دوسو سالہ جشن  یومِ سر سیّد 2017ء

شہاب الدین احمد

  ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے   

 بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا

 ہندستان میں تعلیم کے مسیحا اور اردو نثر کے باوا آدم جیسے محترم ناموں سے مشہور سر سیدّ احمد خاں کی پیدائش کے دو سو برس پورے ہونے کے موقعے پراے۔ ایم۔ یو۔ الیومنائی ایسوسی ایشن، قطر کے ذریعے انھیں یاد کیا گیا۔ اس موقعے پر سلوا بنیکٹ ہال، شیریٹن ہوٹل میں 26 /اکتوبر 2017ء کو ایک بہترین ادبی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ سر سیدّ احمد خاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں   نئی تعلیم کی روشنی پھیلانے والے افراد کے رہ نما ہیں ۔ آج کی یہ تقریب ثقا فتی اور ادبی رنگ لئیے ہوئے ایک کامیاب تقریب تھی جس میں 400 کے قریب مہمانوں نے شرکت کی۔

 سر سیدّ احمد خاں نے اپنی زندگی ہندستان کے مسلمانوں کی تعلیم اور بہتری کے لیے وقف کر دی تھی۔ ان کا شمار ایسی عہد ساز شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے فکر و عمل کے ذریعے اپنی قوم میں ایسا انقلاب برپا کر دیاجس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں ۔ 1859ء میں جب سر سید انگلستان گئے تو وہاں کے معاشرے اور تعلیمی نظام سے کافی متاثر ہوئے اور اپنی قوم میں تعلیم کو فروغ دینے کو انھوں نے اپنا مشن بنا لیا۔ انگلستان سے واپسی کے بعد انھوں نے سنہ 1875ء میں علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی جسے بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ عطا کیا گیا۔

 سر سیدّ نے ہندستان میں تعلیمی اور اصلاحی مشن کو فروغ دیا۔ سر س نے تعلیمی اور اصلاحی کاموں کے علاوہ تصنیف وتالیف کے کاموں میں بھی خصوصی توجہ دی اور کئی یادگار کتابیں تصنیف کیں جن میں ”آثار الصنادید“، ”خطباتِ احمدیہ“، ”اسباب بغاوتِ ہند“ اور” تفسیر القرآن“بہت اہم ہیں ۔ انھوں نے ”تہذیب الاخلاق “ کے نام سے ۰۷۸۱ءمیں ایک معروف رسالہ بھی نکالا۔ سر سیدّ نے اپنی کوششوں سے اردو نثر لکھنے والوں کی ایسی پوری ٹیم تیار کر دی جس نے اردو نثر میں مختصر نویسی اور سادہ بیانی کو رواج دیا اور اس زبان کو ترقی کی نئی بلندیاں عطا کیں ۔ سر سیدّ نے وطنِ عزیز بالخصوص مسلمانوں کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں ۔ غدر کے بعد انھوں نے مسلمانوں کوتمام باتیں بھلا کر جدید تعلیم کی طرف راغب کیا اور علی گڑھ کالج قائم کر کے پورے ملک میں تعلیم کے مسائل حل کرنے کی ایک عملی پیش رفت کی۔

