اعتکاف جنت کی خوشخبری ہے!

محمد انصارالحق قاسمی

’’ اورنہ ملو تم اپنی عورتوں سے جب تک تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو‘‘۔’’ معتکف سب گناہ چھوڑدیتاہے اور اس کے لئے تمام نیکیاں جاری ہوجاتی ہیں ‘‘۔شرع میں اعتکاف کا حکم اورفضیلت واضح طورپرموجود ہے۔ اوراس کی فضیلت جوشخص خلوص کے ساتھ رمضان کے اخیرعشرہ کااعتکاف کرتاہے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ، اور دو حج اور دوعمرے کا ثواب ملتاہے،نیز چالیس دن تک سرحد اسلام کے محافظ کا درجہ حاصل ہوتاہے اور جوچالیس دن تک سرحد اسلام کی حفاظت کرتاہے، اﷲ تعالیٰ اس کو گناہوں سے اس طرح پاک وصاف کردیتاہے جیساکہ نومولود بچہ کاحال ہوتاہے۔

اعتکاف کی تین قسمیں ہیں ۔واجب یہ نذرکااعتکاف ہوتاہے، سنت مؤکدہ یہ رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کااعتکاف ہوتاہے یہ سنت مؤکدہ علی الکفایہ ،یعنی اہل محلہ مسجد میں ایک یا دو آدمی اعتکاف کریں گے توپورے محلہ کی طرف سے ذمہ داری اداہوجائے گی ،اگرکسی نے بھی نہیں کیاتوپورے محلہ پر ترک سنت کاگناہ ہوگادونوں میں توروزہ شرط ہے،تیسرا مستحب اسکے لئے روزہ شرط نہیں آپ جب بھی مسجد میں داخل ہوں اعتکاف کی نیت کرلیں وہ اعتکاف کہلائیں گی،جتنی دیر کی چاہیں نیت کرلیں اس میں گنجائش ہے چاہے چندلمحہ ہی کیوں نہ ہو۔نبی کریم ﷺ آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایاکرتے تھے، جس کاطریقہ ہے کہ اعتکاف کی نیت سے بیس رمضان کوعصرکی نماز کے بعد آفتاب غروب ہونے سے قبل مسجد میں جہاں نماز باجماعت اداکی جاتی ہوداخل ہوجائیں ، اور عید کاچاند ہوجانے پر مسجد سے باہرآئیں ۔

 آپ ﷺ نے آخری سال دس رمضان سے بیس ایام کا اعتکاف کیاتھا، اول رمضان سے بھی معتکف ہوسکتے ہیں ، اس کاثواب اسی اعتبارسے ملے گا۔ اگراعتکاف کرناچاہے تووہ اپنے گھرکے کسی کمرہ کوجائے اعتکاف بناسکتی ہے، وہ کمرہ اس کیلئے مسجد کا حکم رکھے گا،یعنی اس کمرے سے بلاضرورت باہرآنا مفسد اعتکاف ہوگا۔ اورجتنے دن کے ارادہ سے بیٹھے گی اتنے ہی دن کا ثواب ملے گا۔اوربحالت اعتکاف حیض یانفاس شروع ہوگیاتواس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ معتکف اورمعتکفہ اپنی حوائج ضروریہ کیلئے مسجد سے باہرنکل سکتے ہیں ۔پیشاب ،بیت الخلاء، غسل واجب،نماز فرض کاوضو وغیرہ ۔اوربلاضرورت شدیدہ کے مسجد سے باہر نکلنا حرام اورمفسد اعتکاف ہے۔

سابقہ امم میں بھی اس کارواج تھا اسکوخلوت و رہبانیت سے ہم موسوم کرتے ہیں ۔خالق کائنات نے رہبانیت یعنی صحرائوں ،پہاڑوں کی چوٹیوں اورغاروں میں دنیا ومافیہا سے الگ ہوکر بے پناہ مصائب وتکالیف برداشت کرکے خدا کاوصال حاصل کرنے سے منع فرمایاہے جوکہ عیسائی مذہب کے عابدوں ، زاہدوں اورراہبوں کاطریق تھا، جیساکہ ارشا دربانی ہے ’’دنیا سے الگ ہوکر پہاڑوں اورصحرائوں میں عبادت کرنے کاطریقہ لوگوں نے خود ایجاد کیاہے، ہم نے ان پر یہ فرض نہیں کیاتھا‘‘سے ظاہر ہے۔ اس کی ایک اصلاح یافتہ صورت کی اجازت بھی مرحمت فرمادی ہے اسی کانام اعتکاف ہے۔کیونکہ ہر انسان کی یہ فطری خواہش ہے کہ وہ گوشۂ تنہائی میں پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے پروردگارسے سرگوشی میں مصروف رہے اور اسکے حضور انتہائی خشوع وخضوع اورانکساری وعاجزی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔

مسجد میں اعتکاف کرنے کااصل منشاء انسان شب قدرکو تلاش کرے، یہ معتکفکیلئیبہت ہی آسان ہے، باروگرانی محسوس نہیں ہوگی ،بوجہ دیگرمصلیین بھی ہوں گے جس سے یاد الہی میں لطف آئے گا۔ایک معتکف کی برکت سے اہل محلہ کابوجھ اترجائے گا۔اورکمال فضیلت تویہ ہے رمضان میں فرض نماز،روزہ ،تلاوت قرآن اورسنت ونوافل کی ماہ رمضان میں برکت وفضیلت ہے سب سے معتکف مستفید ہوتاہے۔اعتکاف میں بہت سی خوبیاں ہیں بندہ اپنے دل کو امور دنیاسے فارغ کرکے مولائے کریم کی طرف متوجہ کرلیتاہے، دل میں اﷲتعالیٰ کی یادہوتی ہے، مسجد تومومن کیلئے ایک بڑے مضبوط قلعہ کی مانند ہے بالخصوص حالت اعتکاف میں ، کیونکہ شیطان کسی معصیت کی جگہ بہکاکرلیجانے سے قاصررہتاہے، معتکف کے ظاہر حال سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ جیسے کوئی بھکاری سب سے بڑے شہنشاہ کے دربارمیں دست سوال دراز کئے چلاآیاہے اور یہ سمجھتاہے کہ جو کچھ مانگوں گاملے گا۔مغفرت چاہوں گا ،بخش دیاجائوں گا، ان کی ایک نگاہ کرم سے سب کچھ سنورجائیں گے۔معاصی میں لپت بندہ اس کے در پر معافی کاطلبگار بن کر چوکھٹسے جدانہیں ہورہاہے،کریم بادشاہ کے آگے سربسجود ہے کہ میری جان آپ کی ایک نگاہ کرم کے قربان آجائے ،ایک مرتبہ پھر مجھ پر ایک نظرکرم فرما۔حضرت معاذ بن جبل ؓ کی روایت ہے کہ سیدالکونین ﷺنے فرمایاکہ بھیڑبکریوں پر حملہ کرنے والے وحشی بھیڑیئے کی طرح انسانوں کابھی ایک بھیڑیاہے جسے ابلیس وشیطان کہتے ہیں ،جس طرح وحشی بھیڑیااکثراکیلی ریوڑسے جداہوجانے والی بکری کو اٹھاکرلے جاتاہے ،اسی طرح یہ شیطان تنہاانسان کو گمراہ کردیتاہے، لہذا تم جماعت سے الگ نہ ہونا،جماعت اورعامۃ المسلمین اورمسجد کے ساتھ ساتھ رہنا۔

ایساہی مومن مسجد میں آکر شیطان کے مکروفریب سے محفوظ ہوجاتاہے بالخصوص معتکف وہ ہرقسم کی معصیت ،ناجائز لبھانے والی آلائشوں سے محفوظ ہوتاہے، جھوٹ،غیبت، بہتان، عیب جوئی ،جھوٹی قسم کھانے، فحش وبے حیائی کی باتوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ ہروقت تلاو قرآن، ذکرالہی، نوافل اورنیک کاموں میں گزرتے ہیں ۔ جب معتکف مسجد کے ایک کونہ میں پردہ ڈال کر بیٹھ جائے گا توشیطان کہاں بہکاکرلے جائے گا، اسے ایک ہی دھن ہوگی، ایک ہی فکر ہوگارحمت باراں وتقرب الی اﷲ۔معتکف ایک سوالی بنکر اﷲ کے گھرکوبھی آباد کرتاہے، اوراس کے حضور عاجزی، انکساری،نادم وشرمندہ ہوکر دست سوال کرتاہے کہ والدین، عزیزواقارب اوراحباب کو بخش دے۔ جب ایک ضعیف وناتواں انسان کے درپر سائل ہوتاہے ،توانسان اپنے وسعت کے مطابق ضرور حاجت روائی کرتاہے۔ اور وہ تو غنی وبے نیاز ہے، لطف وکرم کی کوئی انتہاء نہیں ،پھر وہ کیسے معتکف کو خالی لوٹائے ، اس ذات اقدس کی شان کے خلاف ہے۔ضروربالضرور عطاء کریگا ،اوراتنادیگا کہ انسان اسے شمار نہیں کرسکتا، معتکف کے ہرخواہش کو بارالہ تکمیل فرماتے ہیں ۔

