دہشت گرد کون؟ سنگھ یا مسلمان ؟ 

ہندوستان کی آزادی کے بعد 1952 کے پہلے جنرل انتخاب میں مولانا آزاد نے رامپور سے کانگریس کے امیدوار تھے۔ 18جنوری کورامپورکے رام لیلا گراؤنڈ میں مولانا کے انتخابی مہم کا آغازکرتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ’’ میں کانگر یس کو غیر جمہوری اورفرقہ پرست عناصر سے پاک کردونگا ‘‘پنڈت نہرو کا یہ وعدہ پورا تو نہ ہوسکا لیکن خود کانگریس کی صفوں میں فرقہ پرست لوگ بھیڑیوں کی طرح داخل ہوگئے جس ملک میں نرسمہاراؤ جیسا وزیراعظم اور شیوراج پاٹل( اوپر سے کانگریسی اور اندر سے جن سنگھی) جیسا وزیر داخلہ ہو وہاں کسی مودی کی ضرورت نہیں ہے۔ نرسمہاراؤ اور شیوراج پاٹل سے بھارت کو کتنا نقصان ہوا ہے اس بات کا اندازہ بابری مسجد کی شہادت اوران دھما کوں سے ہوتا ہے جو یکے بعد دیگر ے بھارت میں ہوئے ہیں۔ دہشت گردی میں بھگوا تنظیموں کی شمولیت کا انکشاف شیوراج پاٹل کے دور اقتدار میں خود ان کے علاقے لاتور سے ہوا تھاجب ایک بھگوا تنظیم کے گودام میں بم بناتے ہوئے بلاسٹ ہوا اور اسی گودام سے نقلی داڑھی، کرتا پائجاما اورٹوپی جیسے ملبوسات کا ذخیرہ برآمد ہوا تھا لیکن اس معاملے کو بڑی خوبیوں کے ساتھ دبا دیا گیا ہیمنت کرکرے کی تفتیش اور سوامی اسیمانند کے اقبالیہ بیان کے بعد بھگوا دہشت گردی کا بھنڈا پھوڑ ہوا۔
20 جنوری2013 کو وزیر داخلہ شوشیل کمار سندے نے سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد، اجمیر درگاہ شریف بلاسٹ کے سلسلے میں یہ انکشاف کیا تھاکہ ان بلاسٹوں میں جن انتہا پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں بہت سارے ایسے لوگ شامل ہیں جن کا تعلق آر ایس ایس اور اسکی ذیلی تنظیموں سے ہے
درج ذیل لوگوں کے نقل وحرکت پر غوروفکر کرنے سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ان دہشت گردوں کا کسی نہ کسی طور پر بھگوا تنظیم آر ایس ایس اور اسکی ذیلی تنظیموں سے تعلق ہے۔
( 1 ) لوکیش شرما :۔ سمجھوتہ ایکسپریس،مکہ مسجدبلاسٹ میں گرفتار،دیو گھر شہر،بہار میںآر ایس ایس کا متحرک کارکن (کارج واہک )رہا۔
( 2) سندیپ دانگ (روپوش ):۔ سمجھوتہ ایکسپریس،مکہ مسجد،اجمیر درگاہ شریف بلاسٹ میں منسلک، ضلع ماؤ،اندور،اتر کاشی اورشاہ جہاں پورمیں (1990 سے 2006 تک )آر ایس ایس پرچارک رہا ہے۔
( 3) سوامی اسیمانند :۔ سمجھوتہ ایکسپریس،مکہ مسجد،اجمیر درگاہ شریف بلاسٹ میں گرفتار،آر ایس ایس ونگ وانواسی کلیان پریشد،ڈانگ ،گجرات سے منسلک (1990سے 2007 تک )اورآر ایس ایس کا متحرک کارکن رہا ہے۔
(4) مکیش وانی :۔ اجمیر درگاہ شریف بلاسٹ میں گرفتار، آر ایس ایس ،گودھرا،کا متحرک کارکن رہا ہے۔
(5) دویندر گپتا :۔مکہ مسجدبلاسٹ میں گرفتار، ماؤاور اندور میں آر ایس ایس کاپرچارک رہا ہے۔