 سر سیدّ کے یومِ پیدائش (۷۱/ اکتوبر ) پر ہر سال دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی اس تاریخی اور باوقار مادرِ علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبہ رہتے ہیں ، وہاں اس دن کو با وقار انداز سے مناتے ہیں ۔ اسی سلسلے سے سرسید کی پیدائش کے دو سوبرس پورے ہونے پر اے۔ ایم۔ یو الیومنائی ایسو سی ایشن، قطر نے یہ پروگرام منعقد کیا تھا۔ پروگرام میں جناب منی شنکر ایّر،سابق وزیر کابینہ براے پٹرولیم(حکومتِ ہند) ہندستان کے مہمانِ خصوصی اور ڈاکٹر پی محمد علی) چیرمین گالفر گروپ ( مشرقِ وسطیٰ سے مہمانِ خصوصی تھے۔ ا س کے علاوہ  ڈاکٹر محمّد علیم (ہندستانی سفارت خانے کے تھرڈ سکریٹری )، جناب محمّدصبیح  بخاری، (پیٹرن، اے۔ ایم۔ یو الیومنائی ایسو سی ایشن) اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ممتاز  گلو کار  جناب  جانی فاسٹر کو بہ طور مہمانِ اعزازی پروگرام میں شامل تھے۔ پروگرام میں جناب حسن عبدالکریم چوگلے، جناب سید عبدالحئی، جناب سیف الرحمن، جناب عبید طاہر، جناب عنایت خان، جناب  علی اکبر فربی، جناب ستیش پلائی، ہمیا چندرن، محترمہ راحت منصورسکتی ویل ماگالنگم، جناب شہاب الدین احمد، جناب  افتخار راغبؔ، جناب  اشفاق احمد قلقؔ، جناب شوکت علی نازؔ ، اور محترمہ امیشا پاریکھ نے بھی بہ طور مہمان شرکت کی۔ جب کہ جناب  محمّد اطہر مرزا جو کہ ایسو سی ایشن کے فونڈر ممبر اور سینئر ایڈوائزر  ہیں ، صحت کی خرابی کی وجہ سے تقریب میں شرکت نہیں کر سکے۔

 پروگرام کلا آغاز مولانا محمّد یاسر صدیقی نے تلاوتِ کلا م پاک سے کیا۔ پروگرام کی نظامت جناب محمّد سرور مرزا فرما رہے تھے۔ انھوں نے تمام مہمانوں اور پروگرام میں شریک ہونے والوں کا شکریہ ادا کیا۔ جناب  عقیل احمد(مشیر اے تنظیم) نے اپنی تقریر میں اے۔ ایم۔ یو الیومنائی ایسو سی ایشن، قطر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی روایت کی یاد دہا نی کرائی۔ اسی کے ساتھ جناب جاوید احمد(مشیر اے تنظیم)، جناب  شاہد یار خان،جناب  ضیا عالم، جناب ضیاءالدین احمد، جناب قمر عالم، جناب جاوید عالم صدیقی، جناب معین اعظمی،جناب  ضیاءالحق،جناب  ارشاد احمد،جناب  محمّد احمد، جناب حامد ظفر، ڈاکٹر انشا نصرت، محترمہ نادیہ رحمن،جناب محمد فیضان خان، جناب محمّد رضال احمد، جناب  قمرالحسن،جناب  فرخ علی فاروقی اورجناب  محمّد کاشف شہزاد نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔

 جناب  جاوید احمد، (صدر تنظیم) نے استقبالیہ تقریر میں سر سید کی حیات اور ان کے کارناموں کو اختصار سے بیان کیا۔ جناب  اسعد اقبال نے اس موقعے سے ”علیگ کنکٹ“ کے نام سے ایک نئی سوشل نٹورکنگ سائٹ کا افتتاح کیا۔ جناب  نتین گرگ ( معروف بزنس مین اورتقریب کے ٹائیٹل اسپانسر ) نے پوری دنیا میں علیگیوں کے ذریعے کیے جانے والے بہترین اقدامات کی تعریف کی۔

 جناب  امتیاز احمد ملک (جنرل سکریٹری) نے ایسوسی ایشن کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے ایسو سی ایشن کے مختلف اقدامات کے بارے میں بتایا۔ جیسے بہار کے سیلاب پر بہار فلڈ ریلیف، مختلف ملازمتیں ، کھیل کود، خون ڈونیشن اور دیگرضرورت مند افراد کے لیے فلاحی کام۔

 جناب محمّدصبیح  بخاری (پیٹرن، اے۔ ایم۔ یو الیومنائی ایسو سی ایشن)نے علیگیوں کے درمیان اتحاد و استحکام پر زور دیا، انھوں نے علیگیوں سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ پورے معاشرے کی مجموعی ترقی کے لیے اور دوحہ شہر میں ثقافتی سرگرمیوں کو بہتر بنانے میں امداد کریں جن سے اے۔ ایم۔ یو اور عرب ممالک کے قدیم زمانے کے تعلقات کا اظہار ہو۔ اے۔ ایم۔ یو کی ترقی کے لیے عرب ممالک کے تعاون خصوصی طور پرقطر کے تعاون کے سلسلے سے گفتگو کی ہوئی تھی۔ الیومنی نے سرکاری کمپنیوں اور قطر کے کارپوریٹوں کو اس بات کا بھی احساس دلایا کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی یو قابل اور باصلاحیت نوجوانوں ایک ایسا مقام ہے جو قطر کی ترقی خاص طور پر قطر نیشنل ویژن 2030 کی چیلنجوں کو پورا کرنے میں اہم رول ادا کر سکتا ہے سکتا ہے۔

