گولر کا درخت اور یوگی کی توہم پرستی

عبدالعزیز

مسٹر یوگی اَدتیہ ناتھ اپنے ماں باپ، بھائی بہن سب کو چھوڑ کر اترا کھنڈ سے اتر پردیش کے ضلع گورکھپور چلے آئے اور یوگی یا جوگی بن گئے۔ گورکھپور مٹھ کے مہنت ہو گئے۔ عام طور پر یوگی اور جوگی اس کو کہتے ہیں جو دنیا سے بے نیاز ہوکر سادہ زندگی گزارتا ہے مگر ادتیہ ناتھ  یوگی تو بن گئے مگر وہ اپنے گرو ویدناتھ کی طرح سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ ایسی سیاست جو فرقہ پرستی اور نفرت پر مبنی ہے۔ رام جنم بھومی کی تعمیر میں بھی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا۔ قسمت نے انھیں ہندستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بنا دیا ہے۔ یوگی کی زندگی باطل عقیدہ یا توہم پرستی سے شروع ہوئی۔ آج وہ ایک بڑی ریاست کے وزیر اعلیٰ بننے کے باوجود توہم پرستی کے شکار ہیں ۔

کچھ دنوں پہلے انھوں نے حکومت اتر پردیش کے چیف سکریٹری اور دیگر سرکاری اہل کاروں کی موجودگی میں ایک میٹنگ کی جس میں فیصلہ کیا  کہ گولر کے پیڑ کی ان شاخوں کو کاٹ دیا جائے جو راستہ میں سایہ کا سبب بنتی ہیں کیونکہ ایسے پیڑ کا سایہ نامبارک (اَسبھ) ہوتا ہے اور جو لوگ تیرتھ استھان جاتے ہیں ان کا سفر بھی نسٹ ہوسکتا ہے۔ ماحولیات کے سماجی کارکنوں نے یوگی کے اس فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ ماحولیات کے بالکل خلاف بات ہے۔ اس سے Greenary (ہریالی) پر اثر پڑے گا۔ سماجی کارکنوں نے حکومت اتر پردیش کو تنبیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ اگر حکومت غلط فیصلہ کو نافذ العمل بنانے کی کوشش کرے گی تو وہ لوگ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ اتر پردیش کی سرکار کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔

  حقیقت یہ ہے کہ سنگھ پریوار کا پورا فلسفہ باطل عقیدہ یا توہم پرستی پر مبنی ہے۔ توہم پرستی خالص جہالت بلکہ جاہلیت کی پیداوار ہے۔ جسٹس مرکنڈے کاٹجو نے یوگی جیسے ہندوؤں کے گائے کو ماتا کہنے کے عقیدہ کو بڑے ہی اچھے انداز سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ سوشل میڈیا میں ان کی تقریر گشت کر رہی ہے۔ اخباری نامہ نگاروں سے انھوں نے کہاکہ گائے بھی دیگر جانوروں کی طرح ایک جانور ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ انھوں نے کہاکہ کوئی جانور خواہ گائے ہو یا گھوڑا کیسے انسان کا ماں یا باپ ہوسکتا ہے۔ اتنی سی بات بھی اندھے عقیدہ پرستوں کو نہیں سمجھ میں آتی۔ انھوں نے کہاکہ ’’امریکہ، جاپان، یورپ کے سارے ممالک میں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں گائے کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ میں بھی کھاتا ہوں ۔ بہت سے ہندو کھاتے ہیں ۔ اگر کوئی نہیں کھاتا ہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے مگر کھانے والوں کو روک نہیں سکتا۔ جب آپ کے کھانے پر کوئی روک نہیں لگا سکتا تو دوسروں کے کھانے پر آپ کون ہوتے ہیں روک لگانے والے؟ ‘‘