(6) چندر شیکھر لیو :۔ مکہ مسجد بلاسٹ میں گرفتارشاہ جہاں پور میں (1990 سے 2007 تک) آر ایس ایس کا پرچارک رہا ہے۔
(7) کمل چوہان :۔ سمجھوتہ ایکسپریس،مکہ مسجدبلاسٹ میں گرفتار،آر ایس ایس کا متحرک کارکن رہا ہے۔
(8) سنیل جوشی :۔ سمجھوتہ ایکسپریس،مکہ مسجد،اجمیر درگاہ شریف بلاسٹ آر ایس ایس کا متحرک کارکن رہا ہے۔
(9) لیفٹیننٹ کرنل پروہت :۔سمجھوتہ ایکسپریس،مکہ مسجد،اجمیر درگاہ شریف بلاسٹ آر ایس ایس کا متحرک کارکن رہا ہے۔
(10) رام چندر کلسانگر عرف رام جی (روپوش ):۔ سمجھوتہ ایکسپریس،مکہ مسجد بلاسٹ میں منسلک،آر ایس ایس کا متحرک کارکن رہا ہے۔
(11) اندریش کمار عرف اندریش جی :۔اس شخص کانام اے ٹی ایس کے لسٹ میں شامل ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے ان بلاسٹوں کے شازش رچنے اور انکے لئے رقم کاانظام کیا ہے یہ آرایس ایس کے سنیر رہنماؤں میں شمار کئے جاتے ہیں۔
(12) پروین توگڑیا :۔ لیفٹیننٹ کرنل پروہت نے سی بی آئی کے سامنے قبول کیا کہ پروین توگڑیا نے ابھینو بھارت کا قیام اور مالیگاؤں بلاسٹ کے شازش میں ملوث تھا۔
(13) سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر :۔انہوں نے مالیگاؤں بلاسٹ میں جو موٹر سائکل استعمال کی گئی تھی۔
(14) راجندر چودھری ،منوہر سنگھ،دھان سنگھ اور تیج سنگھ کو سمجھوتہ ایکسپریس بلاسٹ فروری2006،مکہ مسجدحیدرآبادبلاسٹ 2007، مالیگاؤں بلاسٹ7۔2006میں گرفتار کیا وزیر داخلہ کے مطابق یہ چاروں آرایس ایس کے متحرک کارکن ہیں۔
دراصل ’مسلم دہشت گردی ‘ کا بھوت برہمنی ذہنیت کی پیداوار ہے اور اسے اس لئے کھڑا کیا گیا ہے تاکہ اسکی آڑ میں حقیقی برہمن وادی ذہنیت اوراسکے دہشت گردی کے اس چہرہ کو چھپایا جاسکے جو اپنے اصلی رنگ وروپ میں نہیں آیا ہے لیکن جسکی تیاریاں بڑی زورو شور کے ساتھ مختلف طریقوں سے ملک بھر میں کئی جگہ اور مختلف سطحوں سے کی جا رہی ہیں۔
ذیل میں بھگوا تنظیموں کے ذریعہ چلائی جانے والی چند ٹرینگ کیمپوں کی تفصیل دی جارہی ہے جس سے یہ اندازہ کرنا آسان ہوجائیگا کہ ملک کے لئے ان تنظیموں کا منصوبہ کتنا خطرناک اورنقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔
2000 :۔ بجرنگ دل کے کل ہند شعبہ برائے جسمانی تربیت کے مطابق پونہ میں مارچ میں تقریبا پچاس لوگوں کو جلیٹین چھڑیوں سے دھماکہ کرنے کا گر سکھایا گیا۔
2001 :۔ بھونسالہ ملیٹری اسکول ناگپور میں چالیس روزہ تربیتی کیمپ کا انعقاد ہوا جس میں ملک بھر سے بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے 114 کارکن شریک ہوئے۔
2002 :۔15مئی کو پونہ اور لاتور میں اکیس روزہ ٹرینگ کیمپ منعقد ہوا جس میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے کارکنوں کو ہندو راسٹر کے قیام کی اہمیت بتائی گئی۔
