ملی زندگی کی چودہ صدیاں!

تحریر: مولانا نعیم صدیقی… ترتیب:عبدالعزیز

 ہماری ملی زندگی کی کتاب میں چودھویں صدی کا باب ختم ہوگیا اور پندرہویں صدی کا پہلا ورق ہم الٹ چکے ہیں ۔

چودہ صدیوں کی مجموعی تاریخ بہ حیثیت مجموعی ایک خدا پرست ملت کی شاندار تاریخ ہے۔ اس میں فساد اور بگاڑ بھی طرح طرح کے آئے مگر اس کے کمالات کی بھی حد نہیں ہے۔ تاریخ کے اس لمبے چوڑے صحرا سے گزرنے والے قافلے نے زخم بھی بہت کھائے ہیں مگر اس کی فتوحات کی رفتار اور وسعت بھی بے مثال ہے۔ ان مسافرانِ جہاد کو کبھی حریفوں نے اور کبھی یگانوں نے بسمل کرکے پٹخ پٹخ دیا ہے مگر یہ ادھ موئے ہوکر بھی اللہ اکبر کہتے ہوئے پھر اٹھ کھڑے ہوتے رہے اور از سر نو معرکہ ہائے نو بہ نو کی رونق بن جاتے ہیں ۔

ابتدا میں جب خدائے واحد کی دعوت دینے کا وقت آیا تو ماریں کھا کھا کر اور اذیتیں سہ سہ کر انھوں نے احد احد پکارا، رشتہ و پیوند کی محبتوں کو قربان کر دیا، گھر چھوڑ کے نکلنا پڑا تو در و دیوار اور اموال و املاک کو چھوڑ کر پہلے حبشہ پہنچے، پھر مدینے، وہاں دشمن قوت نے جنگ کیلئے للکارا تو ایک تہائی سپاہ اور قلیل رسد کے ساتھ میدان میں اتر گئے اور اس معرکہ اول میں ایسی فتح حاصل کی جس نے تاریخ حرب اور نظریۂ فتح و ظفر کو بدل ڈالا۔ بعد میں عرب کے اندر بھی اور عرب کے باہر بھی تمام بڑی بڑی جنگوں میں اپنی چھوٹی افواج سے بڑے بڑے قشونِ قاصرہ کو شکست دی۔ دس برس کی مدت میں پورے جزیرہ نمائے عرب کو اورایک صدی کے اندر اندر مشرق و مغرب کی سلطنتوں کو زیر نگین کیا۔ پھر یہ سیلاب انقلاب ایک طرف ایک طرف مکران سے ہوتا ہوا پہلے سندھ پھر ملتان اور کشمیر اور بعدہٗ دلی، دکن اور ڈھاکے تک جا پہنچا۔ دوسری طرف مصر اور مغرب سے چلا تو اسپین کو زیر نگیں کرتا جنوبی فرانس تک جا پہنچا۔ تیسری طرف فتح قسطنطنیہ کا دروازہ کھول کر اس نے ہنگری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چوتھی طرف بخارا اور سمر قند پر جھنڈے اڑاتا والگا کے کنارے جا پھیلا۔ پانچوی طرف بغیر کسی فوجی قوت کے محض تاجروں کے ذریعے اپنی دعوت کے زور سے اس نے جزائر مالدیپ ، سراندیپ، جزائر غرب الہند، جاوا، سماٹرااور انڈونیشیا تک اپنی روشنی پھیلا دی۔ اب پروفیسربیری خیل (1978ء میں ) اور ہیرز بامہوف (1964ء میں ) کے انکشافات کے مطابق کیلیفورنیا کی تاریخ کے مدفن سے ایسے کتبے برآمد کئے گئے ہیں جن سے بدیہی شہادت ملتی ہے کہ کولمبس سے بہت پہلے پہلی صدی ہجری میں مسلم جہاز ران دعوتِ حق کا جھنڈا لئے بحر ہند اور بحر الکاہل کے راستے امریکہ کے مغربی علاقے تک جاپہنچے اور وہیں بس گئے۔