آج ملک میں اس طرح کی توہم پرستی کی بنیاد پر نفرت کا ایسا بیج بویا جارہا ہے کہ یوگی جیسے لوگوں نے انسانیت کو لہولہان کر دیا ہے۔ معصوم اوربے گناہ انسانوں کے خون کو اپنے لئے جائز ٹھہرالیا ہے۔ بابری مسجد کی پانچ سو سالہ عمارت کو اسی طرح کے اندھے عقیدہ کی بھینٹ چڑھا دیا کہ بابری مسجد ان کے بھگوان رام کی پیدائش کی جگہ ہے اور وہاں پہلے مندر کی عمارت تھی۔ عام طور پر ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان کی مورتی جس گھر میں رکھ دی جائے وہی مندر ہے مگر برا ہو سنگھ پریوار کا جنھوں نے سیاسی دنیا میں کامیابی کیلئے ایسے لچر عقیدہ کو گھڑا جو خود ان کے مذہبی عقیدہ سے میل نہیں کھاتا۔ رام کے نام پر سیاست یا راج نیتی کر رہے ہیں ۔ اس رام جو رامائن کی کہانی کا ایک کردار ہے جسے دکھایا گیا ہے کہ بھائیوں کے جھگڑے یا تنازعے سے بچنے کیلئے چودہ سال کا بن باس لیا، تخت و تاج کو تج دیا۔ یہ رامائن کی کہانی کا حصہ ہے مگر اس کردار کو اس قدر اچھالا گیا کہ رام بھگوان ہوگئے اور ان کی جنم بھومی بھی ہوگئی۔

ہندوؤں کے عقیدہ کے مطابق ان کے ہاں بھگوان کی تعداد 36 ہزار سے زائد ہے۔ اگر 36 ہزار بھگوان جو سنگھ پریوار کے عقیدہ کے مطابق جہاں پیدا ہوئے ہیں وہاں مندر کا نرمان (تعمیر) کر دیا جائے تو آخر ہندستان میں کون سی جگہ باقی رہ جائے گی جہاں مندر نہ بنا دیا جائے۔ ایسی باتیں جو عقل کو بالکل اپیل نہیں کرتیں ۔ گولر کے درخت کو منحوس سمجھنا اور پیپل کے درخت کو مبارک بتانا یہ آج کی سائنسی دنیا میں صریحاً جہالت سمجھا جاتا ہے۔ پیپل ہو یا گولر یا کوئی اور پودا یا درخت ہو اسے نباتیات (Botany) کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ آج اسکول، کالج یا یونیورسٹیوں میں نباتیات کا شعبہ (Depart of Botany) ہوتا ہے، جس میں طالب علموں کو نباتیات کے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔ نباتیات داں (Botanist) سب پودوں کو یکساں سمجھتے ہیں ۔ سب کو زمین میں نشو و نما والی چیز سے تعبیر کرتے ہیں ۔

  اسی طرح حیاتیات (Zoology) کا علم بھی تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے۔ حیاتیات داں (Zoologist) ہر جانور کو جانور ہی بتاتے ہیں ۔ ان میں سے کسی کا رتبہ بڑا چھوٹا نہیں سمجھتے ہیں ۔ اس وقت دنیا بھر میں جس میں ہندستان بھی شامل ہے۔ سائنس (علم) کا زبردست چرچا ہے اور سائنسی تجربہ اور مشاہدہ پر بہت سی چیزیں طے کی جاتی ہیں ۔

 ایک زمانہ تھا کہ ہندو بھائی اپنے باطل عقیدہ اور توہم پرستی کی وجہ سے پانی کے جہاز سے سفر کرنا غلط سمجھتے تھے، اس لئے باہر کے ملکوں میں سفر سے بھی پرہیز کرتے تھے کیونکہ پانی بھی خواہ سمندر کا ہو یا دریا کا ہو وہ بھی ہندوؤں کیلئے قابل پرستش تھا۔ ایسی بے شمار چیزیں ہندومت کے لحاظ سے قابل پرستش ہیں ۔ اگر ہندو مت کے مطابق سب کچھ پر ہندو بھائی عمل کرتے تو آج ہندستان تاریک ملکوں (Dark Countries) میں شمار کیا جاتا۔ مودی جی ایک طرف Digital India کی بات کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف یوگی جی گولر کے درخت کے سایہ سے بچنے کیلئے درخت اور اس کی شاخوں کو قطع برید کرنے کے درپے ہیں ۔ کیا ایسے لوگ کسی ریاست یا ملک کو آگے لے جاسکتے ہیں ؟ ایسے لوگ تو وہ ہیں جنھیں مندروں یا کسی مٹھ میں بیٹھ کر مالا جپنا چاہئے تاکہ دنیا ایسے لوگوں سے محفوظ رہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