2002 :۔ 17مئی کو بھوپال میں بجرنگ دل کے ذریعہ ایک کیمپ منعقد ہوا جس میں عام کو یہ بول کر شریک کیا گیا کہ اگر پاکستان نے ہمارے ملک پر حملہ کردیا تو ہم کس طرح اپنے ملک کو بچائیں گے۔
2003 :۔پونہ کے ایک ریزورٹ میں آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے پچاس نوجوان ایک تربیتی کیمپ میں شریک ہوئے جس میں بم دھماکہ کرنے کی تربیت دی گئی ٹرینگ دلانے والوں میں فوجی افسر پرساد پروہت عرف متھن چکرورتی،راکیش دھاوڑے،پروفیسر سرد کنٹے،پروفیسر ڈاکٹر دوا(ماہر کمیسٹری) شامل تھے۔
2003 :۔18مئی کو وشوہندو پریشد نے ممبئی کے مضافات میں ہندو لڑکیوں کو ذاتی دفاع کے نام پر جنگی تربیت دی
2003 :۔31مئی سے کانپور میں آٹھ روزہ جنگی تربیتی کیمپ منعقد ہوا جس میں فوج کے ثابق افسروں نے بندوق چلانے کا ہنر وشوہندو پریشد، آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے کارکنوں سکھلایا گیا۔
2004 :۔6 اپریل کو رات کے دیڑھ بجے نانڈیر میں آر ایس ایس کے ذمہ دارلکشمن راج کونڈار کے بنگلے میں بم بناتے ہوئے اچانک بم پھٹ پڑا اور دو لوگ ہلاک اور تین زخمی ہوگئے۔
2006 :۔ممبئی اورنگ آبادہائی وے پر واقع ایک کلب سے لکشمن جیونت نامی شخص کے قبضے سے 20 کلوامونیم نائٹریٹ اور 18 جلیٹین چھڑی برآمد ہوئی
2006 :۔4ستمبر کو احمدنگر کے فوجی مرکز سے بھنگار خریدنے والے شنکر شیلکے کے گودام سے 195کلو آر ڈی ایکس،ٹی این ٹی مکس پاوڈر کے ساتھ گرفتار کیا گیا جو9ستمبر کو پولس کسٹڈی میں مردہ پایا گیا۔
2006 :۔12دسمبر کو ناسک پولس نے شاہ پور کے پاس ایک بولیرو گاڑی سے جلیٹین کے گیارہ باکس پانچ ٹن امونیم نائٹریٹاور پچاس ڈینو نیٹر بر آمد کیا جو ایک بجرنگ دل کے کارکن کی تھی۔
2006 :۔14اکتوبر کو اورنگ آبادکے چکل تھانہ علاقہ کے ایک گاؤں کے سرپنچ کے گھر سے ساڑھے چار کلو امونیم نائٹریٹ، جلیٹین کے 186چھڑیاں ضبط کی گئی۔
دراصل بی جے پی کے لوگ آرایس ایس کے متعلق سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ان خیالات اور موقف کو چھپاکر آرایس ایس کے اصل چہرہ پر نقاب لگانا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی کو ایک مکتوب میں مہاتما گاندھی کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ہماری رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے ان دو تنظیموں( آرایس ایس اور ہندومہاسبھا)خاص طور سے آرایس ایس کے سبب ملک میں ایسا ماحول بن گیا ہے جسکی وجہ سے یہ اذیت ناک المیہ ممکن ہوسکا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو مہا سبھا کا دہشت گرد طبقہ اس سازش میں ملوث تھا آرایس ایس اور ہندومہاسبھاکی سرگرمیاں ہندوستان کی سرکاراورانتظامیہ کیلئے کھلا خطرہ ہیں۔(مکتوب ۔18جولائی1948 بحوالہ۔فرقہ وارانہ سیاست،حقیقت اور افسانہ ،ص۔60)