ہماری تاریخ کی بہت بڑی آزمائش تاتاری حملہ تھی، جس نے مرد و زن، عمارتوں ، درس گاہوں ، مسجدوں اور لائبریریوں کو یکسر تباہ کردیا۔ اولاً حملہ خوارزمی سلطنت پر حملہ ہوا، پھر بڑا ریلا آیا تو عباسی سلطنت کو ختم کرتا اور بغداد جیسے مرکز تہذیب کو ملیا میٹ کرتا شام تک پہنچا مگر اس تباہی کے بعد مصر سے ایک غلام سپہ سالار اٹھا اور اس نے تاتاریوں کو پہلی شکست دی۔ بعد میں ان کا پوری طرح صفایا کر دیا۔ یہ شخص السلطان الظاہر بیبرس کے نام سے تاریخ کے ایوان میں جلوہ گر ہے۔ ادھر تاتاریوں کی ایک شاخ کے سردار برکا خان نے اسلام قبول کرلیا۔ اور اس کے ساتھ شاہی خاندان دربار اور قوم کے عام لوگوں نے بھی اسلام سے رشتۂ وفا استوار کرلیا۔ اس طرح ابل خانی تاتاریوں کے خلاف خود اندر ہی اندر سے برکا خانی قوت ابھر آئی۔ اسی طرح دوسری جانب سے صلیبیوں نے مسلمانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر شام تک کے علاقے یروشلم سمیت فتح کرلئے اور مسلمانوں کی خوب خونریزی کی مگر پہلے سلطان نور الدین زنگی نے اور پھر صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست پر شکست دے کر یروشلم اور دوسرے مقبوضات واپس لے لئے۔ اس سلسلے میں سلطان بیبرس کی خدمات میں جس نے چھٹے صلیبی حملے کے بعد کے معرکوں کو اپنی تلوار سے روکا۔

٭ اس ملت نے قلم ہاتھ میں لئے تو ایک طرف خطاطی اور نقش گری کے اس اوج کمال کو پہنچے کہ کتابت کو گلکاری بنادیا اور نقاشی کے ہر خم و پیچ کو لفظوں سے زیادہ پُر معنی بنا دیا اور فروش کو نقاشی سے بھر دیا۔ اسی طرح عمارتوں کی پیشانیوں اور محرابوں کو خطاطی کے مختلف نمونوں سے آراستہ کر دیا۔ دوسری طرف اس کے ایک ایک فرد نے تن تنہا 30، 30 جلدوں پر مشتمل کتابیں لکھیں اور ان کے کاغذی دامنوں کو انسائیکلو پیڈیائی وسعتِ معلومات سے بھر دیا۔ انھوں نے اپنی ضرورت کے علوم خود ایجاد کئے۔ قرآن مجید کی تفسیریں لکھیں ۔ احادیث کے مجموعے مرتب کئے اور ان کے ساتھ روایت و سند کے اصول طے کئے۔ اسماء الرجال کے نئے فن کو اس درجے کی اہمیت ملی کہ سلسلہ ہائے روایت حدیث میں آنے والے ہر شخص کی علمی اور اخلاقی زندگی کا ریکارڈ جمع کر دیا۔ یہ ریکارڈ کئی ہزار اشخاص کا ہے۔ لغت کی کتابیں لکھیں تو لسان العرب اور تاج العروس جیسے دفاتر معنی مرتب کر دیئے ، پھر ہیئت اور ریاضی، الجبرے اور جیومیٹری، سائنس اور ٹیکنالوجی، فلسفے اور منطق پر کتابوں کے انبار لگا دیئے۔ آس پاس کی تمام قوموں سے سابق مرتب شدہ علوم کو حاصل کیا۔ ان اجزاء کو ملایا اور پھر اپنی تخلیقی فکر سے ان میں وہ اضافے کئے کہ بالکل تازہ علوم وجود میں آگئے۔

