دور نبوی ﷺ کا ایک قابل غور واقعہ!

ڈاکٹر ریحان غنی

  حضرت مولانا سید عبدالسمیع جعفری ندوی ؒ اس صدی کے خدا ترس بزرگ تھے ۔ ان کی سادگی دیکھنے کے لائق تھی۔دنیا کو انہوں نے اپنے پائوں کی ٹھوکر میں رکھا تھا۔میرے والدماجد سید نعمان غنی دیوروی کا جب انتقال ہوا تو وہ واحد عالم دین تھے جو میرے گھر تعزیت کے لیے تشریف لائے اور تقریبا ایک گھنٹہ ساتھ رہے ۔ ان کے ساتھ جواں سال عالم دین مولانا انظار احمد صادق بھی تھے۔ گفتگو کے دوران مولانا  علیہ رحمہ نے تسلی اور تشفی کے ایسے الفاظ کہے کہ طبیعت مطمئن اور خوش ہوگئی ۔میں دل سے ان کی قدر کرتا ہوں ۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے اوران کے درجات بلند کرے۔ انہوں نے مجھے سیرت نبوی ﷺ پر ایک لاجواب کتاب ’’الرحیق المختوم ‘‘ عنایت فرمائی تھی ۔ یہ کتاب اکثر میرے مطالعہ میں رہتی ہے ۔ ان دنوں بھی یہ کتاب میرے مطالعہ میں ۔ یہ تصنیف مولانا شیخ صفی الرحمن مبارک پوری کی ہے۔ یہ عربی میں لکھا گیا وہ مقالہ ہے جسے 1978میں سیرت کے عالمی مقابلہ میں پہلے انعام کا مستحق قرار دیا گیا تھااور انہیں رابطہ عالمی اسلامی مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام منعقد کی گئی پہلی ایشیائی اسلامی کانفرنس میں انعام سے نوازا گیاتھا۔ 768ْصفحات پر مشتمل اس کتاب کا اردو ترجمہ خوس مصنف نے کیا ہے۔اس کے صفحہ نمبر 368-69پر ایک واقعہ پڑھنے کو ملا ۔ یہ واقعہ ایک بوڑھے یہودی کا ہے جس کا نام ’’شاش بن قیس‘‘ تھا ۔ ابن اسحاق کے حوالہ سے مولانا شیخ صفی الرحمن مبارک پوری لکھتے ہیں کہ –

’’ایک بوڑھا یہودی شاش بن قیس جو قبر میں پائوں لٹکائے ہوئے تھا، بڑا زبردست کافر تھا اور مسلمانوں سے سخت عداوت اور حسد رکھتا تھا۔ ایک بار صحابہ کرام کی ایک مجلس کے پاس سے گذرا جس میں اوس و خزرج دونوں ہی قبیلے کے لوگ بیٹھے باہم گفتگو کر رہے تھے۔ اسے یہ دیکھ کر کہ اب ان کے اندر جاہلیت اور باہمی عداوت کی جگہ الفت و اجتماعیت نے لے لی ہے اور ان کی دیرینہ شکر رنجی کا خاتمہ ہوگیا ہے ، سخت رنج ہوا۔ کہنے لگا ، اوہ اس دیار میں بنو قیلہ کے اشراف متحد ہوگئے ہیں ، باخدا ان اشراف کے اتحاد کے بعد تو ہمارا یہاں گذر نہیں ۔چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی کو جو اس کے ساتھ تھا حکم دیا کہ ان کی مجالس میں جائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر پھر جنگ بعاث اور اس کے پہلے کے حالات کا ذکر کرے اور اس سلسلے میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے ہیں کچھ ان میں سے سنائے ۔ اس یہودی نے ایسا ہی کیا۔اس کے نتیجہ میں اوس و خزرج میں تو تو میں میں شروع ہوگئی ۔ لوگ جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر فخر جتانے لگے۔ حتی کہ دونوں قبیلے کے ایک ایک آدمی نے گھٹنے کے بل بیٹھ کر رد و قدح شروع کردی۔ پھر ایک نے اپنے مد مقابل سے کہا اگر چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جوان کرکے پلٹا دیں ۔ مقصد یہ تھا کہ ہم اس باہمی جنگ کے لیے پھر تیار ہیں جو اس سے پہلے لڑی جاچکی ہے۔ اس پر دونوں فریق کو تائو آگیا اور بولے چلو ہم تیار ہیں ۔ حرہ میں مقابلہ ہو گا ۔ ہتھیار ۔۔۔۔۔ ہتھیار۔۔۔۔۔ اور لوگ ہتھیار لے کر حرہ کی طرف نکل پڑے۔ قریب تھا کہ خوں ریز جنگ ہوجاتی لیکن رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر ہوگئی ۔ آپ ﷺ اپنے مہاجر صحابہ کو ہمراہ لے کر جھٹ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا ائے مسلمانوں کی جماعت ! اللہ اللہ ۔۔ کیا میرے رہتے ہوئے جاہلیت کی پکار اور وہ بھی اس کے بعد کہ اللہ تمہیں اسلام کی ہدایت سے سرفراز فرما چکا ہے اور اس کے ذریعہ تم سے جاہلیت کا معاملہ کاٹ کر اور تمہیں کفر سے نجات دے کر تمہارے دلوں کو آ پس میں جوڑ چکا ہے ۔ آپ ﷺ کی نصیحت سن کر احساس ہوا کہ ان کی حرکت شیطان کا ایک جھٹکا اور دشمن کی ایک چال تھی ۔ چنانچہ وہ رونے لگے اور اوس و خزرج کو لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے ۔پھر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اطاعت شعار اور فرماں بردار بن کر اس حالت میں واپس آئے کہ اللہ نے ان کے دشمن شاش بن قیس کی عیاری کی آگ بجھا دی تھی۔‘‘