اسی طرح کے نظریات کچھ مہاتما گاندھی جی کے بھی آرایس ایس اور ہندومہاسبھاکے متعلق تھے جو ان کے سکریٹری پیارے لال کے حوالے سے آج بھی مختلف صفحات میں موجودہے۔ 1946کے فساد کے تناظر میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ مت بھولو کہ ہٹلر کے نازیوں اور مسلونی کے فاسسٹوں نے بھی یہی کیا تھا اور اسی طرح آرایس ایس اور ہندومہاسبھابھی تاناشاہی کا رویہ اختیار کر رہی ہے۔ یہ فرقہ پرست تنظیم ہے ،ملک کی آزاد یا کھاڑوں کے ذریعے نہیں آئے گی۔ اگر ان کا مقصد ہندومسلم تصادم میں اپنی حفاظت کی تیاری ہے تو اس کی ناکامی طے ہے اس طرح کی تیاری سے تکلیف ہوتی ہے یہ کوئی حل نہیں ہے (بحوالہ۔فرقہ وارانہ سیاست،حقیقت اور افسانہ ،ص۔69،مہاتما،جلد3 مصنف ۔جی ڈی تیندولکرص۔130سے134 اور خاکی زعفرانی لباس۔ص۔22،23)
بات 1992 کی ہے جب کانگریس کا کل ہند سیشن تروپتی میں منعقد ہوا تھا۔ اس وقت ارجن سنگھ کی پوزیشن وزیراعظم نرسمہا راؤ سے کسی بھی حال کم نہ تھی اس اجلاس میں انہوں نے پوری قوت سے فرقہ واریت کے خلاف اور بی جے پی کا نام لیکر ایک قرارداد پاس کرائی تھی جو اس بات کی کھلی دلیل تھی کہ اس وقت کانگریسی وزیراعظم نرسمہاراؤ کا رویہ فرقہ واریت کے بارے میں اطمنان بخش نہیں تھا۔ اتنا ہی نہیں کانگر یس پارلیمانی بورڈ کے ایک ہنگامی اجلاس میں ارجن سنگھ نے اجودھیا کے تنازعہ سے نمٹنے میں نرسمہاراؤ کی حکمت عملی سے واضح طور پر اختلا ف کیا تھا انڈین ایکسپریس کے رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے خلاف طاقت کے استعمال پر زور دیتے ہوئے ارجن سنگھ نے کہا تھا کہ’ کوئی سماج خون خرابہ نہیں چاہتا لیکن قوموں کی تاریخ میں ایسے بھی لمحات آتے ہیں جب ان کو اسکے لئے تیار رہنا پڑتا ہے کانگریس کی روایت رہی ہے کہ بہت سارے معاملے میں وہ سودے بازی سے کام نہیں لیتی اور اور اپنے موقف پر ڈٹ جاتی ہے‘‘ انہوں نے صاف طور پر کہا تھا کہ’’ بی جے پی ،بجرنگ د ل اوروشوہند پریشد پرکوئی اعتبار کی جائے کیونکہ ماضی میں وہ غیر معتبر ثابت ہو چکے ہیں کانگریس کو اسکا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے خوابوں کاسیکولر ہندوستان بنانا چاہتی ہے کہ بی جے پی اورجن سنگھیوں کابھارت‘‘۔
اب وقت آگیا ہے کہ سنگھ پریوار کے اصل چہرے اور انکی سرگرمیوں سے ہندوستان کے عوام کو روشناس کرایاجائے اور ان کے ذریعہ ملک و قوم پرمرتب ہونے والے غلط اورمضر اثرات کو سامنے لایاجائے اور یہ موقع خود سنگھ پریوار اور اسکی معاون تنظیموں کے چہیتے نریندر مودی نے ملک کے عوام کو فراہم کر دیا ہے جو ملک کے لئے خوش آئند ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