ایک طرح معتکف فرشتوں کے مشابہ ہوجاتاہے ، فرشتے اﷲ جل شانہ کی نافرمانی نہیں کرتے اورحکم بجالاتے ہیں ، رات ودن اﷲ کی تسبیح وتقدیس میں لگے رہتے ہیں ، یہی صفت معتکف میں ہوتی ہے جو اس کے مشابہ ہے۔جب انسان قدرت کا قرب حاصل کرلیتاہے تووہ انسانوں کامحتاج نہیں ہوتا،شہنشاہوں کے شہنشاہ سے سوالی ہے ، معتکف کوجس چیز کی چاہت ہوگی ،وہ علیم وخبیر ،سمیع وبصیرقادرمطلق اورحاجت رواہیں ، وہ اپنے درکے سوالی کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹائیگا۔ایک شخص نماز کے بعد دوسری نماز اسطرح پڑھے کہ درمیان میں کوئی لغوکام نہ کرے اس کو علیین میں نام لکھ دیاجاتاہے،اور فرشتے اس کیلئے دعاء مغفرت اوردعاء رحمت کرتے رہتے ہیں ۔یہی کیفیت معتکف کی ہوتی ہے ،مسجدکے جس حصہ میں جائے گاوہ اس کی رحمت کے زیرسایہ ہوتاہے۔حدیث نبویﷺہے جب تم کسی شخص کو دیکھوکہ اس کو مسجد سے محبت ہوگئی ہے اس کا دل مسجد ہی میں لگتاہے تو تم اس کے ایماندارہونے کی شہادت دو۔

 جن خوش نصیبوں کو حشرکے میدان اورسخت گرمی والے دن میں جب آفتاب ایک میل کے فاصلہ پر ہوگااورلوگ پسینہ میں ڈوبے ہوئے ہوں گے، عرش الہی کے سایہ میں جگہ دی جائے گی اور اس کے سایہ میں کھڑے ہوں گے ان میں ایک شخص وہ بھی جس کادل مسجد کے ساتھ وابستہ ہوگیاہو اس کادل یہی چاہتاہے کہ مسجد میں بیٹھارہے۔یہ تعلق اوروابستگی معتکف کی ہوتی ہے قیامت کے دن عرش الہی کے سایہ میں جگہ ملنے کی امیدہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سیدالانبیاء والمرسلین ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا جس طرح روئے زمین پر غوث، قطب ابدال اوراوتاد ہوتے ہیں اسی طرح خاص طورسے مساجد میں بھی اوتاد ہوتے ہیں ان اوتاد مساجد کی شان ایسی ہے کہ اگرمسجد سے باہر چلے جائیں توفرشتے ان کو ڈھونڈنے لگتے ہیں ،اگروہ بیمارہوجائیں تو فرشتے انکی بیمارپرسی کرتے ہیں ، جب وہ اپنی دنیوی حاجات کیلئے جاتے ہیں تو فرشتے ان کی امداد کرتے ہیں ۔معتکف بھی اوتاد کی طرح ہر وقت مسجد ہی میں رہتاہے باہرنہیں جاتا،تومعتکف بھی اسی میں شمارہوگا۔جب کوئی مومن چند کام ایک دن میں پورے کرلے تو اس کو جناب رسول اﷲ جنتی ہونے کی خوشخبری دیتے ہیں ۔

جمعہ کی نماز اداکرے،روزہ رکھے، نمازجنازہ پڑھے، نکاح میں شریک ہوجائے، بیمار کی بیمارپرسی کرے۔نمازجنازہ،نکاح اورتیمارداری کیلئے نہیں جاسکتا۔ معتکف یہنیک کام مسجد سے باہر جاکرنہ کرسکے تواسکے برابرثواب اس کو مسجد کے اندر ملتی ہے، اس طرح وہ جنت کی خوشخبری پانے والوں میں داخل ہوجاتاہے۔ بلاعذرمسجد سے  باہر نکلنے، جماع کرنے، بیوی سے دل لگی کرنے کے دوران غسل کی حاجت ہوگئی،مرتدیاپاگل ہوجانے، مسلسل بیہوش رہ جانے سے اعتکاف فاسد ہوجاتاہے۔ معتکف نے اﷲ کے گھرکو اپنے گھرجیسابنالیاہے، اس کا دل مسجد میں لگتاہے، اور مسجد کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے اپنے اوقات مسجد میں گزارتاہے اورضمانت کامطلب ہے کہ اﷲ تعالی اس کی روح کو مصفی فرماکررحمت فرمائیں گے اورپل صراط سے اﷲکی رضا کی جگہ یعنی جنت میں پہنچادیں گے۔تومعتکف بھی یہ شرف حاصل کرتاہے، اﷲ تعالیٰ اعتکاف کرنے اوراپنے درباعالی میں بیٹھنے اوراپنی رحمتوں، نوازشوں سے مستفیض ہونے کی توفیق بخشے۔آمین

تبصرے بند ہیں۔