 قرآن و حدیث جو ان کیلئے مآخذ قانون تھے، ان کی انھوں نے محض توضیحی شرحیں ہی نہیں لکھیں بلکہ ان کے صریح اوامر و نواہی کے علاوہ نص کے اشاروں اور دلالتوں سے بھی احکام کا استنباط کیا۔ پھر استنباط ہی نہیں کیا بلکہ بدلتے حالات اور نت نئے واقعاتی مسائل پر ان کو نئے نئے طریقوں سے منطبق کرکے اجتہاد کی راہیں نکالیں اور ساتھ ہی خود اجتہاد اور قیاس اور استحسان کے اصول وضع کئے اور چودہ صدیوں کیلئے عرصے میں خدائی ضابطۂ حیات کو مجتہدانہ انداز سے طرح طرح کے احوال پر منطبق کرکے ایسی خوبی سے نافذ العمل رکھا کہ زندگی کا کوئی گوشہ اور معاشرت کا کوئی مسئلہ اس دائرے سے باہر نہیں رہا۔ سیاست، معیشت، معاشرے اور دفاع کے تمام شعبے اسلامی اصول و مقاصد کے تحت ایسی خوبی سے چلے کہ عوام کو رزق کے لحاظ سے خوشحالی، اخلاق کے لحاظ سے سلامتی، حقوق کے لحاظ سے پوری سکنیت حاصل رہی۔ توحید نے انسانوں کو سچی مساوات سے مالا مال کیا۔ یہ نعمتیں ہر دور میں مختلف نظریات اور نظاموں سے لوگوں نے حاصل کرنے کے خواب دیکھے مگر جس معیار پر توازن سے یہ ساری نعمتیں انسان کو اسلام نے فراہم کیں ، کہیں اور نہ مل سکیں ۔ حتیٰ کہ آج کے جمہوری دور میں بڑے خوش آئند چارٹر اور دلفریب اصطلاحات کا چرچا ہے، مگر ایمان، جان، آن اور نان کی گارنٹی کہیں بھی حاصل نہ ہوسکی۔

٭ ملت اسلامیہ کے شہداء علی الناس نے انقلابی جذبے سے جب چھینیاں ہاتھ میں لیں تو پتھروں میں جان پیدا کردی۔ ان کے بنائے ہوئے گنبد و مینار بولتے ہیں ۔ ان کے فن تعمیر کے عجوبے پتھروں کے لفظوں میں اعلیٰ درجے کی شاعری کے نمونے ہیں وہ جہاں گئے … عراق اور مصر اور اندلس اور وغیرہ میں … انھوں نے نئے نئے شہر بسائے، پل تعمیر کئے۔ پانیوں پر بند باندھے، نہریں کھدوائیں ، تالاب اور کنویں بنوائے، سریع الرفتار برید (ڈاک) کا انتظام کیا۔ سکے ڈھالے، صنعتیں لگائیں ، تجارت کو ہاتھ میں لیا۔ سمندروں میں ہسپانیہ سے لے کر انڈونیشیا تک بحری تجارتی بیڑے چلا دیئے۔ ہر جگہ کئی کئی مدرسے کھولے، بڑی بڑی یونیورسٹیاں قائم کیں ، کئی کئی لاکھ کتابوں کے ذخیرے لائبریریوں میں جمع کئے، جہاں جہاں حکومت کی، کئی کئی بستروں کے اسپتال کھولے اور ان میں واڑڈ بنائے۔ رصد گاہیں بنوائیں ، ستاروں کی رفتاریں دیکھنے کیلئے انھوں نے ابتدائی قسم کی دور بینیں ایجاد کیں ۔ علاقوں کی پیمائش کرائی۔ پانیوں کی گہرائی دریافت کی، ستاروں کی رفتاروں اور منازل کے حساب کئے۔ جغرافیائی نقشے مرتب کئے، کرۂ ارض کا نمونہ وضع کیا، کیمیاوی تجربات کے میدان میں دور تک تگ و تازکی، ہوا اور پانی کے ذریعے چلنے والی کئی مشینیں اور گھڑیاں تیار کیں ۔ بارود کو جنگ میں استعمال کرنے کیلئے آلات بنائے، غرض ضروریات زندگی نے جدھر سے پکارا ، ادھر ہی وہ موجدانہ ذہن کو لے کر متوجہ ہوگئے۔ جڑی بوٹیوں کی تاثیرات معلوم کیں ۔ انھوں نے علم بصریات ایجاد کی۔ عینک سازی کا آغاز بھی کیا۔

 انھوں نے امتحانی شیشوں اور نلکیوں کو ہاتھ میں لیا تو دھاتوں کی صفائی اور نکلیس کے تجربات کئے۔ نمک، شورے اور گندھک کے تیزاب بنالئے۔ الکلی کی ماہیت دریافت کی، الکحل تیار کی اور طبی فارما کوپیا کی کثیر التعداددوائیں تیار کردیں اور یہی فارما کوپیا عرصہ دراز تک یورپ کی طبی درسگاہوں اور شفاخانوں میں رائج رہا۔ اور آج بھی مسلمانوں کی دریافت کردہ بنیادی دواؤں کی خاصی تعداد جدید ترین فارما کوپیا میں شامل ہے۔