 خوش قسمتی سے یہ وہ وقت تھا جب حضور اقدس ﷺ خود موجود تھے ۔ اس لیے آپ کے سمجھانے پر صحابہ کرام کو شیطان کی چال اور اس بوڑھے یہودی کی سازش سمجھ میں آگئی اور خوں ریز جنگ ہونے سے بچ گئی ۔ آج ہم لوگ جس دور سے گذر رہے ہیں وہ فتنوں سے بھرا دور ہے اور سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ شاش بن قیس کی شکل میں ہماری صفوں میں گھس گئے ہیں اور طرح طرح کی سازشیں کرکے ہماری صفوں میں انتشار پیدا کر رہے ہیں ؎۔ اس وقت پورے عالم اسلام میں عجیب طرح کی بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔

حق و باطل اس طرح خلط ملط ہوکر رہ گیا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے اس کی تمیز مشکل ہے۔ ہم اس وقت بدترین دور سے گذر رہے ہیں ۔افغانستان ، پاکستان، شام ، عراق، یمن ، مصر ،ترکی جیسے ممالک پہلے سے ہی دہشت گردی ، مسلکی منافرت اور خانہ جنگی کے شکار تھے اب خلیج کے عرب ممالک بھی ایک دوسرے کے خلاف سرگرم عمل ہیں ۔ حالیہ دنوں میں قطر کے خلاف سعودی عرب اور اتحادیوں کی کاروائی اور ایران میں کیے گئے دہشت گردانہ حملوں نے پورے خطہ میں بد امنی پیدا کردی ہے۔ ان حالات کے باوجود اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں اور ان کے پھیلائے ہوئے جال کو سمجھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہم سے اللہ نے مومنا نہ فراست چھین لی ہے۔ خون خرابہ  ہوتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اس کے بعد بھی ہم باطل قوتوں کے آلہ کار بنتے چلے جارہے ہیں ۔کوئی بھی ’’شاش بن قیس‘‘ کی سازشوں کو سمجھنے والا نہیں ہے۔

اللہ ہم لوگوں کے حال پر رحم فرمائے اور کسی ایسی شخصیت کو بھیج دے جو مسلمانوں کو آپس میں خوں ریزی سے بچا لے۔اُس زمانے میں دشمنوں کی کوئی چال اور کوئی سازش اس لیے کامیاب نہیں ہوئی تھی کہ مسلمانوں کا ایمان مضبوط تھا اور وہ صرف اللہ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کام کرتے تھے۔آج شاش بن قیس اور اس جیسے دوسرے اسلام دشمن عناصر کی چال اور سازش اس لیے کامیاب ہورہی ہے کہ ہمارا ایمان مضبوط نہیں ہے اور ہم اللہ کے لیے نہیں بلکہ دنیاوی عزت و جاہ کے لیے زندہ ہیں ۔

تبصرے بند ہیں۔