دھوپ کاٹے گی بہت، جب یہ شجرکٹ جائے گا

وردہ صدیقی

 (نوشہرہ کینٹ)

والدین کی مثال گلشن کے مالی کی مانند ہے۔ جن کے وجود سے ہی بہار ہے۔ جن کی محنتوں و مشقتوں ۔۔۔۔ فکر وخیال سے ایک سر سبز وشاداب ۔۔۔ مہکتا لہکتا ۔۔۔۔ دلوں کو سرور بخشتا باغ جنم لیتا ہے۔ ایسے ہی ظاہری اسباب میں والدین انسان کے وجود اور پھر اس کے بقا ء و ارتقا ء کے ضامن ہوتے ہیں۔

اولاد میں علم و عمل،اعلیٰ اخلاق، بلند کردار، رشد و ہدایت اور صدق و صفا کے تخم ڈال کر بہترین تعلیم و تربیت کے ذریعے پروان چڑھاتے ہیں۔ جہاں جہاں کانٹ چھانٹ کی ضرورت ہوتی ہے وقت و حالات کی مناسبت سے کرتے رہتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ان پھولوں کو تکلیف تو ہوتی ہے مگر درحقیقت وہ سنور و نکھر جاتے ہیں اور ہر دیکھنے والی آنکھ کو بھاتے ہیں۔

ماں رحمتوں کی کہکشاں ہے تو باپ شفقتوں کا سائباں۔۔۔۔۔ ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو باپ اس جنت کا دروازہ ہے۔۔۔۔۔اولاد کو پیاس لگتی ہے تو بیتابی ماں کو ہوتی ہے، بھوک سے یہ بلبلاتا ہے تو روزی باپ ڈھونڈ کر لاتا ہے۔۔۔۔۔  زخم اس کو لگتا ہے تکلیف ماں کو ہوتی ہے، بیمار یہ ہوتا ہے تو باپ طبیبوں کے در کھٹکھٹاتا ہے۔۔۔۔ جب خوشیاں آتی ہیں تو والدین اپنی خواہشات کو قربان کرکے ہمیں خوش کرتے ہیں۔

والدین کا وجود باسعود کو ایک بے بدل سرمایہ جان کر ان کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔ ہمارے والدین کا سایہ ہم پر مولا کا بے پایاں انعام واکرام ہے۔ یہ وہ انمول خزانہ ہے جو بہت ہی نایاب اور قیمتی ہے۔ والدین وہ عظیم الشان ہستیاں ہیں جن پر نظر پڑتے ہی دل کو چین اور روح کو قرار حاصل ہوجاتا ہے۔

زندگی کے رنگ ۔۔۔۔۔۔ انہی کے سنگ ہیں۔ یہ نعمت جن کے پاس موجود ہے وہ دنیا کا امیر ترین انسان ہے بھلے اس کے پاس دنیا کی کوئی آرائش و آسائش کا سامان نہ ہو ۔

اس کے مقابلے میں وہ شخص جو دنیا کی آسائیشوں اور آسانیوں میں گھرا ۔۔۔۔۔ مالا مال ہو لیکن والدین کی نعمت سے محروم ہو۔ درحقیقت وہی اصلی محروم ، قابل ترس ورحم ہے ۔

اسی بات کو زیادہ بلاغت سے شاعر نے کہا،

اے ضیاء! ماں باپ کے سائے کی ناقدری نہ کر

دھوپ کاٹے گی بہت جب یہ شجرکٹ جائیگا

 قرآن مجید فرقانِ حمیدمیں والدین سے متعلق دس احکام ارشاد ہوئے ۔

 1۔ والدین پر خرچ کیجیے ۔۔۔

2  ۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کیجیے ۔۔۔

3 ۔ انہیں اف نہ کہیے۔۔۔۔

4 ۔ والدین کو نہ جھڑکیں ۔۔۔۔

 5۔ والدین سے نرمی سے بات کریں ۔۔۔

 6۔ والدین کی اطاعت میں اپنے بازو محبت سے بچھا دیں ….

 7۔ اللہ کی نافرمانی کی صورت میں والدین کی اطاعت نا کریں …..

