادوں گا۔

قادیانیت کے فتنہ سے دیہات کے بھولے بھالے مسلمانوں کو بچانے اور شہر کے تعلیم یافتہ لوگوں کو دوررکھنے کی فکر وکوشش ہمیں ہی کرنی ہے ،اس فتنہ کے دھوکے سے انسانوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ،ہمیں اپنی جان سے زیادہ محمد رسول ﷺ کی نبوت پیاری ہے ،ہم سوجان اس پر نچھاور کرنے تیار ہیں ،ہم اس ختم ِ نبوت کی حفاظت کے لئے جسم کا آخری قطرہ ٔ خون بھی بہادیں گے،اور ان شاء اللہ دشمنوں کے منصوبوں کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔وہ بند کمروں میں چاہے جتنی سازشیں تیارکریں ،اور منصوبے بنائیں اگر ہم نے اپنی ذمہ دارای کو اداکیا تو ان شاء اللہ ان کے سارے منصوبے ناکام ونامراد ہوجائیں گے۔حالات اسی بات کا تقاضا کررہے ہیں کہ ہر مسلمان اس کو اپنی ذمہ داری سمجھے اور امت کو فتنہ ٔ قادیانیت سے محفوظ رکھنے کی پوری پوری فکر کرے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