 جناب محمّد حبیب النبی، (سینئر مشیر اے تنظیم)، اے۔ ایم۔ یو۔ الیومنائی ایسوسی ایشننے اپنی تقریر میں اے۔ ایم۔ یو برادری کے مثبت رویے کی تعریف کرتے ہوئے مستقبل میں الیومنائی ایسوسی ایشن قطر کے کردار پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر پی محمّد علی نے اپنی تقریر میں معیاری تعلیم اور کڑی محنت کرکے سیلف امپلائیڈ بننے پر زور دیا۔ انھوں نے تمام علیگیوں سے اس کی گزارش کی کہ وہ ہندستان میں حاجت مند طلبہ کی امداد کریں اور تعلیم کے سلسلے سے سر سیدنے جو عظیم خواب دیکھا تھا اس میں کی تعبیر میں اپنا کردار ادا کریں ۔

 ہندستانی سفارت خانہ کے تھرڈ سکریٹری ڈاکٹر محمّد علیم صاحب نے اے۔ ایم۔ یو۔ الیومنائی سے گزارش کی کہ وہ سماج کے لیے ایک رول ماڈل بنیں اور اس دنیا کو ایک بہترین مقام بنانے کے سلسلے میں اقدامات کریں ۔

 جناب منی شنکر ایّر نے الیومنائی کے ایگزی کیوٹیوس اور ایڈوائیزری کمیٹی کے افراد کو مومنٹو اور اسناد سے نوازا۔ اس پروگرام کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ  جناب منی شنکر ایّر نے سرسیداحمد خاں کے لیے ”بھارت رتن“ (ہندستانی شہری کو دیا جانے والا سب سے بڑا انعام )کی سفارش کی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی تعلیمی پالیسی کو بہتر بنانے کے لیے وزارت برائے ترقی انسانی وسائل کو امداد کرنے کی بات بھی اٹھائی گئی۔ ان کی سفارش کو تمام الیومنائی کے ممبروں کی تائید بھی حاصل ہوئی۔ جناب ایّر صاحب نے مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کے بارے میں بھی گفتگو کرتے ہوئے ہندستان میں اس کی اہمیت کو واضح کیا اور قطر اور اے۔ ایم۔ یو۔ سلسلے میں الیومنائی کے کاموں کو کافی سراہا۔ جناب منی شنکر ایّر نے اس موقعے پر افتخار احمد جو الیومنائی کے صدر جناب جاوید احمد کے والد ہیں ، کے اردو شعری مجموعے ”تحفہ  عالم“ کی رسمِ اجرا بھی کی۔

 جناب  علی  عمران  (مشیر اے تنظیم) اور جناب  جاوید احمد، (صدر تنظیم) نے  جناب منی شنکر ایّر کو سر سید احمد خان کی ایک یادگار تصویر بھی پیش کی۔

 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ  موسیقی کے استاد اور معروف غزل سنگر جناب جانی فاسٹر نے تمام مہمانوں کو سر سید کی حیات اور ان کے کارناموں کے تعلق سے ایک سی ڈی تحفتاً پیش کی۔ اس کے علاوہ الیومنائی ایسوسی ایشن کی نئی کرکٹ جرسی کا اجرا بھی مہمانانِ خصوصی نے کیا۔ جناب  محمّد عبیداللہ (اسپورٹس سکریٹری) نے جانی فاسٹر کو بھی یہ جرسی پیش کی۔

 اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا مشہورِ زمانہ ترانہ جو کہ مجاز لکھنوی نے تحریر کیا تھا، اسے ترانہ ٹیم نے بہترین انداز سے پیش کرکے سماں باندھ دیا۔ اس پیش کش کی کمپوزنگ بھی جانی فاسٹر نے ہی کی تھی اور طبلہ استاد اویناش گائیکواڈ نے بھی ان کا بہ خوبی ساتھ نبھایا۔ مجاز کی اس مشہور نظم کی کچھ سطریں اس طرح ہیں ۔

یہ میرا چمن ہے یہ میرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں

سر شارِ نگاہِ نرگس ہوں یا بستہ گیسوے سنبل ہوں

جو ابر یہاں سے اُٹھے گا، وہ سارے جہاں پر برسے گا

ہر جوئے رواں سے برسے گا، ہر کوہِ گراں سے برسے گا

ہر سروسمن پر برسے گا، ہر دشت و دمن پر برسے گا

خود اپنے چمن پر برسے گا، غیروں کے چمن پر برسے گا

ہر شہرِ طرب پر گرجے گا، ہر قصرِ طرب پر کڑکے گا

یہ ابر ہمیشہ برسا ہے، یہ ابر ہمیشہ برسے گا

برسے گا، برسے گا، برسے گا، برسے گا، برسے گا

 مجاز کا یہ ترانہ آج بھی اپنی معنویت کے اعتبار سے تروتازہ اور زندگی سے بھرپور نظر آتاہے۔ اسے سامعین کی فرمائش پر پروگرام میں دو مرتبہ گایا گیا۔

 مظہر خالق داد خان(نائب صدر)نے اظہارِ تشکر میں پروگرام کے بہترین اور کامیاب انعقاد پر اسپانسرس ڈبلو۔ ٹی۔ سی، سیٹکو، اَلٹی میٹ، مارک، الندھا، ڈبلو۔ ڈبلو۔ آئی۔ سی۔ ایس، گرین ٹیک، مالابار گولڈ، میڈیا کے اہل کاروں ، قطر ریڈیو اردو سروسیس اور دیگر محبان کا شکریہ ادا کیا۔ پروگرام میں ایک لکی ڈرا بھی ہوا  مالابار گولڈ کی طرف  سے  جس میں محترمہ صدف شاد قیصر نے ہیرے کی انگوٹھی انعام میں جیتی۔

پرُ تکلف عشا ئییہ کے بعد تقریب کے دوسرے حصہ میں  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ممتاز  گلو کار  جناب جانی فاسٹر صاحب نے  حاضرین کی فرمائش پر کئی مشہور اور معروف غزلیں پیش کئین اور خوب داد و تحسین سمیٹیں اورمشہور غزل ”دور اپنے وطن سے کہاں جاﺅ گے“ پر آنکھوں کو نم اور دل کو نرم کرتے رہے۔ طبلہ‎پر  ان کا ساتھ جناب  اویناش گائیکواڈ کی طبلہ سازی نے اس گائیکی میں چار چاند لگا دیے۔ تمام مہمانان نے اس یادگارشام سے کافی مسرت حاصل کی اور وہ اپنے ساتھ اس کی بہترین یادیں لے کر رخصت ہوئے۔