 8۔ ان کیلئے رحمت خداوندی طلب کریں…

 9۔ مرنے کے بعد ان کیلئے بخشش طلب کریں ….۔ ؟؟؟

پیارے آقا مدنی ﷺ نے والدین کو اعلیٰ وبالا مقام و مرتبہ عطا کر کے ان کی شان کو بلند فرمایا ۔ ان کی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے اولاد کو ان سے حسن سلوک کا معاملہ کرنے کا حکم دیا۔

احادیث میں آتا ہے کہ والدین کے ساتھ بہترین سلوک رزق و عمر میں برکت کا سبب ہے (بخاری ومسلم)

آپ ﷺنے فرمایا جو اولاد اپنے والدین کی فرمانبردار ہو اور اپنے والدین کو عزت ومحبت کی نظر سے دیکھے تو اسے ہر نظر کے بدلے مقبول حج کا ثواب ملتا ہے۔ (شعب الایمان و البیہقی )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص  رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا ” دنیا میں میرے حسن سلوک کے مستحق کون لوگ ہیں” آپ نے فرمایا : ” تیری ماں ” اس نے عرض کی ” پھر کون ؟” آپ ﷺنے فرمایا ” تیری ماں ” اس نے عرض کیا پھر کون؟؟  فرمایا : ” تیری ماں "۔ چوتھی مرتبہ اس نے پوچھا تو آپ ﷺنے فرمایا  ” تمھارا باپ !”  ( صحیح البخاری)

ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ” رب کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے "

والدین کی نافرمانی ظلم عظیم ہے اور ان کی اطاعت سے روگردانی سنگین جرم ہے۔ ایسے ہی ان اولادوں سے متعلق جو والدین کی اطاعت سے روگردانی کرتے ہیں ان کو وعید سنائی ہے ۔

 بخاری شریف میں رسول للہﷺنے فرمان ہے  ” اللہ تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں لیکن جو شخص والدین کی نافرمانی اور دل آزاری کرے اس کو آخرت سے پہلے دنیا میں ہی عذاب دے دیا جاتا ہے۔

 حضرت  ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا” اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول !کس شخص کی ؟؟ آپ ﷺنے فرمایا : جو بڑھاپے کی حالت میں اپنے والدین کو پائے یا ان میں سے کسی ایک کو پائے پھر ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نا ہو ۔

 احادیث میں آتا ہے کہ والدین کے نافرمان کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا، وہ جنت سے روک دیا جاتا ہے اور اس کی نافرمانی کی سزا اسے آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی بہت جلد دکھا دی جاتی ہے۔

 والدین کا با ادب روشنیوں اور اجالوں کے حصار میںاور بڑا ہی خوش نصیب و خوش بخت ہوتاہے جبکہ ان کا گستاخ اندھیروں اور کالی گھٹائوں میں بھٹکنے والا بدبخت و بد نصیب ہوتاہے ۔

آج ہماری نوجوان نسل میں برداشت، حلم و بردباری کی کمی کے باعث یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ دوستوں کی مجلس ہو یا سہیلیوں کی محفل ۔۔۔۔ والدین کی اگر کوئی بات بری لگ جائے تو انہیں سرعام ذلیل کرتے ہوئے ذرا نہیں ہچکچاتے ۔ ان کی عزت کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر والدین کے دل پر جو چوٹ لگتی ہے اور دل کی گہرائیوں سے جو آہ نکلتی ہے وہ آسمان کو پھاڑتی ہوئی عرش الٰہی تک پہنچ جاتی ہے۔ اور یہی اس کی تباہی کیلئے کافی ہوتی ہے۔ پھر وہ ترقی و کامیابیوں کیلئے جتنی بھی دوڑ دھوپ کر لے عبث اور فضول ہے۔کیونکہ تنزلی تو اس کے مقدر میںوالدین کی بدعاکی وجہ سے لکھی جاچکی ہے۔

جن لوگوں کے ساتھ ان کے والدین کی دعائیں ہوتی ہیں وہ ترقیوں کی منازل خود بخود طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ کامیابیاں ان کے قدم چومتی ہیں۔ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالیں تو سونا بن جاتی ہے۔

 اللہ رب العزت کا قانون عدل ہے جو والدین کے ساتھ جیسا سلوک کرے گا ویسا ہی پھل پائے گا۔ دین اسلام نے ان کے معاملے میں ہم پر جو لازم کیا ہے اس کی تعمیل سعادت اور اس سے روگردانی شقاوت کا باعث ہے لہذا اب ہمارا کام ہے کہ ان کی خدمت کرکے جنت کمائیں یا ان کو ستا کر۔۔۔۔ نافرمانی کر کے جہنم کے حقدار بنیں۔

 آئیے!عہد کریں کہ جب تک ہمارے والدین زندہ ہیں ان کی تابعداری ، فرمانبرداری اور اطاعت گزاری سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائیں گے۔ اور ان کی نافرمانی اور معصیت سے اجتناب کر کے ان کی دعائیں سمیٹیں گے ۔ اس کے ساتھ ہی اپنے رب ذوالجلال سے ان کیلئے رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا ًکے ساتھ عمر میں درازی وبرکت کی دعائیں کریں گے اور اگر وہ وفات پا جائیں تو ان کے حق میں صدقہ جاریہ بن کر ان کیلئے بخشش کے طلب گار بنیں گے۔(ان شاء اللہ)

تبصرے بند ہیں۔