   انھوں نے نشتر ہاتھ میں لیا تو خراب شدہ اعضاء پر جراحی کرکے انسانوں کو تکالیف سے نجات دلائی۔ جراحی کیلئے مریض کو بے ہوش کرنے کا طریقہ نکالااور کلورو فارم کا طریقہ استعمال کیا۔ زخموں کیلئے مرہم ایجاد کئے۔ زخموں کے بگاڑ پر کاوش کرتے کرتے وہ نظریہ جراثیم تک پہنچ گئے۔ قسطنطنیہ میں چیچک کا ٹیکہ ایجاد کیا۔

 انھوں نے اپنے ہاں کے نو ہندسوں کے ساتھ ہندستان کا صفر ملاکر عشاری نظام اعداد مکمل کیا۔ الجبرا کی ایجاد کی جس کے بغیر ہیئت اور سائنس میں کام کرنے والی ریاضی کام نہیں کرسکتی۔ انھوں نے علم مثلثات میں دریافتیں کیں اور جیومیٹری میں خط مماس کا استعمال کیا۔

٭ اپنی یہ ساری متاعِ علم انھوں نے ہسپانیہ اور اندلس کی یونیورسٹیوں میں سر عام رکھ دی۔ ان کے سامنے قرون وسطیٰ کا تاریک یورپ تھا جس کو نہ کھانے کی تمیز تھی، نہ پہننے کی اور نہ رہن سہن کی، جنگلی زندگی بسر کرنے والے لوگ جنھیں مسلمانوں نے روئی اور کرپاسی پارچات اور شکر جیسی چیز سے آشنا کیا اور جو پادریوں کے عنادِ علم کی مجلس میں ہر عقلی اور علمی کوشش پر ’’صلیبی مذہبی عدالت جبر‘‘ سے مرنے اور جلنے کی سزا پاتے تھے انھیں ملت اسلامیہ نے نہ صرف کھانا پکانا سکھایا اور مساوات انسانی کا درس دیا بلکہ ان میں سے جتنی تعداد یونیورسٹیوں میں آنے لگی ان سب میں اپنے علوم کے خزانے لٹا دیئے۔ انھیں ڈاکٹر، طبیب، کیمیا دان، ہیئت دان، ریاضی دان بنا دیا۔ انہی یونیورسٹیوں سے وہ اپنے تاریک معاشروں کے خلاف بغاوت کا ایک جذبہ بھی لے کے گئے جس نے ایک طرف اصلاح مذہب (PEFORMATION)کی تحریک اور دوسری طرف تجدید علوم (RENAISSANCE) کی تحریک کی شکل اختیار کی۔ بعد میں اسی بیداری کے نتیجے میں برطانوی، فرانسیسی اور امریکی انقلاب رونما ہوئے۔

 مگر یورپ کے متعصب پادریوں نے نہ صرف رسولِ ؐخدا کے خلاف بدگوئی کی ایک تحریک چلائی بلکہ مسلمانوں سے علوم اور ثقافت اخذ کرنے والوں کے خلاف فتوے بھی لگائے۔ مسلمانوں کی نہایت ہی بری تصویر اپنے خطبوں میں کھینچی۔ خود اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کی ایسی دھواں داری پیدا کردی کہ لوگوں کے سر چکرا گئے۔ مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ نفرت پیدا کرکے جواب میں ان کیلئے ممنونیت کے جذبات کو بر سر عمل آنے سے روکنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ترقی و بیداری کا رشتہ سیدھا یونان سے ملایا گیا۔ اور بیچ میں مسلمانوں کے کئی صدیوں کے علمی اور سائنسی حصے کو غائب کر دیا گیا۔ اس طرح مغرب کا دورِ جدید خدا پرستی کے بجائے لادینیت کی طرف مڑ گیا۔

 احسان فراموشی کی انتہا ئی ہے کہ مسلمانوں کی متعدد کتابوں اور ایجادات کو یورپ کے مفروضہ ناموں سے منسوب کر دیا گیا۔ اور بعض مسلمانوں کو مغربی زبانوں میں ایسا تلفظ دیا گیا کہ خاص خاص ذی فہم لوگوں کے سوا کوئی انھیں مسلمانوں کے نام نہ سمجھے گا۔ قابل تعریف ہیں وہ دو چار مصنّفین مغربی جنھوں نے حقائق سے پردہ اٹھا دیا اور مسلمانوں کے احسانات کا پورے زور سے اعتراف کیا۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