   یہاں پہ تشنہ لبی مئے کشی کا حاصل ہے۔

  یہ بزمِ دل ہے یہاں کی صلائے عام نئی۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اس لحاظ سے ایک منفرد تعلیمی ادارہ ہے کہ یہ آدھا تو سر سید والے نظام سے وابستہ ہے جبکہ نصف وابستگی سعودی نظام تعلیم سے رکھتا ہے۔ اس یونیورسٹی میں مخلوط کے بجائے مرد و زن کے الگ الگ شعبے ہیں سو اس کے شعبہ اردو مردانہ حصے کے صدر بہت ہی مہربان ڈاکٹر عزیز ابن الحسن جبکہ زنانہ حصے کی صدر ڈاکٹر نجیبہ عارف صاحبہ ہیں۔ اس یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے بھی سر سید کے دو سو سالہ جشنِ پیدائش کے موقع پر دو روزہ سیمینار کا اہتمام کیا جو ان دونوں ماہرین تعلیم کی محنت و فکر کا نچوڑ تھا۔ اس سیمینار کی سب سے نمایاں خوبی یہ تھی کہ اس میں صرف سر سید کے پیرو کاروں کو مدعو کرکے کسی یک طرفہ پروپیگنڈے کا بند و بست نہ تھا بلکہ سر سید کے حامی اور مخالف دونوں ہی مکاتب فکر کے دانشور ایک چھت تلے جمع کر دئے گئے تھے تاکہ سرسید اور ان کی ’’خدمات‘‘ کا منصفانہ جائزہ لیا جا سکے۔ اس سیمینار کے دوران ممتاز دانشور محترم احمد جاوید صاحب کا کلیدی خطبہ سب سے اہم رہا———- انہوں نے معاشرت کی تین اساس, تصور خدا، تصور انسان اور تصور دنیا کو سامنے رکھ کر اس حوالے سے سر سید کے کام کو علمی بنیاد پر تخریبی عمل ثابت کیا —–کیونکہ علمی قاعدہ ہے کہ اینٹی تھیسس خود تھیسس سے جنم لیتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو یہ تخریبی عمل قرار پاتا اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ سر سید کا اینٹی تھیسس اپنے تھیسس کا نہیں بلکہ مغرب کی پیداوار تھا————–احمد صاحب نے واضح کیا کہ کسی بھی معاشرے میں در آنے والی خرابیوں کو دور کرنے والی کوئی اصلاحی تحریک کبھی بھی ان تین بنیادوں کو نہیں چھیڑتی ورنہ وہ اصلاحی تحریک نہیں رہتی اور یہ باقاعدہ علمی کلیہ ہے———–اگر یہ تین بنیادیں ہی باقی نہ رہیں تو وہ معاشرہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ احمد جاوید صاحب جب یہ فرما رہے تھے تو میری نظروں کے سامنے بکھرتا مسلم اندلس اور واپس پلٹتا جدید ترکی گھوم گئے——–مسلم اندلس مفتوح ہونے کے باوجود مسلم معاشرے کے طور پر اپنی ان تین اساسیات کے ہوتے باقی رہ سکتا تھا جبکہ فاتحین کو یہ بھی قبول نہ تھا اور دلوں سے اس بنیاد کو ختم کرنا ممکن نہ تھا—- چنانچہ فاتحین نے بد ترین قتل عام اور ملک بدری کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تذلیل کی وہ راہ اختیار کی جس سے تنگ آ کر بچے کھچے لوگ بھی اندلس چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ سو جب افراد ہی نہ رہے تو مسلم معاشرت بھی نہ رہی—–اس کے برخلاف ترکی کو جدید ترکی بنانے والوں نے ان تین اساسیات کو چھیڑا اور نہ ہی قتل عام یا ملک بدری کی کیفیت پیدا کی تو نتیجہ یہ کہ لادینیت کی یہ بھرپور تحریک بالآخر ناکامی سے دو چار ہوئی اور آج کا ترکی اپنی اصل کی طرف رجوع کرتا نظر آ رہا ہے———-سر سید احمد خان نے مسلم معاشرت کی ان تینوں بنیادوں پر حملہ کیا لیکن ان کی یہ غیر فطری و غیر علمی حرکت اپنے فطری انجام سے دو چار ہوئی———–احمد جاوید صاحب نے اپنے خطبے کا اختتام اس دو ٹوک حقیقت پسندانہ موقف پر کیا کہ ’’ہم تب تک آگے بڑھ ہی نہیں سکتے جب تک سر سید کو اس مقام سے نہ ہٹا دیں جہاں انہیں کالجز اور یونیورسٹیز میں بٹھا دیا گیا ہے‘‘ ان کی اس بات کی اہمیت یہ ہے کہ اس فرسودہ نظام تعلیم کی بنیاد سر سید ہیں۔ اس نظام تعلیم کو فرسودہ بھی مانا جائے اور اور سر سید کو ’’مسلمانان ہند کا عظیم محسن‘‘ بھی قرار دیا جائے تو اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ آپ تضاد کا شکار ہیں اور اس تضاد کے ہوتے تعلیمی نظام میں تبدیلی ممکن ہی نہیں !

تبصرے بند ہیں۔